ریاستِ مدینہ تیری جنتیں

بدھ 16 ستمبر 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

عورت کا رتبہ،عورت کا مقام ․ اس کی عزت، اس کی تکریم کبھی معاشرے نے سمجھی ہی نہیں۔کبھی اسے وہ مقام نہیں دیا جو اسے اس کے خالق نے ،اس کے مذہب نے دیا۔عورت کے اندر اللہ نے اپنی صفت رکھی اسے تخلیق کا عمل بخشا۔اور اس کے انعام کے طور پر اس کے پیروں کے نیچے جنت رکھ دی۔اللہ نے عورت کا ہر روپ نرالا رکھا، بیٹی کے روپ میں رحمت،بہن کے روپ میں دوست،بیوی کے روپ میں وفادارساتھی ،غم گسار، شوہرکے ایمان کی محافظ ، اورقربانی کی مورت ماں بنی تو جنت ہی قدموں میں رکھ دی۔

روحانیت کے لحاظ سے عورت کا مقام کسی مرشد سے کم نہیں۔عورت کے مرشد ہونے سے مراد اسکی تربیت کرنے والی صلاحیت ہے۔جیسے ماں کی گود کو انسان کی اولین درسگاہ کہا گیا ہے۔عورت نسلوں کی آمین ہے۔ بے شک عورت کو رب نے وفا،حیاء،شرم، لحاظ ،محبت ،اورایمان کی مٹی سے گھڑا ہے اور اسکی حدیں بھی مقرر کی ہیں۔

(جاری ہے)


مگر وائے قسمت۔۔۔۔۔!!!!!
ہم بحیثیت قوم بحیثیت فرد اس مقام اور عزت کو کبھی سمجھ نا سکے۔

عورت کی حیاء اور حدود پر اس قدر زور دیا کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہمارے معاشرے کا مرد کب اس قدر بے حیاء اور اپنی حدود سے باہر ہو گیا کہ اس نے عورت کے وجود سے ہی انکار کر دیا۔کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے،کبھی خون بہا کی نذر ہو جاتی ہے،کبھی منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ا ور کبھی حوس پرست درندوں کی درندگی کا نشانہ بن جاتی ہے۔یہ ساری چیزیں عورت کے وجود سے انکار ہی تو ہیں۔

کیا کوئی مثال ہے کہ دین اسلام نے ان باتوں کی ترغیب دی ہو؟عورت کی حیاء پہ انگلی اٹھانے والوں نے کیا وہ آیت نہیں پڑھی جہاں عورت کو حیاء اور مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہوا ہے۔اپنی نگاہیں عورت پہ گاڑھے حیاء کی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔اپنے رویوں کو ہم ہمیشہ عورت کی آڑ میں کیوں چھپاتے ہیں؟ہمیشہ عورت کی اوٹ کیوں لی جاتی ہے؟اپنے گناہ کو بڑی آسانی سے عورت کے ذمے ڈال کے خودبری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

المیہ تو یہ بھی ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد کی برائی بھی عورت پہ ڈال کے اسے نیک اور بے قصور ہونے کی سند دے دیتا ہے۔سچ تو یہ ہے موجودہ معاشرہ اسقدر تعفن ذدہ ہو چکا ہے کہ عورت کا سانس لینا بھی اسکا گناہ شمار ہونے لگا ہے۔بے حسی،بے حیائی،حوس پرستی اس قدر عروج پر ہے کہ کسی رشتے کی پہچان نہیں رہی۔بہن ،بیٹی،بیوی،بھانجی،بھتیجی،شاگرد،سڑک پہ جاتی یا گاڑی میں جاتی کسی روپ میں محفوظ نہیں۔

گھروں میں بیٹھی ماں بہن بیٹیاں ہوں،اسکول مدرسہ جاتی معصوم رحمتیں ہوں ،زینب ہو ،قبر میں گڑھی لاش ہو یا پھرگجر پو رہ موٹر وے پہ اپنے بچوں کیساتھ جاتی ماں ہو حوا کی بیٹیوں کو کسی جگہ پناہ نہیں،درندے انہیں دبوچ ہی لیتے ہیں ۔اورہم مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے اسے ہی مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں اور مجرم کو اور چھوٹ اور آزادی دیتے ہیں۔

اگر کوئی مجرم جیل تک آبھی جائے توچند ماہ کی سزا کاٹ کے باعزت بری ہو جاتا ہے اور مظلوم بے عزت!پھر وہی مجرم آزادی سے باہر آ کے اپنے کام میں جت جاتا ہے اور اگلی بار پھر جرم سامنے آنے پر مظلوم سے کہا جاتا ہے یہ راستہ اختیار نہ کرتے تو ایسا نا ہوتا،یہ فرانس نہیں یہ پاکستان ہے یہاں ایک ماں رات کو اپنے بچوں کے ساتھ باہر نا نکلے کیونکہ یہ ریاست ِ مدینہ ہے!یہاں نا کوئی قانون ہے نا قانون کی پاسداری۔

قانون کا رکھوالا جب کوئی بیان دیتاہے تو کسی انفرادی شخص کا بیان نہیں بلکہ اجتماعی طورپہ پورے سسٹم کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔کہ من حیث القوم ہم کیسی قوم ہیں۔ہمارے حکمران ایسے ہیں،ہمارا قانون ایسا ہے۔اس لیے آپکو سوچ سمجھ کر باہر نکلنا چاہیے تھا۔کیونکہ یہاں تو ایک مجرم متعدد بار جیل آتا ہے اور باعزت رہا ہو جاتا ہے بس آپ کی عزت نہیں رہتی۔

ریاست مدینہ میں کسی قانون پہ عمل نہیں ہوتا۔یہاں ہاتھ کے بدلے ہاتھ،آنکھ کے بدلے آنکھ،قتل کے بدلے قتل کی کوئی سزا نہیں دی جاتی۔تم اپنے معصوم بچوں کو لے کے کہاں آنکلی؟یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے،یہاں نا کوئی سسٹم ہے ،نا کوئی پولیسی ہے،نا قانون ،نا قانون کی پاسداری ،نا انصاف،ناتعلیم،ناصحت،نا روزگار۔یہاں بس کرپشن ہے،چور بازاری ہے،لوٹ مار ہے،یہاں حوا کی بیٹیوں کو مظلوم ہونے کے باوجود بار بار تھانے،پولیس،کچہری،عدالتوں میں غلیظ سوالات کر کر کے مزید بے عزت کیا جاتا ہے۔

یہاں ریاست کے ٹھیکے دار بس واقعے کا نوٹس لیتے ہیں ادارے اور سسٹم ٹھیک نہیں کرتے۔یہاں کی حالت تو بادشاہ کے اس علاقے کی سی ہے جہاں بدامنی ہوا کرتی تھی۔
گئے وقتوں کا ایک واقعہ ہے ایک سلطنت کا بادشاہ تھا ۔اسکی پوری سلطنت میں امن تھا بس ایک علاقہ ایسا تھا جہاں کوشش کے باوجود امن نہیں ہو رہا تھا۔ایک دن بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ سلطنت کے دورے پہ نکلے اور اسی معاملے پہ تبادلہ ِ خیال کرتے جا رہے تھے کہ سامنے سے پندرہ بیس گدھے آ رہے تھے اور سب سے آخر والے گدھے پہ ایک کمہار سوار تھا۔

حیرت کی بات یہ تھی کی سب گدھے لائن میں سیدھے جا رہے تھے کوئی ایک آدھ نے آس پاس کے کھیت میں منہ مارنے کی کوشش کی تو کمہار نے پیچھے سے ہانک لگائی تو گدھے فوراکھیت سے ہٹ کے پھر چلنے لگ گئے۔وزیر یہ ماجرا دیکھتا رہا۔اگلے دن بادشاہ نے وزیر سے اس علاقے کے گورنر کی تقرری کے متعلق پوچھا تو وزیر نے کہا !بادشاہ سلامت کل جو کمہار دیکھا تھا گدھوں کے ساتھ اسے اس علاقے کا گورنر بنا دیں۔

بادشاہ حیران ہوا کہ ایک کمہار گورنر!!وزیر نے کہا حضور ایک بار میری بات مان کر دیکھیے۔چاروناچار بادشاہ نے کمہار کو بلا بھیجا اور اسے اس علاقے کا گورنر بنا دیا۔گورنر بننے کے بعد کمہار سارا دن اپنے محل میں سویا رہتا۔اس کے محل کے باہر ایک پھل فروش اپنا ٹھیلہ لگاتا تھا۔روز کچھ سپاہی آتے اور پھل فروش کے پھل کھاتے اور اپنے ساتھیوں کے لئے بھی لے جاتے مگر قیمت نا دیتے۔

پھل فروش پریشان تھا۔ایک دن تنگ آ کے محل کے اندر شکایت لگانے کی غرض سے چلا گیا کیا معلوم نیا گورنر کچھ کر دے۔اس نے گورنر کو شکایت لگائی کمہار نے سنی اور اسے واپس بھیج دیا۔اور اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اْن سپاہیوں کو پکڑ کے میرے پاس لاو۔سپاہی انہیں پکڑ کے لے آئے تو کمہار نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا،تھوڑی دیر گزری تو کچھ اور سپاہی ان کو چھڑانے کی غرض سے آ گئے۔

کمہار نے ان کو بھی بٹھا لیا۔پیچھے سپہ سالار آگیا کہ میرے سپاہی چھوڑ دیں کمہار نے اس کو بھی بٹھا لیا۔الغرض تھوڑی دیر میں علاقے کے بڑے بڑے عہدیدار ایک کے بعد ایک کو چھڑانے آتے گئے اور کمہار انہیں بٹھاتا گیا۔جب آنے والے لوگوں کا سلسلہ بند ہوا تو کمہار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سب کے سر قلم کر دو۔یہ سب اس علاقے کی بد امنی کی وجہ ہیں۔

ایک کے پیچھے ایک پورا نظام ہی خراب ہے یہ بدلے گا تو یہاں امن ہو جائے گا۔ کمہار کے حکم پہ عمل ہوا اور سب کے سر اڑا دیئے گئے سب کی جگہ نئے لوگ آئے اور یکھتے ہی دیکھتے علاقے میں امن و سکون ہو گیا۔
پاکستان بھی بادشاہ کا وہ علاقہ بن گیاہے جہاں سسٹم بدلنے کی ضرورت ہے۔جہاں ہمیں سوچ اورمعاشرتی رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ رول آف لا ایک پروسیجر کو فالو کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ تمام جرائم کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پھر کسی کی جنت نیلام نا ہو۔
ریاست ِ مدینہ کے دعوے دارو ریاستِ مدینہ نہیں تو کوئی کمہار ہی لے آو۔۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :