قدرتی آفات اور سوشل میڈیا کی ذمہ داریاں

جمعرات 2 اپریل 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والے کرونا وائیرس کے وجہ سے دنیا بھر میں تقریبا۲۰۰ ممالک اس موذی و وبائی مرض کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ مگر چین اور جنوبی کوریا نے جس تیزی سے اس وباء پر قابو پانے کی کوشش کی وہ قابل تحسین ہے اور اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے حکومت کی طرف سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر پر عمل کیا ۔ قرنطینہ کرلیا خود کو ، معاشرتی میل جول بند کردیا ۔

جو نہ صرف ان کیلئے بلکہ دوسروں کو بھی ایسی وبائی مرض سے بچانے کیلئے ضروری تھا اور اس پر وہ کسی حد تک کنٹرول کر چکے ہیں۔ یہ وباء اتنی خطرناک ہے کہ پوری دنیا میں بے شمار اموات کی وجہ بن چکی ہے ٓاور ٓانے والے دنوں میں ان اموات کے اعداد وشمار میں اضافے کا خدشہ ہے۔۔ اس عالمی وباء نے ترقی یافتہ ممالک کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں جن میں چین ، کوریا، اٹلی، سپین، اور ایران سر فہرست ہیں۔

(جاری ہے)

جب کہ ان کے اسپتالوں میں ہر طرح کی سہولیات موجود تھیں۔
اورہم ہیں کہ اسے ابھی تک مذاق سمجھ رہے ہیں اور عام نزلہ ،زکام ،کھانسی ،بخار جس سے ہم آرام سے بچ جائیں گے سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ، ہمارے اسپتالوں کے حالات نہایت دگر گوں ہیں۔ عام نزلہ ،زکام ،کھانسی ،بخار ،کے ساتھ ساتھ کرونا میں سب سے پہلے سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے جو ڈائریکٹ پھیپڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں پورے ملک میں وینٹلیٹرز کی تعدادڈھائی ہزار ہے ، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سہولیات کے باوجود اپنے اتنے لوگوں کوموت کے منہ میں جانے سے نہ بچا سکے۔

اور ابھی تک وہ ممالک اس وباء سے جان چھڑانے کیلئے کوشاں ہیں۔
 ڈر ، خوف، پریشانی ، فکر ، ذہنی دباؤ، مایوسی ، اضطراب الغرض یہ تمام محر کات وہ ہیں جو جیتے جاگتے انسان کو موت کے منہ تک لا سکتے ہیں۔کرونا وائرس جو عالمی دباؤ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہزار ہا لوگ اسکی زد میں آکر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عوام میں اتنا خوف و ہراس پھیل چکا ہے کہ کسی کو چھینک بھی آجاتی ہے تو آس پاس کے لوگ تو دور ہو کر حیر ت سے دیکھتے ہی ہیں، وہیں انسان خود بھی بستر پر ڈھیر ہو جاتا ہے کہ شائید کرونا کے اثرات ہیں۔

غرض یہ کہ چھوٹے بڑے ، بچے بوڑھے سب کے دماغوں پر خوف طاری ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس خوف کو پھیلانا ہے یا لوگوں کو اس سے آگاہ کرنا ہے کہ یہ بیماری کیا ہے ؟کیوں ہے؟ احتیا طی تدابیر کیا ہو سکتی ہے ؟ ہم نے شعور اور آگہی کار استہ اپنانے کی بجائے صرف خوف و ہراس پھیلانے کا راستہ اپنایا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا ، اخبار ، ٹی وی جہاں دیکھو وہیں ایک ہی خبر چل رہی ہوتی اتنی اموات ہو گئی ہے۔

اتنے لوگ متاثر ہوگئے ۔ صر ف یہ ہی خبریں کیوں ؟ کیا لوگ کرونا سے صحت یاب نہیں ہو رہے ، کیا وہ واپس اپنے پیاروں میں نہیں جارہے ، یہ بتانے کی بجائے بس ہم افراتفری کی خبروں کو ترویج دے رہے ہیں۔ اس چیز کا اگرمشبت پہلو دیکھیں بھی تو اتنا سمجھ آتا ہے کہ لوگ ڈر کر اپنے اپنے گھروں میں قیام کریں اور باہر نہ نکلیں ۔اور حفاظتی اقدامات کے تحت خود کو لاک ڈاون کر لیں۔

پر اسکے بر عکس اس کے منفی پہلو کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس سب سے لوگوں کے دماغ پر کیا منفی اثرات مرتب ہو رہے ، بڑے تو بڑے چھوٹے معصوم بچے اور ان کا ننھا دماغ اس ان دیکھے وائرس سے خوفزدہ ہے کہ یہ کیا عفریت ہے جو نہ نظر آتا ہے پر گھروں پر مقید کردیا ہے ۔ٹی وی ، اخبار ، خبریں انکا کام معلومات دینے کے ساتھ ساتھ اگر عوام کو اس خوف سے بھی نکالیں کے خدانخواستہ اس سے صرف موت ہی واقعہ نہیں ہوجاتی بچا بھی جا سکتا ہے۔

کسی بھی وائر س، دباؤ ، بیماری کی با ت اگر کی جائے تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بہت چھوٹے بچے یا60 تا50 سال کے لوگ اسکی زد میں آئے ہیں۔ کیونکہ انکا قوت معدافت جوان لوگوں سے کم ہوتا ہے ۔ ہو تو کسی کو بھی سکتا ہے ، لیکن قوت معدافت کا اگر ہم جائزہ لیں تو کیا قوت معدافت کسی مخصوص عمر کیلئے ہے ؟ کیاصرف بچے اور بوڑھے ہی کمزور ہو سکتے ہیں تو یقینا اسکا جواب ” نہیں“ ہوگا ۔

کیونکہ قوت معدافت کا تعلق صرف جسمانی ساخت کمزوری یا ڈر سے نہیں ہونا ، اسکا تعلق اعصابی کمزوری یا اعصابی مضبوطی سے بھی ہوتا ہے ۔ بلکہ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص 60 سے70 سال کا ہے ، بظاہر کمزور اور لاغر ہے ، مگر اعصابی طور پر روحانی طور پر وہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپنی بیماری سے لڑ کر اسے ہرا سکتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی بھی حوالے سے منفی نہیں سوچ سکتے اور اپنی will power سے ہر خوف سے جیت جاتے ہیں ۔

اسکے بر عکس اسکا موازنہ اگر ایسے کسی شخص سے کیا جائے جو اعصابی طور پر کمزور ہے اور چاہیے 25 سے30 سال کا ہے، اور مسلسل ڈر خوف اضطراب کا شکار ہے تو اسکا مدافعتی نظام بھی کام نہیں کرے گا۔
دن بھر میں ہزاروں سوچیں انسان کے دماغ میں آتی ہیں۔ اب اندازہ لگائیں کہ اس قسم کی صورتحال میں جہاں موت ہی موت خطرہ ہی خطرہ منڈلا رہا ہے ، وہاں کوئی مثبت سوچ کیسے آ سکتی دماغ میں ۔

اور کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتی ۔ اب کیونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے ہر گھر ٹی وی ، انٹر نیٹ کی سہولیات موجود ہیں ۔دنیا کی ہر خبر بس ایک بٹن کی دوری پر ہے ۔ انفارمیشن کی بھر مار ہے۔ پر سوچنے کی بات ہے کہ ہر انفارمیشن غور طلب ہے بھی یا نہیں ۔ یا صرف معیاری معلومات ضروری ہیں۔ جہاں میڈیا لوگوں کو اموات کی تعداد ، متاثرین کی تعداد بتارہا ہے وہاں مثبت سوچ کو بھی ترویج دی جاسکتی ہے۔

وہاں لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے۔ کہ کسطرح اس آفت سے نپٹا جا سکتا ہے۔ سوچ دماغ کی غذا ہے۔ جیسے خوراک جسم کی ۔ اسلئے جتنا مثبت سوچئیں گئے سیکھیں گئے، دیکھیں گئے، ذہنی طور پر سکون بھی ہوگا اور مشکل سے لڑنے کی طاقت بھی آئے گی۔ بعض اوقات انسان کو اپنی سوچ کا ذریعہ (source ) نہیں پتہ ہوتا تو میڈیا یہ ذریعہ فراہم کررہا ہے۔ بعض اوقات انسان کو چیزوں کا علم ہوتا ہے مگر کسی خوف ، پریشانی کی وجہ سے وہ کر نہیں پاتا دماغ پر خوف اتنا طاری ہوتا ہے کہ اس ساری طاقت، صلاحیت ، صلب کر لیتا ہے ۔

اور انسان لا چار ہے اب کرونا کی وباء میں بھی یہی ہورہا ہے کہ ڈر خوف اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ لوگ معمولی زکام بخار کو کرونا سمجھ کر بستر پر ڈھیر ہو گئے ہیں۔ اور یہ صرف نیوز چینل نہیں ہم ایک دوسرے کو فون پر بھی میسجزز بھیج بھیج کر خوفزدہ کر رہے ہیں۔ ہر 5 منٹ کے بعد کوئی میسج آجاتا ہے۔ جو خوف میں اضافہ کا باعث ہی بنتا ہے۔ تو خود اندازہ لگائیے کہ انسان کی اعصابی حالت کیا ہوگی ۔

جو ٹی وی پر اخبار پر خبروں میں مسیج پر ہر جگہ ایک ہی بات سن اور پڑھ رہا ہے ۔ میڈیا کی اسوقت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت سوچ کو ترویج دے۔ لوگوں کو اس خوف کے بحران سے نکالے ، انہیں کرونا سے متعلق آگاہ ضرور کرئے ساتھ ہی ساتھ بچاؤ کی تدبیر بھی بتائے۔ معاشرہ اس وقت ڈوبتے ہوئے ٹائیٹینک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اور میڈیا اس گروپ کا کردار ادا کرے جو اسوقت موسیقی سے لوگوں میں امیدجگار ہا تھا کہ ابھی امید باقی ہے ۔

یوں بھی مسلمان ہونے کے ناطے مایوسی کفر ہے ۔ دنیا دارالمتحان ہے اور الله تعالی کی طرف سے ایسی آزمائشیں قوموں پر آتی رہی ہیں۔ اس سے نپٹنے اور اس آزمائش سے گزرنے کیلئے جہاں ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، ہمارا رب العزت پر ایمان اور توکل ہمیں اس وباء سے بچا سکتا ہے ، ساتھ ہی جہاں احتیاطی تدابیر کرنی ہوں گی ۔ وہاں پر ہمیں اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگی کہ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی برائیوں پر بھی نظر ثانی کریں اور الله تعالی کی طرف رجوع کریں۔

عالمی سطح پر یہ آزمائش کی گھڑی ہے اور الله رب العزت ہمیں اس آزمائش سے نکال دے ۔
جہاں احتیاطی تدابیر اپنا رہے ہیں وہاں منتخب معلومات کو اپنے دماغ تک رسائی دیجئے اور خدا سے رجو ع کیجئے ابھی اتنی بھی مایوس کن صورت حال نہیں ۔ کیونکہ خدا ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :