درویشوں کی اسمبلی

جمعرات 28 نومبر 2019

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

ہمارے ملک کی یہ اسمبلیاں ذاتی مفادات والے ان بے ضمیر ارکان کی شکار گاہیں ہیں جہاں وہ محض عوا م اور ملک کو لوٹنے کی خاطر کئی سالوں تک قبضہ کئے بیٹھے رہتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں، گزشتہ کئی عشروں سے جنہوں نے طے کیا ہواہے کہ وہ عوا م کے ووٹوں کو کھنکتے سکوں کی جھنکا ر سنا کر اور انہیں چکنے چپڑے سہانے خواب دکھا کر اونچی اونچی مسندیں حاصل کریں گے، جبکہ جواب میں عوام کے لئے زندگی دشوار سے دشوار تر کریں گے ۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ اسمبلیاں بڑ ی ہیں یا چھوٹی، قومی ہیں یا صوبائی، ایوان ِ بالا ہیں یا ایوانِ زیریں!۔ تما م کی تمام اسمبلیاں ،اور ان کے سارے مکین ،سب کے سب ایک ہی رنگ و روپ کے مالک ہیں۔ان کی بڑی بڑی جاگیریں ہیں، بڑھتی چڑھتی صنعتیں ہیں، لمبی لمبی فیکٹریاں ہیں، اور بڑے بڑے آف شور بیلینسز ہیں۔

(جاری ہے)

یہ اسمبلیاں ان تمام معزز ارکان کے کاروباری دفاتر ہیں جن کے اونچے اونچے شملے ،گھنی گھنی مونچھیں ،اور ہیبت ناک کرو فر ہوتے ہیں۔

ایوانوں میں داخل ہوکر یہ معززین ِ زمانہ سب سے پہلے اللہ ،اس کے رسول ، اور مملکت ِ پاکستان سے پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں ،اور پھر دوسرے ہی دن سے اپنے روایتی کاروبار کاآغاز کردیتے ہیں۔ لوگ انہیں منتخب کرکے اسمبلیوں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ وہاں بیٹھ کر ملک و قوم کے حق میں بہترین فیصلے کریں گے،پسے ہوؤں کو اوپر اٹھائیں گے، کچلے ہوؤں کو عزت دیں گے، افلاس کی ماری ہوئی قوم کو سہولتیں فراہم کریں گے۔

لیکن جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ عوام کی محض بے عزتی ہوتی ہے۔ ان کا حلف نیک ہوتا ہے،ان کی زبانیں میٹھی ہوتی ہیں، ان کے چہرے معصوم ہوتے ہیں،مگر ان کے عزائم خوفناک ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”عزائم کو سینوں میں بیدا رکردے“۔مگر اپنے عزائم کو”سینوں“ کی بجائے یہ معزز ارکان ِ اسمبلی” اسمبلیوں “میں بیدار کرتے ہیں۔ملک کی تقدیر بدلنے کی خاطر یہ حضرات ملک کا جغرافیہ تک بدل کر رکھ دیتے ہیں، پسے ہوئے لوگوں سے حلق کا نوالہ تک چھین لیتے ہیں، لڑکیوں کو اپنے پالتو غنڈوں سے اٹھو اکر حویلیوں میں ڈال لیتے ہیں، مظلوم ہاریوں کو نجی جیلوں میں قید کردیتے ہیں، اور بڑی عزت و شان سے سرکار ی بجلی چوری کرتے ہیں۔

بجلی کی چوری پردوسروں کو تو جیل بھجواتے ہیں اوراپنی باری پر قانو ن ہی تبدیل کردیتے ہیں۔ کیوں؟۔ا س لئے کہ قانون سازی ان کے کردار کاایک اہم حصہ ہے ۔اور پنے ان سارے فرائض کے نتیجے میں یہ معزز نمائندگان، حکومت ِ پاکستان سے ہر ماہ بھاری بھاری مشاہرے اور لمبی لمبی سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔ان کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے قوانین پسے ہوئے لوگوں کے لئے کچھ اورہوتے ہیں اور اپنے طبقوں کے لئے کچھ اور!۔

جیسا کہ ابھی حال ہی میں ان کا متفقہ فرمان آیا ہے کہ” ان کے مشاہرے اتنے کم ہوتے ہیں کہ چیکس پر دستخط کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے“۔ اپنی خدمات کے عوض یہ حضرات پورا ملک اپنی خدمت کے لئے وقف کرلیتے ہیں ۔ ملک کے تمام ہسپتال، خزانے، بینک، بڑی بڑی کارپوریشنیں، اور زرعی زمینیں سب کی سب اپنے اہل و عیال اور سسرال کی ملکیت گردانتے ہیں۔ہر چھوٹی اور بڑی جگہ پر انہی کے اعزا و احباب براجمان نظر آتے ہیں۔

جیسے کہ یہ سارا پاکستان انہی کی خدمات کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ” تو نہیں جہاں کے لئے ،یہ جہاں ہے تیرے لئے“۔لیکن ہمارے اور آپ کے یہ معزز و شریف نمائندگان کہتے ہیں کہ ”ہم نہیں وطن کے لئے ،یہ وطن ہے ہمارے لئے!“۔قائد اعظم نے پاکستان شایدہمارے اور آپ کے لئے نہیں تخلیق کیا تھا بلکہ انہی مخدوموں، شریفوں،پیرزادوں، مریموں، بختاوروں،صنعتکاروں اور وڈیروں کے لئے تخلیق کیا تھا۔

ان کے ہاتھوں سے بنائے گئے قوانین دو درجوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ایک قانون یہ غریبوں کے لئے بناتے ہیں جس میں محرومیاں ہیں، سسکیاں ہیں،اورتازیانے ہیں۔اور دوسرا قانون یہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے بناتے ہیں جن میں کہیں کوئی محرومی نہیں ہے،کہیں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ چونکہ ان کے درجات بلند ہیں،بہت بلند، اس لئے دوسرے قسم کے قوانین میں یہ پورا ملک اپنے گھروں میں ڈال لیتے ہیں۔

ان کے بنائے ہوئے قوانین کے نتائج دیکھنے ہوں تو میرے دیس کے غریب و بے زبان عوا م کو دیکھنا چاہئے جن کے اندر محرومیوں کے باعث خود کشیوں کی وارداتیں بہت رواج پاتی چلی جارہی ہیں، صحت کے لئے قائم اسپتالوں کو دیکھنا چاہئے جہاں عام مریضوں کو جانوروں کے برابر بھی درجہ نہیں دیاجاتا، اوربلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو دیکھنا چاہئے جو پانی کی تلاش میں بالٹیاں لٹکائے دور دور تک بھٹکتے پھرتے ہیں۔


پاکستان کی دھرتی کے ان قانون سازوں نے میرے خوبصورت وطن کی مٹی بھی دشمنوں کو فروخت کردی ہے،انہوں نے میری دھرتی کے نشان ِ حیدر پانے والے مجاہدوں ،میجر عزیز بھٹی، راشد منہاس، او رسوار محمد حسین شہید کے مقدس خونوں تک کو امریکہ کو بیچ دیا ہے،انہوں نے اس مقدس دھرتی کے سینے پر مونگ دلی ہے، ان ہوس کے درندوں نے وطن کی سلمیٰ اور اسماء کی چادریں تا رتار کی ہیں۔

یہ انسانیت کے روپ میں درندے ،اور آدمی کے روپ میں خدا ہیں۔ اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسمبلی کے یہ ارکان غلام محمد کے دور کے ہوں یا ایوب خان کے دور کے، یہ ذوالفقار رعلی بھٹو کے جیالے ہوں یا مرحوم جونیجو کے مسلم لیگی ،یہ بے نظیر دور کے خدمت گزار ہوں یا میاں نواز شریف کے وفادار!۔ان سب کے رنگ وروپ اورروغن و آرائش بالکل یکساں ہی جیسے نظر آئیں گے۔

ان کے بنائے ہوئے قوانین ہر جگہ ایک ہی رہتے ہیں اور تباہی وبربادی بالکل برابر ہوتی ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا گیاہے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو
اگر یہ معزز ایوان عوام کو سکھ نہ دے سکیں، اگران ایوانوں سے اہلِ وطن کے شب و روز تبدیل نہ ہوسکیں،تو پھر عوا م کو ان ایوانوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔


تیری زمیں سے تیرے آسماں سے باز آیا
اگر جہاں یہی ہے تو اس جہاں سے باز آیا
 ہمیں تو بس ایسی اسمبلی چاہئے جہاں نیک و خدا ترس نمائندے آکر اپنی فطری ذمے داریاں سنبھالیں،جہاں جاگیر دار اور مخدومین ڈیرا جمائے نہ بیٹھے ہوں۔بلکہ جہاں فقیروں اور درویشوں کا بسیرا ہو۔ہمیں ضمیر فروشوں کی نہیں ، درویشوں کی اسمبلی کی ضرورت ہے ۔بس یہی لوگ ہیں جو بے کس عوا م سے پیار کرسکتے ہیں،جو ملک کی کھوئی ہوئی عظمت ِ رفتہ کو واپس لاسکتے ہیں۔

درویشانِ خدا مست کو دنیا کے لاؤ لشکر اور جاہ و حشم سے کیا مطلب؟۔ یہ لوگ چھیننے کی بجائے لٹانے کی ․صفت رکھتے ہیں،لینے کی بجائے دینے کی تمنا رکھتے ہیں، جہاں سے اٹھیں گے ، دامن جھاڑ کر اٹھیں گے۔
یہ درویش صفت ارکانِ اسمبلی ،ایوانوں میں لینڈ کروزر اور پجارو کی جگہ موٹر سائیکلوں اور پرانی کاروں پر سوار ہوکر آیا کریں گے۔قانون سازی کریں گے تو اہل ِ وطن کے رِستے ہوئے زخموں کا لحاظ کریں گے۔

دن کو اجلاس میں شریک ہوں گے تو راتوں کو مصلوں پر ہوں گے۔ اس لئے پور ے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں انقلاب ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں جنم لے گا۔صبح کی تازہ کرنیں یہیں سے نمودار ہوں گی۔ اسمبلیوں میں بیٹھنے والے موجود ہ ارکان اپنی اصل میں امریکہ و بھات کے غلام ہیں۔اس لئے ان سے نجات اب ناگریز بن گئی ہے۔
اس لئے اے مہربانو،ہمارے غم میں گھلنے والو!،ہمارا پاکستان ہمیں واپس کر دہ۔ہم خود ہی اس کی تقدیر سنواریں گے۔یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔یہ تمہاری فطرت ہی میں داخل نہیں ہے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :