کپتان اور ذمہ دار قوم

پیر 18 مئی 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

قوموں کی پہچان ان کے روئیے ،شعور، حکمت عملی اور احساس ِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔کسی بھی طرح کی سچویشن میں قوم نے کس طرح ری ایکٹ کرنا ہے اور پیش آنے والے حالات سے کیسے نکلنا ہے۔ یہ حکومتی حکمت ِ عملی کے ساتھ ساتھ قوموں کے روئیے بھی طے کرتے ہیں۔کچھ چیزوں کی ذمہ داری مجموعی طور پر ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی عائد ہوتی ہے۔

کہ کسی بھی معاشرے اور قوم کا ذمہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے آپ اپنے حصے کا کام کریں ،اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہ ہم ایک نہایت غیر ذمہ دار ، حکمت ِ عملی اور عقل و شعور سے عاری قوم ہیں۔ ہم انفرادی طور پر تو غیر ذمہ دار ہیں ہی،مجموعی طور پر بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کچھ کرے یا پھر خدا ہی زمین پر اتر آئے اور ہمارے مسائل کا حل کر دے ،ہمیں کچھ کرنا نا پڑے۔

(جاری ہے)

ہم اپنی بھلائی کے لئے خود کوئی قدم اٹھانے کوتیار نہیں۔ ہمارا یہ غیر ذمہ دارانہ روئیہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں کو بھی مشکل سے دو چار کرتاہے۔
دو ڈھائی مہینے کے لاک ڈاؤن کے بعد وزیرِاعظم صاحب نے غریب عوام کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے ، قوم کو ذمہ داری کا احساس دلا کر لاک ڈاؤن کھول کر عوام کی طرف نہایت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔

وزیر ِاعظم صاحب نے لاک ڈاؤن لفٹ کرتے ہوئے قوم سے کہاکہ احتیاط کیجئے ،خود کو خود Self quarantine کرئیں کیونکہ اب ہمیں کرونا کے ساتھ ہی رہنا ہے اور روز مرہ کی زندگی کو معمول پہ بھی لانا ہے تو حکمت ِ عملی اور عقل کا استعمال کریں اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر قوم نے سہی معنوں میں احتیاط نا کی تو قوم کو نقصان ہو گا۔
اور اس ذمہ دار قوم نے اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہا اور لاک ڈاؤن لفٹ ہوتے ہی الصبح بازاروں کا رخ کر لیا۔

کراچی لاہور، راولپنڈی، پشاور تمام شہروں میں مارکیٹس کے کھلتے ہی خواتین ، مرد، بچے بازاروں میں امڈ آئے اور سڑکوں پہ ٹریفک کا سیلاب آ گیا۔کندھے سے کندھا جڑا رش، مختلف دوکانوں، ٹھیلوں، اور برینڈز پر بظاہر اچھے ،مناسب، پڑھے لکھے لوگ مگر روئیہ۔۔۔۔!!!!!ان کے انداز و اطوار سے ہر گز نہیں لگ رہا کے رتی برابر بھی کوئی خوف ڈر ،خطرہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ کرونا ابھی موجود ہے، جس کی وجہ سے معمولات ِ زندگی متاثر تھے۔

ڈھائی ماہ سے حکومت کہہ کہہ کے تھک گئی کے احتیاط کریں ، مگر ہم اتنے ذمہ دار ہیں کہ اتنے عرصے کے لاک ڈاون کے بعد گھروں سے یوں نکلے ہیں جیسے طبیلے سے مال مویشی نکلتے ہیں، یا بھیڑ بکریوں کا ریوڑ چھوٹتا ہے۔ ذمہ دار قوم کا یہ حال ہے کہ لگ رہا ہے شائدیہ آخری شاپنگ یا شائد آخری عید ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ زندگی ہو گی تو عیدیں آتی رہیں گی اور زندگی ہی نا رہی اپنی یا کسی اپنے کی تو کہاں کی عید اور کہاں کی خوشیاں۔

۔!!!کیا یہ چیزیں جنہیں ہم اپنی اور اپنوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر خرید رہے ہیں اتنی Essential ہیں اتنی اہم ہیں؟
وزیر ِاعظم صاحب نے لاک ڈاؤن کھولنے کی نوید سنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ قوم کا رد ِعمل دیکھیں گے۔ اگر غیر سنجیدگی دکھائی گئی تو دوبارہ ملک لاک ڈاون کی طرف جا سکتا ہے۔ مگر اگلے ہی دنوں میں حکومت کی طرف سے مزید کچھ چیزوں کے کھول دینے کا اعلان کر دیا۔

جیسے کہ ٹرانسپورٹ، شاپنگ مالز،آن لائن ٹیکسی کی بحالی اور ساتھ ہی ساتھ اندرون ِ ملک 56دن بعد پروازوں کا سلسلہ بھی بحال کر دیا گیا۔تاجر برادری اور مذہبی علماء نے بڑے بڑے وعدے کئے مگر انکے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔نا تو تاجراپنے وعدوں پہ قائم رہ کراپنی برادری سے بات منواسکے اور نا ہی علماء حضرات۔۔جمعہ یعنی یوم ِ علی کے دن کراچی میں مکمل لاک ڈاون کے با وجود جلوس برآمد ہوئے۔

جبکہ وعدہ یہ تھا کہ صرف علماء حضرات نکلیں گے، مگر دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجودکراچی سمیت سندھ بھرمیں حیدرآباد، لاڑکانہ میں شہادت ِ مولا علی  کے جلوس برآمد ہوئے عزاداری ہوئی،انتظامیہ کے روکنے کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا، سوشل ڈسٹنسنگ اور حکومتی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں۔بات کریں پنجاب کے شہر لاہور کی تو وہ بھی کیوں پیچھے رہے۔

بھاٹی گیٹ سے یوم ِص شہادت ِ علی کا جلوس برآمد ہوا۔ قصہ مختصر پاکستانی قو م کو آخر کون روک سکا ہے اور کون روکے۔۔۔!!!جنہیں حکومت نہیں روک پائی، انتظامیہ نہیں روک پائی، ڈاکٹرز نہیں روک پائے جو اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر قوم کے ایک ایک فرد کی جان بچانے کو کھڑے ہیں۔ چند لوگوں کے وعدوں پر ہزاروں لوگوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
لاک ڈاؤن لفٹ ہونے کے نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں ۔

Statistics کے مطابق 26 فروری سے 30 اپریل تک کیسز کی تعداد16,800اور 385 اموات ہوئیں۔ لاک ڈاون میں نرمی اور مئی کے 15 دنوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 20,400اور اموات 418 ہو گئی ہیں۔ پچھلے دو ماہ سے زیادہ صرف اور صرف ان 15 دنوں میں کیسز کے اعداد وشمار ملاحظ کیجئے۔ اگر کل ملا کر پورے پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو 37,200 کیسز کی تعداد اور 803 اموات ہو چکی ہیں۔

وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب جانتے تھے اور اپنے خطاب میں برملا اظہار بھی کیا کہ کیسز بڑھیں گے اور اموات میں اضافہ ہو گا۔تو کیا یہ معلوم ہونے کے بعد بھی یہ قدم اٹھاناسمجھداری کا فیصلہ تھا۔انہیں قوم سے تعاون کی امید ہے جو قوم خود سے مخلص نہیں ، اور عوام کے تعاون کا اندازہ بگڑتی سچویئشن، ٹی وی چینلز پر خبریں اور کیسز کی تعداد دیکھ کر لگا سکتے ہیں کہ قوم کتنا تعاون کر رہی ہے۔

یا شائد آگے چل کر کوئی معجزہ ہو جائے ، فل وقت کو ئی امید دکھائی نہیں پڑتی۔کیا حکو مت کے پاس بس یہی پولیسی ہے کہ لوگوں کے تعاون پہ Rely کیا جائے۔۔!!؟اور عوام بھی ایسی جنکا غیر سنجیدہ روئیہ اور اس پہ عجیب سوالات،کیا آپ نے کوئی کرونا کا مریض دیکھا ہے؟ کرونا ہے ہی نہیں یہ صرف ایک ڈرامہ اور ایجنڈا ہے، کوئی ڈیٹا موجود ہے، کیا کرونا اتنا خطرناک ہے وغیرہ وغیرہ۔

۔۔۔
اس قوم کو کون سمجھائے کے سازش کسی ایک آدھ جگہ ایک آدھ ملک میں ہو سکتی ہے۔ یہ تو عالمی وباء ہے جس نے بڑی بڑی طاقتوں کو گھیر رکھا ہے جو ابھی تک کرونا کے بدلتے روئیے کو نہیں سمجھ پا رہے جو اپنی علامات روز بدل رہا ہے۔ کھانسی بخار سانس کی خرابی اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ اب یہ دل ،گردوں، چکر آنا، قے ہونا وغیرہ جیسی علامات بھی ظاہر کر رہا ہے۔

اور ماہرین، سائنسدان،ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ فل وقت وہ کرونا کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں اس قوم کے معصومانہ سوال۔آفرین ہے بس اور کیا کہئے۔۔۔!!!!کوئی اس قوم کو سمجھائے کہ اگر آپ نے کرونا کا مریض نہیں دیکھا تو دعا کریں کے اللہ ابالعزت اس عافت سے بچائے رکھے، آپ کے محلے میں اگر کوئی مریض نہیں ہے تو آپ کا محلہ پورا پاکستان نہیں ہے۔

بائیس کروڑ کی آبادی میں 37,200 مریض موجود ہیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے جو اعداد و شمار دیے جاتے ہیں وہ حکومتوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر اپڈیٹ کئے جاتے ہیں۔ہر ملک کی لیبارٹریاں مثبت آنے والے ٹیسٹ کے ڈیٹا کو اکھٹا کرتی ہے اور حکومت کو بھجواتی ہے۔حکومت اس ڈیٹا کی بنیاد پر اپنے نمبرز کو اپڈیٹ کرتی ہے اور ان نمبرز کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارے اپنے اعداد وشمار کو اپڈیٹ کرتے ہیں۔
کپتان صاحب کی با شعور اور ذمہ دار قوم آپ ان سب باتوں اور سوالوں کو چھوڑ کر اپنی اوراپنے پیاروں کی خیر طلب کریں۔حقیقی معنوں میں ذمہ داری کا ثبوت دیں کیونکہ اسی میں ملک و قوم کیلئے بھلا اور خیرہے۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :