آج سے ستر سال پہلے کی معصوم دنیا

منگل 5 مئی 2020

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

آج سے ستر سال  پہلے تک کی دنیا!۔ وہ دنیا جو تب تک ایسی نہیں تھی جیسی  آج پر سہولت نظر آتی
ہے ۔ جفا کش ۔ پر مشقت ۔ تھکا دینے وا لی!۔ اورپھر مشقتیں ؟۔ وہ بھی ذ ہنی سے زیا دہ جسما نی! ۔ تھکے  بغیر کوسوں کوس پیدل چلتے رہنا، مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی!۔ بھاری بھاری بوجھ پیٹھ پر لاد نا اور تما م کام ہا تھوں ہی سے انجام د ینا۔

بجلی جس کی چکا چوند آج سب کو مار ے ڈا لتی ہے، کل تک ا تنی عا م نہیں تھی کہ عیا شی کی جا سکے۔ اسی لیے سہولتیں بھی بس گئی گذری ہی سی تھیں ۔ کھا نا لکڑیوں کی مدد  سے پکا نا، اور پھنکنیوں کی مدد سے چولھے کی آنچ بڑھا یا جا نا ۔ ہینڈ پمپس سے پا نی بھر کے لا نا ۔ اور راتوں کو بیک وقت آٹھ  د س چا رپا ئیا ں صحن میں بچھا نا ، ان پر بستر اور تکئے لگا نا،اورپھر صبح صبح ان سب کو سمیٹ کر واپس اپنے کمروں میں لے جا نا وغیرہ!۔

(جاری ہے)

روزمرہ کی یہ مشقتیں لا زمی تھیں جو ایک دو نہیں ، سینکڑوں قسم کی تھیں جن سے مرد و عورت ،اور چھوٹوں اور بڑوں سب کو یکسا ں گذرنا پڑتا تھا۔ اور پھر یہ محض ایک دو برس کی با ت بھی نہیں  تھی ۔زند گی بھر کا قصہ تھا ۔ طول طویل ۔ پھر بھی نہ کوئی شکوہ تھا !اورنہ کوئی شکایت! ۔صبح و شا م بس اللہ ہو اللہ ہو!
سواری کوئی موجود نہیں ۔ مشینوں کا کوئی رواج نہیں ۔

ما سیا ں کوئی دستیا ب نہیں۔ افراد خا نہ بہت زیا دہ ۔ گھر بھی وسیع و کشا دہ ۔ لوگ صبح سویرے اٹھتے، کوئلے اورنمک کی مدد سے دانت رگڑ تے، اورکوئلے کی استری سے کپڑے استری کرتے۔ اگرمہما نوں کی خاطر مدارات ہوتی تو خواتین بھی ہنسی خوشی کا م میں جت جا تیں۔ مرد کا مہمان سب کا مہمان ہوتا تھا۔ کام کا یہ عا لم کہ عورت تو عورت مرد تک تھک تھک جاتے تھے ۔

اورپھر قدرتی لمبی نیند لے لیا کرتے تھے ۔ گھوڑے بیچ کر سویا کرتے تھے۔ پھرا گلے دن جب اٹھتے تو ترو تازہ و چاق و چوبند ہوتے تھے۔ صحیح و سالم ! ۔ تب ’’صبح کرنا شام کا لا نا تھا جوئے شیر کا‘‘!  
اور صحت؟ کیا حال  سنا ئیں کسی کو اس نعمت کا؟ ۔ ہر شخص تندرست و توا نا۔ جسم گھٹا ہوا۔ جان مضبوط ترین۔ بھاری  بھاری وزن اٹھا لینے والی ۔ غم بہت دور۔

خوشیاں بہت قریب۔ سارے احباب مدد گار و غمخوار۔ ایک گرتا تھا تو اٹھا نے کےلئے ہزار تیار۔ زمین سے نکل کر غذا سید ھے چولھے پرپہنچتی تھی۔ بیچ میں نہ کوئی کیمیکل اورنہ کوئی فیکٹری!۔ ہوا بھی تروتا زہ ۔ فلیٹس کا جنگل بھی مفقود ۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ  بیداری اور سورج کی آخری کرن کے ساتھ ہی ا ستراحت! ۔ تب کے دور ِسنہر ی میں نہ تو کینسر کا مرض پا یا جا تا تھا اور نہ شوگرکا۔

کسی قسم کا بھی گوشت ممنوع نہ تھا اورنہ ہی کسی کو گھی شکر سے الرجی تھی۔ کھال کھینچ  دینے والے ڈاکٹرس تب شاید ہی کہیں دکھائی د یتے تھے۔
کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا رواج دور دور تک بھی نہ تھا ۔ اسّی اسّی سالوں تک کے بزرگ بھی جوانوں کی مانند کھڑے ہوکر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ بینا ئی سدا یکساں رہتی تھی۔ چشموں کی ضرورت  کم بہت ہی کم پڑتی تھی ۔

چشموں کی دکانیں بہت ڈھونڈے سے ملا کرتی تھیں ۔ جتنے بھی کھیل تھے ،  جسما نی تھے، گلی ڈنڈا، کوڑا جمال شاہی، کبڈی، سادہ ریس، بوری ریس، ہا ئی جمپ، لونگ جمپ، پٹھو گرم، پیل دوج، آنکھ مچولی ۔ سب کے اندر جسما نی ورزشیں پنہاں تھیں ۔ ہرطرف کے کھلے باغ جہاں لوگ سیر کے لئے خوشی خوشی جا یا کرتے۔ " وہ چلے سیر کو گلبن ۔ وہ بجے گھنگرو چھن چھن‘‘ ۔

اور لوٹتے تو خوشبو دار صحت مند ہوا کے ساتھ چاق وچوبند ہوتے۔
تمام مصا لحے سل بٹے پر پیس کر بھی خواتین مست رہا کرتی تھیں ۔ پیک شدہ ڈ بوں کے مصالحوں کا چلن کہیں بھی نہ تھا ۔ گھر بھر کی صفائی و پوچھا وہ خود ہی لگا یا کرتی تھیں ۔ اسی لئے صحت بھی قا بلِ رشک رکھا کرتی تھیں ۔ جا گنگ جیسا اسٹیٹس سمبل ان کے ذہنوں میں کہیں د ور تک بھی  نہ تھا ۔

سچے اور کھرے لوگ ۔ محبتیں عام رکھتے تھے ۔ ’’وہ کاٹ کپٹ کی پوٹ نہ تھے۔ ۔ دل میں رکھتے کھوٹ نہ تھے‘‘ ۔ بڑوں کا ا حترام حد سے زیا دہ ا ورمذ ہب پر عمل شدت سے تھا ۔ ذہنی بیما ریاں دور پرے ہی رہا کرتی تھیں۔ صحت مند جسم رکھتے تھے تو صحت مند دماغ بھی پا لتے تھے ۔ زندگی گذ ا رنے کا اند ا ز تب با لکل ہی جد ا تھا ۔ سادہ و جفا کشا نہ!۔ آ ج کی نسل کے لئے جو نا قا بلِ برداشت ونا قا بلِ تصور ہے۔

!  
مگر کیا کیجئے کہ اب تو وہ سا ری بسا ط ہی لپٹ گئی ۔ کھیل ہی ختم ہوگیا۔ حقیقت روٹھ گئی ،ملمع حا وی ہوگیا ۔ جدید لوگ چھا گئے ۔ تعلیم یافتہ مگر حساس ! ۔ عزتوں کے مارے ہوئے ۔ پرانے لوگ ، پرانا ماحول ، اور پرانی قدریں ، سب از کا ر رفتہ ٹھہریں ۔ اب تو بس مشینیں ہیں، اور اسٹیٹس ہے۔ روشنیاں  ہیں اور تیز رفتاری ہے ۔  ڈالر ہیں اور ریا ل ہیں ۔

عا لی شان پلا زے ہیں اور لوٹ کھسوٹ ہے ۔ نرم وگدا ز گدے اور صوفے ہیں اور کم ہوتی ہوئی نیندیں ہیں۔
لیکن خدا لگتی با ت تو یہی ہے کہ دور وہی پرا نا عمدہ ترین تھا ۔ سا دہ و پرخلوص، اخلاص کے جس میں  زمزمے بہہ رہے ہوتے تھے۔ ا ور محبتیں جس سے ٹپک ٹپک کر گررہی ہوتی تھیں ۔ وہی سادہ و معصوم زندگی جو ہم سے روٹھ کرکہیں د ور چلی گئی ۔  دوبارہ  پھرکبھی نہ آنے  کے لئے !۔’’اب ڈھونڈ اسے چراغ ِ رخِ زیبا لے کر!‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :