زندگی بھر کی مشقت کا صلہ تودہ خاک

جمعہ 12 جون 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کچھ لکھوں مگر حالات دن بدن ایسے ہوتے جا رھے تھے کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا لکھوں ، کس موضوع کو زیر ِبحث لایا جائے۔کچھ عرصہ قبل کالم لکھنے کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا وہ کورونا کی تباہ کاریاں اور عوام کی ذمہ داریوں کا رونا تھا۔دل شکستہ ہو کر لکھنے کا سلسلہ کچھ عرصے کے لئے ترک کر دیا اور خاموشی سے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کی کو شش کی۔

کئی سانحے اس دوران گذر گئے جن پر قلم اٹھا کر لکھنا تو دور انہیں ذہنی طور پر قبول کرنا ہی مشکل ہو گیا۔لفظ ساتھ چھوڑ گئے،دماغ مفلوج ہو گیا۔ایک ایک کر کے اب بھی ان کا تذکرہ کروں تو نا لفظ ہیں کہ وہ حادثے تحریر کروں نا لفظ ہیں کہ افسوس لکھوں نا لفظ ہیں کہ حوصلہ ہمت اور صبر کی تلقین کروں۔

(جاری ہے)


لاک ڈاون لفٹ ہونے کے بعد فضائی آپریشن کی بحالی،اور 22 مئی پی آئی اے کا طیارہ حادثہ۔

8303 بد نصیب طیارہ جس میں سوار مسافر عرصے سے اپنے گھروں سے لاک ڈاون کی وجہ سے محصور تھے،دل میں اپنوں کی چاہ محبت ان سے ملنے کی امید لیے اپنے اپنے گھروں کو عید منانے چلے تھے۔ان کی آمد کی منتظر آنکھیں اس وقت ایگذٹ گیٹ پر ساکت و جامد ہو گئی ہوں گی جو آنکھیں بس چند لمحوں میں اپنے پیاروں کو اس گیٹ سے مسکراتے ہاتھ ہلاتے باہر آتا دیکھنے والی تھیں۔

جب یہ خبر سنی ہو گی کہ پی آئی اے کا بد نصیب طیارہ 8303ان کے پیاروں سمیت لینڈنگ سے ایک منٹ پہلے زمیں بوس ہو گیا۔کتنے چراغ گل ہو گئے، کتنی آنکھیں پتھرا گئی ہوں گی،کتنے ارمان ٹوٹ گئے ہوں گے،کتنی امیدیں ماند پڑ گئی ہوں گی، کتنے بوڑھے ماں باپ کے کندھے شدت ِ غم سے جھک گئے جن کے جوان بیٹے چلے گئے،جن کی پوری کی پوری فیملی لقمہ اجل بن گئی۔کتنے ہاتھ بنا مہندی کے رہ گئے۔

کہاں کی عید، کہاں کی خوشیاں!!
کورونا تو کورونا اس سے بھی بڑی عافت ٹوٹ پڑی ان سب خاندانوں پر جن کے پیارے ان سے دور چلے گئے ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں پر بھی جو حساس دل رکھتے ہیں یہ سانحہ ان کے لئے بھی کسی صدمے سے کم نا تھا۔
خوش قسمتی کہئیے یا خدا کو ابھی میری زندگی مقصود تھی۔گھر جانے کی چاہ میں اسی ہی ائیر لائن کو منتحب کیا اور بارہا اس بد قسمت طیارے پر سفر بھی کیا۔

خوش نصیبی سے اس باراس دن 8303 پر سوار نا ہو سکی۔ہر عید کی طرح اس عید پر بھی گھر اور گھر والے منتظر تھے اور شائید منتظر ہی رہتے اگر میں ان تمام مسافروں میں شامل ہوتی اور ہمیشہ کی طرح کسی Window سائیڈ سیٹ پہ بیٹھی گرتے جہاز کا منظر اپنی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتی اور میرے باپ کی منتظر آنکھیں Exsit gate پر پتھرا جاتیں۔

جو ہمیشہ مجھے لینے آتے ہیں کوشش کر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں کہ گیٹ سے نکلتے ہی میری نظر ان پر پڑے اور وہ بھی مجھے دیکھ لیں۔ میں ان کو دیکھتے ہی دور سے ہاتھ ہلا کر خوب مسکراتی ہوئی تیزی سے انکی جانب بڑھتی ہوں۔ میرے چہرے پہ مسکراہٹ اور ان سے ملنے کا اطمینان دیکھ کر ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور روشن آنکھیں مزید روشن ہو جاتی ہیں۔ میرا ماتھا چوم کر بیگ تھام لیتے ہیں اور گاڑی اور گھر تک بار بار میرا چہرہ دیکھتے ہیں اور دو ہی سوال کرتے ہیں، سفر کیسا رہا؟تم ٹھیک ہو اس بار بڑے دن لگا دئیے۔

گھر کے دروازے پر ماں بہنیں ، بھائی منتظر ہوتے ہیں۔اور وہ منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ماں بہنیں ملتے ہوئے رو بھی رہی ہوتی ہیں اور ہنس بھی رہی ہوتی ہیں۔ بھائی مذاق کر رہے ہوتے ہیں کہ ارے بھئی ابھی آئی ہے جب جائے گی تب رونے والا سین کر نا یار۔ابھی ہمیں بھی مل لینے دو۔اور جتنی گرم جوشی سے تپاک سے ملتے ہیں تو صاف پتہ لگتا ہے کہ ماں اور بہنوں سے مختلف حالت انکی بھی نہیں ہے۔

بس بھائی ہیں ناں ۔ آنکھوں میں آنسو نہیں لاتے مگر خوشی چہرے سے آنکھوں سے کھلکھلاہٹ سے جھلک رہی ہوتی ہے۔اس کے بعد عید اور ان سب کی خوشیوں کا مرکز میں۔۔۔۔۔
طیارہ حادثے کا سن کے حواس قائم نہیں رہے۔بس خالی آنکھیں ٹی وی سکرین پہ دکھائے جانے والے مناظر کو تک رہی تھیں۔اپنا خیال رہ رہ کر آیا کے اسی پہ تو جانا تھا اور گھر والوں سے ملنے کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا اور کچھ سیکنڈ کے بعد ہی دماغ حادثے کے شکار لوگوں کے گھروں کی منظر کشی کرنے لگ گیا۔

لگ بھگ ہر گھر کا حال ہی اپنے پیاروں کی آمد پر میرے گھر جیسا ہی ہوتا ہوگا،اور آج ان کے گھروں اور دلوں پہ قیامت اتر آئی۔ ان کے اپنے ان کے پیارے ،جگر گوشے آگ کے شعلوں میں لپٹے ایک ایک کر کے اپنی زندگیاں ہارتے گئے اور منتظر آنکھیں منتظر ہی رہ گئیں۔
کچھ ہی دیر میں مجھے اور والد صاحب کو عزیز واقارب،دوست احباب کی کالز اور میسجز آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا یہ جاننے کے لئے کنفرم کرنے کے لئے کہ میں خیریت سے ہوں مجھے بھی گھر آنا تھا کہیں میں اس طیارے پر سوار تو نہیں تھی۔

عجیب سی کیفیت میں جواب دیئے کالز کے میسجز کے۔کسی نے شکر ادا کیا ،کسی نے نئی زندگی ملنے پہ شکر ادا کرنے کا کہا۔میں نہیں جانتی کہ میں شکر ادا کر پائی یا نہیں، بس اتنا کہہ پائی کہ آج میں اس طیارے میں نہیں تھی۔
کہتے ہیں صبر آ ہی جاتا ہے۔ان لوگوں کو تو شائید کبھی ناآئے جنکے اپنے ان سے بچھڑ گئے۔مگر ہم جیسے بے حس اور دنیا دار لوگ چند دن کے افسوس اور صدمے کے بعد پھر سے معمول پہ آ جاتے ہیں۔

ہر چند کے دکھ ابھی تازہ ہے اور آنے والا ہر دن دکھوں سے دوچار کر رہا ہے کہ پورا ملک کورونا کی لپیٹ میں ہے،کورونا سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداداور اموات۔ کورونا روز کسی کا اپنا ان سے دور لے کے جا رہا۔کورونا کے متاثرین کا دور دور سے سنتے سنتے،پھر دوست احباب اوراب خود بہت احتیاط،حفاظتی اقدامات اور دعاوں کے باوجود خود متاثرین میں شامل ہو گئے،کورونا نے اپنا وار کر ہی لیا اور متاثرین کے اعداد و شمار میں اب اپنی بھی گنتی ہونے لگی ہے۔

نا لکھنے اور قلم سے دوری کا دورانیہ بڑھ گیا تھا تو سوچا کہ یہ دورانیہ مزید بڑھ جائے یا ہمیشہ کے لئے ختم نا ہو جائے۔قارئین سے ایک ملاقات سہی اور یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ سب حالات سے بے خبر نہیں رہی۔روز بروز بڑھتے اعداد و شمار نے ذہنی طور پہ مفلوج سا کر رکھا ہے۔
طبیعت کی ناسازی کے بعد محترم اعتبار ساجد صاحب کے نہایت خوبصورت شعر کا ایک مصرعہ مسلسل ذہن میں گونج رہا ہے۔
زندگی بھر کی مشقت کا صلہ تودہ  خاک
بہت سی دعائیں وطن ِ عزیز کیلئے، کورونا متاثرین اور سوگواران کیلئے۔اور اپنی صحتیابی کیلئے آپ سب سے دعاوٴں کی درخواست۔۔۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :