ایک عالمی حکومت کاقیام

منگل 24 مارچ 2020

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

عالمی حکومت کا قیام یہودیوں کی ایک دیرینہ خواہش ہے ۔یہ وہ خواہش ہے جسے وہ گزشتہ ہزار سال سے اپنے سینوں میں پال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے تمام مختلف حکومتیں اور فوجیں مٹ جائیں اور صرف ایک ہی حکومت یہاں قائم ہو جس کی قیادت ان کا مسیحا ”دجال“ آکرکرے۔ واضح رہے کہ ایک مسیحا کی آمد کی پیشین گوئی ان کے صحیفے تالمود میں ملتی ہے۔

چنانچہ وہ بے چین ہیں کہ ان کا مسیحا آئے اور عالمی حکومت قائم کرے۔ اپنی عبادتوں میں وہ ہر روز یہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا ان کا مسیحا جلد آئے۔
صورت حال یہ ہے کہ یہودی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ ،بلکہ عیسائیوں کی بھی ناپسندیدہ ترین قوم رہے ہیں۔ عیسائی انہیں اپنے پیغمبر کا قاتل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے تو یہودی ایک بار پھر انہیں قتل کرنے کی سازش کریں گے۔

(جاری ہے)


چنانچہ اپنے پیغمبر کے قتل کے باعث عیسائیوں نے اب سے تین سو سال قبل تک یہودیوں کو کبھی معاف نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پورے یورپ میں ان کا پیچھا کیا۔ انہیں اجتماعی اور انفرادی طور پر قتل کیا۔ ان کے گھر بار جلا ئے۔ ان کی فصلیں اور کاروبار تباہ کیں۔ ان کے ہیکل Temple کو مسمار کیا۔ اور انہیں دنیا بھر میں اچھوتوں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور کیا۔

یہودی جہاں بھی گئے قرآن کے بقول وہ ”اللہ تعالیٰ کے غضب ہی میں گھرے رہے“۔ عیسائیوں کی سختی اور بربریت کے باعث پورا عیسائی یورپ ان کے خون کا پیاسا تھا۔وہ انہیں کہیں بھی پناہ حاصل نہیں کرنے دیتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتے تھے، انہیں وہاں مارا جاتا اور نکال دیا جاتا تھا۔ قبلِ مسیح ہی سے ان کا حال یہ تھا۔ ان کا یروشلم اور ان کا ہیکل کئی بار اجاڑا اور کئی بار بسایا گیا۔

اس دوران ہزاروں سال تک انہوں نے جلاوطنی کی زندگی گزاری جسے وہ آج خود بھی Diaspora کہہ کر یاد کرتے ہیں ۔ساری دنیا میں وہ سب سے زیادہ ذلیل قوم گنے جاتے تھے۔ اب سے ۲۰۰سال پہلے تک عیسائی انہیں روئے زمین کی سب سے خبیث ترین قوم قرار دیتے تھے حتیٰ کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں بڑا طاعون پھیلا تھاتو اس کا ذمے دار بھی انہوں نے یہودیوں ہی کو ٹھہرایاتھا ،حالانکہ یہودی خود بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔


ہٹلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ۶۰ لاکھ یہودیوں کو اجتماعی طور پر قتل کیا تھا جسے یہودی آج Holocaust کے نام سے دنیا بھر میں پھیلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر اگر دس سال مزید زندہ رہ جاتا تو یہودیوں کا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ اگرچہ اب خود مغرب کے مفکرین ہولوکاسٹ کی حقیقت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ محض افسانوی باتیں ہیں جن کی بنیاد پر یہودی، عیسائیوں سے ہمدردی حاصل کر رہے ہیں۔

تاہم یہ با ت طے ہے کہ ہٹلر نے ان یہیودیوں کی خباثت کو بہت اچھی طرح پہچان لیا تھا۔
تو یہ تھی وہ صورت حال جس سے یہودی گزشتہ صدیوں میں گزرتے رہے ہیں۔ یورپ اس وقت دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک عیسائی یورپ جو اصل اور بڑا یورپ تھا ۔اور دوسرا مسلم یورپ جو بہت چھوٹا تھا۔تاہم عیسائی یوروپ کے مقابلے میں مسلم یوروپ میں یہودیوں کو تمام تر آزادی حاصل تھی۔

اسی لئے وہ پناہ کی تلاش میں مارے مارے مسلم یوروپ میں داخل ہورہے تھے۔
اپنے خلاف ہونے والے عیسائیوں کے اس وحشیانہ سلوک کی وجہ سے یہودی قوم نے پھر اندازہ لگا لیا تھا کہ رہتی دنیا تک کے لئے اب ان کی قسمت میں ذلت و خواری ہی لکھی ہوئی ہے اور وہ اب ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے کبھی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ چنانچہ مایوس ہو کر انہوں نے اپنی تمام تمنائیں آنے والے ایک فرضی مسیحا ”دجال“ سے وابستہ کر لیں۔

ان کا کہنا تھاکہ وہ آئے گا اور عزت و سربلندی عطا کرے گا۔ اس کے بعد پھر ساری دنیا پر انہی کی حکمرانی ہو گی۔ دجال ان کا لیڈر ہو گا اور اس کی قیادت میں وہ باقی تمام قوموں، خصوصاً عیسائیوں کو تو ضرور اپنا غلام بنا لیں گے۔ اسی کو وہ” عالمی حکومت “کہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ بھی دراصل ان کی انہی تمناؤں کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے۔ سیاسی منصوبوں پر مبنی ان کی اہم دستاویز ”پروٹوکول“ میں واضح طور پر درج ہے کہ” ہمیں ہر صورت میں اپنی ایک سپر (اعلیٰ ترین) حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہئے“۔

امریکہ کے ایک معروف وکیل” ہیری کلسن“ نے اپنی کتاب "Zionism Rules the World" (1948) میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”اقوام متحدہ صیہونیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ اس عالمی حکومت کا نام ہے جسے بزرگ صیہونیوں نے اپنی کتاب ”دی پروٹوکول“ مرتب شدہ 1895ء تا 1897ء میں قائم کرنا چاہا ہے۔“
 چنانچہ انہی حالات و واقعات اور اپنے طے شدہ منصوبوں کے تحت یہودی اب اپنی ایک عالمی حکومت قائم کرلینا چاہتے ہیں تاکہ دنیا بھر سے وہ اپنی بے عزتیوں اور خون کا بدلہ لے سکیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ زمین سے تمام بت پرستوں (یعنی یہود مخالف اقوام ) کا خاتمہ کر دیں۔
دوسری طرف عیسائی بھی ان کے عقائد سے متاثر ہو کر اپنی ایک علیحدہ عالمی حکومت کے خواب الگ دیکھنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ زمین سے یہودیوں اور
۔۲۔
مسلمانوں کو پاک کر دینا چاہئے تاکہ دنیا میں صرف عیسائی قوم باقی رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی عالمی حکومت ان کے مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام قائم کریں گے۔

یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر وہ ایک خوفناک خونی جنگ ”آرمیگاڈون “ بھی برپا کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہودی بھی مٹ جائیں اور مسلمان بھی۔ ان کے نزدیک آرمیگاڈون خیر و شر کے معرکے کا دوسرانام ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بادلوں سے اتر کر تمام عیسائیوں کو اوپر بلا لیں گے جہاں سے وہ زمین پر برپا ہونے والے اس خونی معرکے کو آرام سے بیٹھے دیکھا کریں گے۔

اپنے اس عقیدے کو وہ Rapture کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
لہٰذا عالمی حکومت کا قیام دونوں قوتوں کے ایجنڈے میں موجود ہے اور وہ اس کے لئے سر توڑ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت بظاہر یہودیوں اور عیسائیوں میں ہم آہنگی ہے لیکن اندر اندر وہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف منصوبے بنائے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔
لیکن اگر اس وقت ہم یہ کہیں کہ ایک عالمی حکومت کا قیام خود اسلام کے اپنے ایجنڈے میں بھی شامل ہے تواس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے۔

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد عیسائی اپنے پیغمبر کو شناخت کر لیں گے اور ان کی زبانِ مبارک سے اسلام کو اصل اور واحد دین قرار دئیے جانے کے بعد اپنے تمام عقائد سے تائب ہو کر وہ از خود اسلام قبول کر لیں گے۔ اس طرح دنیا سے ایک بڑے مذہب ’عیسائیت ‘کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔

بد قسمتی سے یہودی اس وقت بھی بدبخت ثابت ہوں گے اور دجال کی قیادت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جنگ کا آغاز کردیں گے۔ حتیٰ کہ جس درخت اور پتھر کے پیچھے یہودی چھپے ہوئے ہوں گے وہ مسلمانوں کو پکار پکار کر انہیں قتل کرنے کے لئے دعوت دے رہے ہوں گے۔ اس طرح آخر کار یہودی بھی یا تو چن چن کر قتل کر دئیے جائیں گے یا پھر ان میں سے کچھ بچے کھچے لوگ اسلام قبول کرلیں گے ۔

اور یوں دوسرا اہم سازشی مذہب یہودیت بھی زمین سے نیست و نابود ہو جائے گا۔ باقی دوسرے جعلی مذاہب بھی انہی کی مانند زمین سے مٹ چکے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ  زمین پر تشریف لانے کے بعد نبی ﷺ کی شریعت میں ایک ہلکی سی تبدیلی کریں گے کہ وہ جزئیے کا سلسلہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اس کے بعد ٹیکس دے کر اپنے مذہب کو برقرار رکھنے کی شق ختم کر دی جائے گی۔

اس کے بعدتو پھر اصول یہ طے کر دیاجائے گا کہ یا تو اسلام قبول کر لو یا پھر جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ درمیان کا کوئی راستہ اب باقی نہیں ہے ۔
یوں آخر کار اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا۔ آپ ﷺ نے پہلے ہی فرمادیا ہے کہ اپنے تمام تر زوال کے بعد دین اسلام ہر اس جگہ پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات طلوع ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ نے آگاہ کر دیا ہے کہ اسلام ہر محل، ہر جھگی اور ہر اونچی نیچی جگہ پر پہنچ جائے گا۔

اور لوگ اسے قبول کر کے ہی رہیں گے خواہ خوشدلی سے قبول کریں یا طوعاً و کرہاً!۔ یک اور موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”ہر جگہ امن و امان کی صورت ِ حال قائم ہو جائے گی اور لوگ تلواروں کو ادرانتی کے طور پر استعمال کریں گے۔ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ چرے گا اور شیر بیل کے ساتھ رہے گا۔ اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو گا“ (مسلم کتاب الایمان)۔

جب صورت حال یہ ہو جائے گی تو ایک عالمی حکومت کا قیام از خو د عمل میں آجائے گا ۔ اور اس کی قیادت بھی اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ وہی اس وقت کی سپر گورنمنٹ کے صدر ہوں گے اور وہی وزیر اعظم اور سپہ سالار اعلیٰ ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں پھرکسی بھی سازشی اقوام متحدہ جیسے ادارے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
چنانچہ عالمی حکومت کا قیام ایک بالکل صحیح امر ہے اور اسلام بھی اس ایجنڈے کو تسلیم کرتا ہے۔

لیکن وہ عالمی حکومت صرف اور صرف اسلام کی ہو گی” خواہ یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گذرے!“۔ اور اس کے سربراہ حضرت عیسیٰ  خود ہوں گے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی جانب سے اس نعرے کو بلندآہنگ سے اٹھانے والا اس دنیا میں کوئی بھی مضبوط فرد نہیں پایا جاتا۔
 ہاں عالمی حکومت کے منصوبے کو ہم بھی OWN کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :