اندھیری رات کامسافر!

ہفتہ 28 دسمبر 2019

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

رات بہت گہری ہوچکی ہے۔اندھیرے نے ماحول کو ڈراؤنا بنا دیا ہے۔ژوں ژوں کرتی تیز ہوائیں الگ خوف پیدا کررہی ہیں۔ گھنگھور گھٹاؤں کی گھن گرج اور گرجتی بجلیوں کی کڑک چمک بھی دل کو دہلا دینے والے شغل کررہی ہیں۔ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ہمراہ کوئی نہیں ہے۔چلتے چلتے راستہ بھٹک گیا ہوں۔ نیند کے ماتے میٹھی نیندکے مزے لوٹ رہے ہیں۔

اور میں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی پیہم چلا جارہا ہوں۔ چلتے چلتے بھٹک کراتفاقاََ کسی اجنبی راستے پر نکل آیا ہوں۔ماحول سارے کا سارابظاہر میرامخالف ہے۔چھوٹی سی ایک ٹارچ ، پانی کی ایک بڑی بوتل، اور میلی سی اک چادر سفر میں میری زادِ راہ ہیں۔ رات کے شاید ابھی تین بج رہے ہوں گے۔نہیں سمجھ میں آرہا کہ منزل کہاں گم ہوگئی ہے ؟۔

(جاری ہے)


کم ہمت آدمی تو اس عالم میں خود پر مایوسی طاری کرلے گا۔

سفر چھوڑ دے گا۔کسی سے پناہ کی درخواست کرے گا۔مگر میری فطرت ہرگز بھی ایسی نہیں ہے۔اس کے بالکل برعکس ہے۔ حالات کے جبر سے میں نے سمجھوتہ کرنا کبھی نہیں سیکھا۔ بقول شاعرکہ ”میں تنہا بھی بڑھ سکتا ہوں۔اور شایدبڑھتا جاؤں گا۔ اللہ سے امید بھی ہے ۔ایک دن منزل کو پاؤں گا“۔ سو میں مایوسی کواپنا رہنما کیسے مان سکتاہوں؟۔خود کو اس نابکار کے حوالے کیسے کرسکتاہوں؟۔

نہیں میں اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط نہیں کردں گا۔میرا ایمان ہے کہ اگر ا ندھیرا آیاہے تو اجالا بھی کہیں نہ کہیں چھپا ہوگا۔امید کی شمع جلی رہے گی توروشنی کی کرن بھی لازماََ کہیں سے پھو ٹ پڑے گی۔اور میرے لئے منزل کا سامان بننے کاسبب بن جائے گی۔
میرا عقیدہ مجھے سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ اگر حالات میرا ساتھ نہیں دے رہے توکیا ہوا؟ ۔

میرا اللہ بھی میرا ساتھ نہیں دے گا؟۔سب سوئے ہوئے ہیں تو کیا میرارب بھی میری طرف سے آنکھیں موندے ہوئے ہوگا؟۔اگر ایمان کا زادراہ میرے ساتھ ہے تو پھرسمجھ لوکہ سب کچھ میرے ساتھ ہے۔میں اکیلا نہیں ، طاقت ور ہوں۔”چلیں گے تو (کیا) کٹ نہ جائے گا سفر آہستہ آہستہ؟“۔اور’‘کچھ اور بڑھ گئے اندھیرے تو کیا ہوا؟۔ مایوس تونہیں ہیں طلوع سحر سے ہم“۔

پس میں ہتھیار نہیں ڈالوں گا اْ۔قدم یونہی بڑھاتا رہوں گا۔اگر ایک قدم پیچھے جارہا ہے تو کیا ہوا ، ایک قدم آگے بھی تو جارہا ہے!۔ میں ناامیدی سے بھی امید کی کرن پیدا کرلوں گا۔ حوصلے کی شمعِ کو گل نہیں ہونے دوں گا۔
مجھے ہرایک دانشمند نے زندگی بھر یہی سبق سکھایا ہے۔” کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔جو اللہ کو اپنا سہارا بنا تے ہیں۔

اسی کے سہارے مستقل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔منزل انہی کے قدم چومتی ہے جومنزل کو بیتابانہ تلاش کرتے ہیں“۔ کس قدر عمدہ بات کہی ہے ایک فرزانے نے کہ ”دنٰیامیں بزدلوں نے کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔کارنامہ صرف و ہی لوگ انجام دیتے ہیں جو دریا کا رخ موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو ہوا کے رخ پرچلنے کی بجائے ہوا کے مخالف سمت میں چلنے کاحوصلہ رکھتے ہیں۔

“ ( سید مودودی)۔سو جب تک میری سانس میں سانس باقی ہے، میں یونہی دیوانہ وار آگے بڑھتا رہوں گا۔آگے ، آگے، بہت آگے!۔
اور جب منزل بالآخر میرے قدموں تلے آجائے گی ۔جب میں دیکھ لوں گا کہ میرا کٹھن سفر کامیابی سے اختتام پذیر ہوا ہےِ۔، تب حوصلہ شکنی کرنے والے ،یا کہہ لیں کہ،نصیحت کرنے والے میرے کرم فرما، میرے دوست ِ، از خود چلّا ٹھیں گے کہ” ہمت، عتماد،ا ور اللہ پر ناقابل ِشکست بھروسے ہی نے اس جراء ت مند شخص کو کامران و شاد کام کیا ہے ۔

اور فی الواقع یہی اوصاف ہیں جو مرد میدان کا ا صل ہتھیار ہیں“۔پھر میں انہیں خود بھی یقین دلاؤں گا کہ ہمت کرے انساں تو کیا ہونہیں سکتا؟۔ہمت و ایمان کے ہتھیاروں سے وہ ساری دنیا کو زیر و زبرکرسکتا ہے!۔ اورکب کوئی بھلا اس کی ہمت کے آگے دیر تک کھڑا رہ سکتا ہے؟۔خوب کہا ہے مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے کہ #
مصیبت کا پہاڑ آخر ایک دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر پھوڑ کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
 سو اندھیری رات کا مسافر تویونہی چلتا رہے گا ۔ آگے ،بہت آگے ،اور اس سے بھی آگے ۔اور چلتے چلتے بالآخر اپنی منزل پر پہنچ کر ہی وم لے گا۔ اندھیری رات کا مسافر تھکتا تو ہے۔ مگر ہار ماننا نہیں جانتا!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :