علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے

پیر 20 جنوری 2020

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

یہ ایک بہت معروف جملہ ہے جو گھوم پھر کر باربار سامنے آتا رہتا ہے۔عمومی طور پر اسے ایک حدیث کے طور پر لیا جاتاہے ، حالانکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ کسی عرب دانشور کا قول ہے ، اگرچہ کہ بہت عمدہ ہے کیونکہ اس میں طلب ِعلم کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔”علم حاصل کرو ،خواہ تمہیں چین جابنا پڑے!“ ۔یعنی محض چند کتابیں ہی پڑھ کر نہ رہ جاؤ بلکہ دور دراز کا کٹھن سفر طے کرکے ”اعلیٰ تعلیم“ حاصل کرنے کی بھی جستجو کرو۔


ایک پہلو جس کی طرف ہمارے دینی حلقوں میں توجہ دلائی جاتی ہے ، یہ ہے کہ جو علم مدرسوں اور دارالعلوموں میں دیا جاتا ہے، بس وہی علم اصل علم ہے ، اور اسی علم کی جانب نبی ﷺ نے بار بار رہنمائی فرمائی ہے۔ ” علم حاصل کرو مہد سے لحد تک، ربِ زدنی علما، اورعلم کی طلب ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے‘ ،وغیرہ جیسی آیات و احادیث سے دراصل دینی علم ہی مراد ہے“، دینی اساتذہ کا کہنا ہے ۔

(جاری ہے)

ان کا تبصرہ ہے کہ یہ جتنا بھی عصری و جدیدعلم حاصل کیاجارہا ہے ، یہ بڑی حد تک فساد اور خدا سے دورکردینے والا ہے۔ بات اپنے لحاظ سے یہ درست بھی ہے کیونکہ انسانیت کی قبا سو بار انہی دنیاوی علوم والوں کے ہاتھوں چاک ہوئی ہے۔ اس لئے جو علم بھی اللہ تعالیٰ سے بندوں کو ملائے ، بس وہی علم علم کہلائے جانے کے قابل ہے۔ورنہ باقی سب ہیرپھیرہے۔
تاہم اس امر پر بھی غور ضرور کیاجانا چاہئے کہ آیات و احادیث میں تاکیدکئے گئے علم سے آخر کون سا علم مراد ہےْ؟۔

دینی ؟۔یا دینی و دنیاوی دونوں؟َ یہ سوال بھی اہم ہے کہ نبی وﷺ نے کیا انگریزی و جد یدعلو م سے فی الواقع ناپسندیدگی کا اظہار کیاہے؟۔ اور کیا مغربی کُلیا ت اور جامعات کی تعلیمات سے انسان فی الواقع اللہ تعالی ٰ سے دور ہوجااستا ہے؟ ۔ہمارا کہنا ہے کہ کم از کم اسلامی تاریخ تو یہ ثابت نہیں کرتی !۔ جنگ ِ بدر میں مشرک قیدیوں کو جب فدئیے کے بدلے میں رہا کرنے کی سبیل نکالی گئی تو ان کا ایک فدیہ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے صحابہ ء کرام کو ”علم “ سکھانا بھی قرار دیا گیا۔

اب ظاہر ہے کہ مشرک قیدیوں کے پاس کوئی دینی علم تو تھا نہیں۔ اس لئے بس یہی طے ہو ا کہ اپنی حد تک وہ صحابہ ء کرام کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں ۔پھر بعد کے ادرار میں بھی بے شمار مسلم سائنس دان جو ناموری کے درجے تک پہنچے ۔ مثلاً ابنِ سینا ، ابنِ رشد، الرازی ، وغیرہ۔ ان حضرات نے دنیا کو جو دوائیں ، جراحی آلات، تاریخ، جغرافیہ کے قوانین، زمین کی پیمائش ، اصطرلاب،ا ور بے شمار دوسری دریافتیں دی تھیں، ظاہر ہے کہ ان سب کے علوم رواجی طور پرتوہرگز بھی ”دینی“ نہیں تھے۔

بلکہ اپنے وقت کے جدید علوم تھے جن سے فیضیاب ہوکر پھر مغربی ماہرین نے بھی مزیددر یافتیں کی تھیں۔ تاہم بعد کے ادوار کے کسی بھی جید عالم یا فقیہ (امام مالک، یاامام بخاری وغیرہ ) نے ان دریافتوں اور علوم کو ”غیر دینی “ کہہ کر مسترد نہیں کردیاتھا۔
قرآنِ پاک اور احادیث تاکید کرتے ہیں کہ دشمنوں کے ساتھ مقابلے کے لئے مسلمان اپنے گھوڑے تیا ر رکھیں۔

وہ ہدایت کرتے ہیں کہ مسلمان تیراندازی سیکھ کر اسے بھول نہ جائیں۔یہ اور اسی طرح کی دیگرتاکیدی احادیث ہمیں دراصل ِ اسلحہ جات کے حصولِ علو م کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اسلحہ نہ تو مسلم ممالک میں کار آمد تیار ہوتا ہے،ا ور نہ ان کا شافی و کافی علم ہی ان کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ان تمام معاملات میں سارا مسلم بلاک فی الاصل مغربی دنیا ہی کا محتاج ہے کیونکہ جنگی ٹیکنالوجی تما م کی تما م تر وہیں تیا ر ہوتی ہے اور وہیں سے مسلم دنیا میں درآمد ہوتی ہے۔

چنانچہ اگر موجودہ دنیا وی تعلیم حاصل نہ کی جائے تو دشمنوں سے مقابلے کے لئے پھر نبی ﷺ کی ہدایات پر کس طرح عملدرآمد کیاجائے گا ؟۔ پاکستان میں تیا ر کردہ ایٹم چونکہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے ،اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے دنیا وی مروجہ تعلیم حاصل کرکے دراصل دینی تقاضوں ہی کو پورا کیا تھا۔
دوسری جانب یہ جو دنیا کا جاری و ساری کاروبارِ مملکت و معیشت ہے ، مسلمانوں کے لئے اس پر بھی ماہرانہ عبور لازم ہے۔

ورنہ پھر مملکت کا نظام چلانا قطعی ممکن نہ رہےْ گا۔ یہی حال پھر معیشت، طب ، زراعت، خلا، اور تعمیرات وغیرہ کے شعبوں کابھی ہے جہاں مروجہ تعلیم کے بغیرمسلمان کچھ بھی حاصل نہ کرسکیں گے۔بلکہ الٹا ہرلحاظ سے مغرب ہی کے محتاج رہیں گے۔
روایتی دینی تعلیم جو اس وقت ہماری دینی جامعات میں جاری و ساری ہے،وہاں عموماً حالاتِ حاضرہ کے پیچیدہ مسائل ، مثلاً ذرائع ابلاغ (خصوصاً ٹی وی چینلز، اور انٹرنیٹ) ، سیاسیات ، اقتصادیا ت ، سفارت کاری ،خلا ئی قوانین ،اور زیر ِزمین وسائل وغیرہ کا کوئی گذر ہی نہیں ہے۔

چنانچہ ظاہر ہے کہ پھر محض روایتی دینی علوم سے ملک و ملت کے پیچید ہ مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ۔ ان جامعات سے اچھے حافظ ، قاری ، اور مفتی حضرات تو حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن ا یک ماہر ِ بحریات ، فاضل ِحجر یات، اور عالمی ایٹمی سائنسدان حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ مذکورہ گفتگو سے یہ بات طے ہوئی کہ مذکورہ دنیا وی علوم کی افادیت اپنی جگہ پر مسّلم ہے۔


قرآن پاک جب ہدایت کرتا ہے کہ انسان نظامِ کائنات پر غور کرے ،ا ور دیکھے کہ خود اس کے اپنے جسم اور درختوں اور جانوروں میں بھی اللہ تعالیٰ نے کیا کیانشانیاں چھپا کر رکھی ہیں، تو لازم ٹھہرتا ہے کہ اس پرغورو فکر کے لئے دینی تعلیمات سے مستفیدہونے کے ساتھ ساتھ رائج الوقت جدید علوم میں بھی گہرائی حاصل کی جائے۔ بھلاکیسے ممکن ہے کہ انگریزی ، سائنس ، یا ضیات ، معیشت اور موسمیات و فلکیا ت وغیرہ میں مستند واقفیت حاصل کئے بغیر ہم نظام ِ کائنات، انسانی جسم ،اور موسموں کے تغیر و تبدل کامکمل احاطہ کرسکیں؟ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرتِ شان کو اپنے ذہنوں میں سمو سکیں؟۔

یہ بھی بہرحال ممکن نہیں ہے کہ تعلیمِ جدید و نظم و نسق ِ عالم کے معاملات تو ہم محض کفار و مشرکین کے لئے چھوڑدیں ، اور خود مروجہ دینی علوم (عربی ، منطق، نحو، اور مثنویء مولانا روم وغیرہ ) پر اکتفا ء کئے رہیں ؟۔ شریعتکا تقاضا توہر گز یہ نہیں ہوسکتا۔
شریعت نے مسلمانوں سے دو ٹوک طور پر فرمادیا ہے کہ اُنہیں اللہ نے تمام دنیا کی فرمانروائی کے لئے ہدایت دینے کے منصب پر فائز کیاہے ۔

اس لئے اس ذمے داری کو انہیں کما حقہُہ انجام دینا چاہئے جیسا کہ علامہ اقبال  فرماتے ہیں کہ #
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، شجاعت کا، عدالت کا
لیاجائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
اب ظاہر ہے کہ دنیاکی امامت مسلمان تب ہی کرسکتے ہیں جب انہیں میزائل ٹیکنالوجی ، تاریخ و جغرافیہ ، معاشیات، سیا سیات،بحریات، اور کمپیوٹر وغہرہ جیسے پیچیدہ علوم میں حیران ان کن عبور حاصل ہو!۔

چنانچہ اس مقصد کے لئے انہیں انگریزی نظامِ تعلیم سے لازماً گذرنا ہوگاخواہ اس نظام کو ملحدوں اور دہریوں ہی نے کیوں نہ ایجاد کیا ہو!۔ بے شک عالمی رہنمائی کے لئے ان کے پاس دینی علوم اور اخلاق ِ کاملہ میں بھی مثا لی دسترس لازمی ہے ۔
جس بھی مسلم مفکر نے مسلمانوں سے اصرار کے ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جاناپڑے “ تو اس سے دنیا وی تعلیم کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔

چین میں مذہبی تعلیم دئے جانے کا تو سوال ہی پیداا نہیں ہوتا ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا علم ہے جس کے حصول کے لئے مسلمانوں کو چین جیسے دور دراز ملک میں بھی سفر کی ترغیب دی گئی ہے؟ْ۔ظاہر ہے کہ وہی دنیاوی و عصری علوم جن کے بل بوتے پرموجودہ دنیا کا نظام کارفرما ہے۔گمان کیاجاسکتا ہے کہ اس وقت تک چونکہ چین کا نام معروف تھا ،اس لئے قول میں اسی ملک کا نام لیا گیا۔

ورنہ اگر امریکہ کا نام بھی اس وقت کی دنیاکو معلوم ہوتا تو شاید یہ قول اس کے ساتھ وابستہ کیاجاتا۔”ولو کانَ بالامریکہ“ ۔ پھر قول مذکورہ سے ایک اوردلچسپ پہلو مزید سامنے آتا ہے ۔ اگر لوگ دنیاوی علوم کے لئے چین جا سکتے ہیں تو پھر انگلینڈ ، امریکہ ، اور فرانس وغیر ہ کی جانب کیوں نہ رخ اختیار کریں جہاں رائج الوقت علوم اپنے عروج پر ہیں۔

چنانچہ اگر مسلم طلبہ اگر آج چین ،امریکہ،اور فرانس جاکر تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اس پر ہرگز یہ فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی دین مخالف تعلیم حاصل کرنے جارہا ہے۔
علم تو یوں بھی مسلمانوں کی میر اث ہے ۔وہ کہیں سے بھی ملے ، حاصل کرلیناچاہئے ۔ معلوم رہنا چاہئے کہ مسلمان دینی لحاظ سے جب تک سرگرم و باعمل رہے ، تو علم کی تمام تر اہمیت صرف ہم ہی نے محسوس کی تھی ۔

باقی تمام دنیاتو علم کی کتابیں جلاڈالتی تھی اور کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلتی تھی۔
سمجھنے کی بات ہے کہ اسلام کے نزدیک علم کی دینی و دنیاوی تقسیم ایک غیرپسندیدہ امر ہے ۔ اس کے نزدیک علم علم ہے خواہ وہ مغرب کا ہو ، مشرق کا ہو، برہمن کا ہو، یا ایرانیوں اور پارسیوں کا ہو۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ طالبِ علم کو وہ علم اللہ کے راستے سے ہٹا کر واشنگٹن اور لندن کی راہ پر نہ گامزن کردے!۔


بیشمار علماء آج ہمارے درمیان ایسے ہیں جنہوں نے رائج الوقت انگریزی تعلیم کا شاید محض ایک فیصد حاصل کیا ہوگا لیکن جن کی اولادیں آج بیرونی یو نیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں ۔
جن معاملات میں شریعت نے واضح پابندی لگادی ہو ، انہیں چھوڑ کر دوسری کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی۔ یہ اس کے برتنے کا طریقہ کارہوتا ہے جو کسی معاملے کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔

زندگی کے بیشترمیدانوں میں اسلام نے انسانوں کو آزادیء اختیار دیا ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ ،کہ حاصل شدہ اس آ زادی میں وہ یہ دیکھتارہے کہ اللہ کی راہ سے وہ کہیں بھٹک تو نہیں رہا ؟ ،دور تو نہیں جارہا؟۔ بقول شاعر کہ ، اگر یہ تمام چیزیں کعبے کی طرف نہیں پہنچ رہی ہیں تو پھر سب کی سب ”بو لہبی“ ہیں۔اکبر الہ آبادی نے ان تمام گذارشا ت کو حسب ذیل قطعے میں بہت عمدگی کے ساتھ سمیٹا ہے۔


تم شوق سے کالج میں پڑھو ، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو ، چرخ پہ جھولو!
بس ایک سخن بندہء عاجزکا رہے یا د !!
 اللہ کو اور اپنی حقیت کو نہ بھولو !!
یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ علم جس سے پروردگار ، اس کی مخلوق ، اور اس کے مادر وطن کے حقوق ادا ہوتے ہوں، دینی ہے ، خواہ اس کی ڈگری مغربی جامعات سے لی جائے ، یا سعودی عرب کی جامعة المدینہ سے!۔
لہٰذا ”علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے “ کا معروف قول دینی و دنیا وی دونوں ہی قسم کے مفیدعلوم پر محیط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :