
کہاں سے لاؤگے تم وہ کردار اے لوگو؟
جمعہ 29 نومبر 2019

رضی الدین سید
سیاست دانوں کے لئے بہت معروف ہے کہ یہ وہ ”نیک نفس ہستیاں “ ہیں جن کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اوپر سے کچھ ، اندر سے کچھ !۔”دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا“ والی کیفئیت کے علمبردار !۔ اپنے اقتدار سے زیادہ انہیں کچھ عزیز نہیں ! ۔ جن کی ہر قسم کی جدوجہد کا مقصدِاولین ہر ّآن پیسے بنانا ہی ہوتا ،رنگین مزاجی و بلا نوشی جن کے کردار کا خاصہ ، اورمنافقت جن کی ساخت کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔وہ ایک نمبر نہیں ،دو نمبر نہیں ،چار نمبرہستیاں ہوتی ہیں۔تحریک ِ پاکستان سے لے کر آج تک عوا م الناس کو یہی کچھ دیکھنے اور سمجھنے کو ملا ہے ۔
(جاری ہے)
البتہ استثنا اس با ب میں اگرکسی کو حاصل رہا ہے تووہ صرف اکا دکا شخصیات ہی رہی ہیں۔انہی منفرد ہستیوں میں سے ایک بانیء پاکستان محمد علی جناح بھی ہیں !۔ کسی بھی لحاظ سے جانچااور کسی بھی پہلو سے پرکھا جائے ،ان کے اصول سدا بلند، اور کردار ہمیشہ بے داغ نظر آتا رہاہے۔
یہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اس دور کی مردہ و مایوس مسلم قو م کو چند سالوں کے اندر اندر ہی ایک جیتی جاگتی بامقصد قوم میں تبدیل کرکے متعصب وجابرہندو اور برطانوی وونوں اقوام کے سامنے لاکھڑا کیا تھا اوران سے اپنے لئے ایک علیحدہ خطہء زمین کا منوا کے چھوڑاتھا۔ قائد کا کردار اس دور میں اگراس قدر پختہ و راست باز نہ ہوتاتوناممکن تھاکہ آج ہم یہاں اس وطن میں آزادی کے ساتھ بیٹھے سانس لے رہے ہوتے۔بانیء پاکستان اپنی زندگی میں کس درجے اعلیٰ کردار کے حامل تھے، اوران کی شخصیت کس قدر بااصول تھی، اس حقیقت کو مضبوط ترکرنے کے لیے چند جھلکیاں ذیل میں پیشِ کی جاتی ہیں۔
# محترمہ فاطمہ جناح بیا ن کرتی ہیں : ”کرسمس کا موقع تھا۔’ڈریک‘ فیملی کرسمس منارہی تھی۔ اس موقعہ پر دروازوں کی چوکھٹوں پر آکاس بیل لٹکادی گئی تھی۔عیسائیوں کی روایت ہے کہ اگر کوئی نوجوان کسی لڑکی کو ایسی چوکھٹ کے نیچے کھڑا پائے ،تو وہ اس کا بوسہ لے سکتا ہے۔ اس دن میرے بھائی بے خبری میں ایک ایسے ہی دروازے میں کھڑے تھے کہ’ مس ایف ای ڈریک‘ نے انہیں پکڑ لیا اور بازؤوں میں بھینچ کر کہا کہ وہ اس کا بوسہ لیں۔ لیکن انہوں نے جھڑکتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ،اور نہ ان کا معاشرہ اس قسم کی حرکت کی اجازت دیتا ہے“(کتاب ۔جناح میرا بھائی۔بحوالہ قاضی عبدالحنان ص۲۶۷)۔واضح رہے کہ بانی پاکستان ان دنوں انگلینڈ میں ڈریک خاندان میں” بامعاوضہ مہمان “کی حیثئیت سے رہ رہے تھے۔
# بانی ء پاکستان کہا کرتے تھے کہ ”نہ میں مولانا ہوں نہ مولوی ۔ البتہ دین کی موٹی موٹی باتیں ضرور جانتاہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں اسلام کا ایک ادنی ٰ پیرو ہوں“۔ ایک بار بہار کے کٹر کانگریسی رکن نے پٹنہ اجلاس ۲۶دسمبر۱۹۳۸کے اسٹیج پر سامعین سے درخواست کی کہ آپ لو گ آج سے انہیں”مولانا محمد علی“ کہہ کر پکاریں تو قائد نے فوری طور پر جواب دیاکہ ”میں ہرگز بھی مولانا نہیں ہوں اور نہ کبھی ا س نام سے خود کو پکارنا پسند کروں گا۔میں تو صرف جناح ہوں“(قاضی عبدالحنان۔ص ۲۸۱)۔ایک موقع پر جب علی گڑھ یونیورسٹی کے اس دور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد نے انہیں ڈاکٹر آف لا ء کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصل کیا تو مراسلے کے جواب میں قائد اعظم نے لکھا کہ ”انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے سادگی کے ساتھ صر ف مسٹر جناح کی حیثئیت سے زندگی گذاری ہے اور میں صرف مسٹر جناح کی حیثئیت ہی میں مرنا چاہتاہوں۔۔میں اس قسم کے خطابات یا اعزازات کا مخالف ہوں۔ اور مجھے خوشی ہوگی کہ میرے نام کے ساتھ کوئی لاحقہ نہ لگایا جائے“۔( قدیم ماہنامہ ’تہذیب‘ ،علی گڑھ یونیورسٹی کراچی ۔مارچ ۱۹۹۸۔مضمون قائد اعظم اور علی گڑھ)۔
یاد رہے کہ ان پر لکھی گئی بے شمار کتابوں میں کوئی ادنی ٰسا ذکربھی اس بات کا نہیں ملتا کہ برطانیہ یا بھارت میں انہوں نے کبھی ایک بار بھی جام کو ہاتھ بھی لگایا ہو!۔کردار کی عظمت ا سی کو کہتے ہیں کہ بیرون وطن والدین سے کوسوں دورجبکہ کوئی نگراں بھی نہ ہو او رتمام خباثتیں بھی کھلے عام دستیا ب ہوں ، پھر بھی کوئی خشک کا خشک ہی رہ جائے !
# اسلامی قانون سے ان کی جوگہری واقفیت تھی، اس کااندازہ ان کی مختلف تقریروں سے بخوبی ہوتاہے۔ اسمبلی میں ایک بار انہوں نے کہا تھاکہ ”قرآن کے مطابق اگر کوئی مسلمان مردیا عورت مرتد ہوجائے تو وہ مسلمانوں کی وراثت سے محروم ہوجاتاہے۔لیکن برطا نیہ کا موجودہ قانون اس سے ٹکراتا ہے“۔
#ایک بار اپنے معالج ڈاکٹر پٹیل سے انہوں نے کہا کہ ”ڈاکٹر، میں اپنی زندگی کے اس بڑے جہاد کو ترک کرکے نہ توسینی ٹورئیم کے بستر پر دراز ہونا پسند کروں گا اور نہ ہندوستا ن کے مسلمانوں کی قیادت کے بوجھ کو نازک موڑ پر اتار کر گوشہء عافیت میں جانے کو ترجیح دوں گا۔ صرف موت ہی میرا راستہ روک سکتی ہے۔ رسہ کش موت کو میں ہرگز موقعہ نہ دوں گا کہ تاریخ سے چلنے والی میری پینگوں میں وہ کبھی مداخلت کرے“۔(فریڈم ایٹ مڈنائٹ ۔ہیکٹربولیتھو۔
Jinnah The Creator of Pakistan ۔بحوالہ قاضی عبدالحنان ص،۲۴۷)
# لندن میں شاہِ برطانیہ جارج ششم نے ایک باربھارت کے بعض سرکردہ رہنماؤں کو دن میں بکنگھم پیلیس میں دعوت ِ ظہرانہ دی۔اتفاق سے وہ عین رمضان کے ایام تھے۔قائد اعظم بھی اس دعوت کے مدعوئین میں سے تھے۔ لیکن انہوں نے متظمین سے صاف کہلوادیا کہ ”یہ رمضان کا مہینہ ہے اور دن میں مسلما ن اس میں روزے رکھتے ہیں “(قائد اعظم کا مذہب اور عقیدہ۔منشی عبدالرحمان ص۔۱۴۱بحوالہ قاضی عبدالحنان۔ص۲۸۸) # گول میز کانفرنس میں وزیر اعظم انگلینڈ ریمزے میکڈانلڈ نے حرص و طمع کا ایک جال پھینکتے ہوئے ان کی جانب توجہ دلائی کہ ہندوستان میں اب جو نئے صوبے بنائے جانے کی قانون سازی کی جارہی ہے، ان کے لئے گورنروں کا انتخاب ممتاز ہندوستانیوں ہی میں سے ہوگا ۔قائد اعظم سمجھ گئے کہ اشارہ انہی کی جانب ہے ۔چنانچہ فوری طور پراٹھے اور دوبدوجواب دیا کہ ”مگر مسٹر وزیر اعظم ،میں کوئی بکاؤمال نہیں ہوں“(انڈیا’ز فائٹ فار فریڈم۔کانگی دوارکا داس )
#۱۹۴۶ میں جب وہ لندن کے سرکاری دورے پر تھے،تو انہوں نے جمعے کی نماز کسی ایسی مسجد میں پڑھنے کی خواہش کی جہاں خواص نہیں بلکہ عوا م نماز پرھتے ہوں۔نمازیوں میں سے کسی نے انہیں اگلی صف میں آنے کی پیشکش کی تو فرمایا کہ میں وہیں بیٹھوں گا جہاں کا میں مستحْق ہوں۔نماز کے بعد کچھ لوگوں نے ان کے جوتوں کے فیتے باندھنے چاہے توانہوں نے انہیں ایسا کرنے سے بھی منع کردیا۔(میموریز ّآف جناح۔کے ایچ خورشید ص۷۷۔۷۸ بحوالہ قاضی عبدالحنان ۔ ص۵۱۷)
# ان کی صفت یہ بھی رہی کہ آج کل کے سیاست دانوں کے برعکس، جو ریاست کی ہر رقم اورر جائیداد وکو اپنے نام کرنے کی جدوجہد میں دن رات لگے رہتے ہیں، قائد اعظم نے کراچی شہرمیں اپنی تین بڑی کوٹھیاں ۱۔ کلفٹن، ۲۔میٹروپول صدر،ا ور ۳۔کھارادر لیاری ،پہلے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو عطیہ کیں جنہوں نے بعد میں سب کی سب (کروڑوں روپے کے محلات)، ریاست ِپاکستان کو عطیہ کردئیے۔ آج کے سیاست داں جو جائیداد پر جائیداد بنائے چلے جارہے ہیں ،ان کے مقابلے میں قائد کا اپنی جائدادیں قوم کو عطیہ کردینا ان کے اعلیٰ کردار کی نشاندہی کرتاہے۔
# ایک قابل ِ ذکر وصف ان کا یہ بھی رہا تھاکہ باوجود نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے عشق ،اور گاندھی کے زنانہ آشرم کی واقفیت کے،انہوں نے کسی جلسہء عام، پریس کانفرنس، انٹرویو، یا سرکاری اجلاس میں ہندو رہنماؤں کا یہ غیر اخلاقی پہلو کبھی آشکار نہیں کیا۔ ورنہ اگر کوئی دوسر ا عام لیڈر ہوتا تو وہ ان اسکینڈلس سے بھرپور فائدہ اٹھاتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے قائد اعظم کو اس قسم کی خرافات بیان کرنے سے خود اپنا بڑاپن چھوٹا لگنے لگتا تھا۔جیسے ایسی باتوں کو بیان کرنا وہ اپنے وقار کے خلاف گردانتے تھے۔
نمونہ جاتی ان جھلکیوں سے بانیء پاکستان کے عظمت ِکردار کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی بالکل کھلی ہوئی کتاب کی طرح تھی اور پیشِ نظر محض اور محض قو م کا مفاد تھا۔ اگروہ اپنے اصولوں کے اس قدر پاسدارنہ ہوتے اور حرص و طمع ان پر ہمیشہ غالب رہا کرتی تو یا د رکھنا چاہئے کہ کسی بھی خاص موقع پروہ قوم کو فروخت کرکے ہندوؤں اور برطانویوں سے بیش بہا رقوم و مراعات وصول کر لیتے ۔ پھر یہ خوبصورت وآزاد ملک ”پاکستان “ ہمیں نصیب نہ ہوتا۔ یہ ان کے کردار کی بلندی ہی تھی جس نے ان کی شخصیت کے بارے میں لاتعداد ہندو اور انگریز مصنفین کو ان کی عظمت کے بارے میں کئی کتابیں لکھنے پر مجبور کیا تھا۔قائد خود بھی کہا کرتے تھے کہ” ہم تاریخ بنانے والے نہیں بلکہ تاریخ لکھنے والے لوگ ہیں“
وہ ایک ہی شخص تھاجو اپنی تمام تر اذیت ناک بیماریوں کے باوجود مایوس و ناامیدمسلمانوں کو ایک آزاد ریاست دے کر اللہ کے حضور حاضر ہو گیا!۔ حسر ت سے خود کہا کرتے تھے کہ ”میں جب اللہ کے حضور حاضر ہوں تو یہ اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اورمیرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اورمسلمانوں کی آزادی ،تنظیم ،اور مدافعت میں اپنا حق اداکردیا“۔(خطبہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل۔ ۱۹۱۹۔۱۰۔ ۲۱) افسوس کہ ہماری ایک حیران کن نفسیات یہ بھی ہے کہ تاریخ کے بہت سارے حقائق ہم جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ محسنین کو فراموش کردینا ہماری فطرت کا ایک حصہ ہے!۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رضی الدین سید کے کالمز
-
آج سے ستر سال پہلے کی معصوم دنیا
منگل 5 مئی 2020
-
قلم گوید کہ من شاہ ِ جہانم!
ہفتہ 11 اپریل 2020
-
ایک عالمی حکومت کاقیام
منگل 24 مارچ 2020
-
علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے
پیر 20 جنوری 2020
-
اندھیری رات کامسافر!
ہفتہ 28 دسمبر 2019
-
کہاں سے لاؤگے تم وہ کردار اے لوگو؟
جمعہ 29 نومبر 2019
-
درویشوں کی اسمبلی
جمعرات 28 نومبر 2019
رضی الدین سید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.