پیدائشی Quarantined طبقہ

جمعہ 17 اپریل 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

آج بیٹھے بیٹھے عجیب ایک خیال دماغ میں آیا اور پھر سوچوں ا ور خیالوں کا لاامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اور لفظوں کی ایک تکرار اور جنگ سی چھڑ گئی جس نے ذہن و دل کو منتشر کر دیا۔Isolation،Self isolation، اورQuarantine جیسے لفظ بولنے میں کتنے آسان ہیں ، مگر ان لفظوں کی گہرائی، بد صورتی کو آج اور اب سے پہلے شائیدہی کسی نے محسوس کیا ہو،ناپا ہو، جانچا ہو۔

یہ لفظ اپنے اندر کتنا خوف ڈر اور بد صورتی چھپائے اور سمیٹے ہوئے ہیں۔ Isolation تنہائی،علیحدگی،الگ تھلگ،سب سے کٹ جانا۔خود کوسب سے الگ کر لینا۔ شائید ہم ابھی بھی ان لفظوں کو محض لفظ ہی سمجھتے اور ان کی اصل صورت نا جان پاتے اور نا محسوس ۔کرونا اور لاک ڈاون کے ۲۰سے۲۵ دنوں نے ہمیں ان لفطوں کے مطلب ان کی Feelings سے اچھی طرح روشناس کرا دیا ہے۔

(جاری ہے)

گھر بیٹھنا عذاب ہو گیا ہے،کاروبار ِ زندگی بند ہو کر رہ گئے ہیں۔عزیزو اقارب ،رشتے داروں،دوستوں سے مل نہیں پا رہے۔ باہر نہیں جا سکتے، یار دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پہ بیٹھ کے خوش گپیاں نہیں لگا سکتے، بازاروں کا رخ نہیں کر سکتے۔ معاشرتی میل جول انتہائی محدود ہو گیا ہے۔ تو سہی معنوں میں لگ پتہ گیا ہے!کہ تنہائی کیا ہوتی ہے؟معاشرے میں دوست احباب رشتے داروں سے کٹ کے رہنا کتنا دشوار اور تکلیف دہ ہے۔


سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایک جیتے جاگتے انسان کے لیے معاشرے میں سب سے کٹ کے رہنا ممکن ہے؟ ہماری سوسائٹی جو چند دنوں سے Isolation کا شکار ہے ان کے دل و دماغ کی حالت دیدنی ہے کہ کسی طرح لاک ڈاؤن کا سلسلہ ختم ہو اور ہم باہر نکلیں۔اپنوں سے ملیں اور زندگی ایک نارمل ڈگر پہ دوبارہ سے چل نکلے۔
انہی سوچوں میں مجھے ہمارے معاشرے کے ایک ایسے Out castطبقے کا خیال آیا جو شائید ،۔

۔نہیں بلکہ یقینا پیدائشی طور پر Carona infectedہیں،دنیا میں اپنی پہلی لی جانے والی سانس سے لے کر آخری سانس تک Self isolatedاور لمبے Quarantine میں ہیں۔ ٹریفک کے بے ہنگم شورمیں سگنل کے بند ہوتے اور ٹریفک رکتے ہی، بے حال ،معاشرے کے ستائے ہوئے ،کبھی خود کا مزاق اڑواتے، کبھی تضحیک اور ہتک کا نشانہ بنتے، سگنل پہ کھڑی ایک ایک گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر مانگتے ،چوکوں،چوراہوں ،بازاروں میں ہاتھ پھیلاتے یہ رب کی مخلوق جنہیں معززین ِ معاشرہ مخنس، ہیجڑا،کھسرے،خواجہ سراء جیسے الفاظ استعمال کرتے حقات سے دیکھتے گزر جاتے ہیں۔

لیکن کیا کبھی کسی نے ان کے میک اپ کے پیچھے چھپے درد کو جاننے کی کوشش کی؟ان کی مجبوری جاننے کی کوشش کی؟اس چیختے چنگھاڑتے معاشرے میں کسی کے چہرے پر درد بھری تحریر پڑھنے کا وقت ہی کہاں ہے کسی کے پاس۔ اور یہ بھی عجیب لوگ ہیں میک اپ کی دبیز تہہ کے پیچھے معلوم ہی نہیں پڑنے دیتے اور خوبصورتی سے اپنے درد کو چھپائے ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم انسان ہی نہیں سمجھتےDiscreminateکرتے ہیں۔

کیا صرف مرد او رعورت ہی انسان اور انسانیت کے حقدار ہیں اور اس رتبے پہ فائز ہو سکتے ہیں۔کیا یہ رب کی تخلیق نہیں؟کیا عورت مرد کی تفریق کے بغیر ہم انکو ان کے بنیادی انسانی حقوق نہیں دے سکتے؟ہمارے معاشرے کا ایسا Neglected اور Out castطبقہ جنہیں پیدا ہوتے ہی ماں باپ Disownکرتے ہیں۔گھر سے نکلتے ہیں تو سوسائٹی Disownکرتی ہے۔کچھ عرصہ قبل اپنی پہچان کی جنگ لڑتے انکو شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔

ڈرائیونگ لائسنس دینے کا معاملہ حل ہوا۔ساتھ ہی ساتھ Gender guardian کے نام سے ایک Voccational trainingسکول کا Initiativeلیا۔جہاں انہیں مختلف کورسزکی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ پھر بھی مگر تمام Transgender کمیونٹی کے لئے یہ نا کافی ہے۔یہ لوگ نا ماں باپ کے پاس رہ سکتے ہیں، نا اس معاشرے کے لوگ انکو قبول کرنے کو تیار ہیں ۔ ایسے میں لاک ڈاون نے احساس دلایا کے سوسائٹی سے کٹ کے رہنا ،Neglected ہونا، دھتکارے ہوئے ہوناکیسا ہوتا ہے۔

کم سے کم اس عرصے میں ہم اپنے گھروں اور اپنوں میں تو موجود ہیں۔نا Neglectedہیں اور نا دھتکارے ہوئے۔مگر یہ لوگ جن کے پاس نا کھانے کو ہے، نا رہنے کو گھر ہے ،نا نوکری ہے، نا تعلیم ہے، ناماں باپ اور عزیز و اقارب،دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ان کی تکلیف کا مداوا کون کرے!ساتھ ہی ساتھ مختلف Violanceکا شکارInequality،Sexual abuse،Gender discrimination پھر بھی سگنلز پہ مانگتے اور محفلوں میں ناچتے یہ Third gender اپنی ضروریات ِ زندگی پوری کرنے کے لئے ۱۰،۲۰ اور ۱۰۰ روپے اکٹھے کرتے کیا انسان اور انسانیت کے منہ پہ طمانچہ نہیں؟؟؟؟
Inequalityکی وجہ سے ان میں سے بہت سے لوگ مختلف Negative activities میں Invovle ہو جاتے ہیں۔

تو کہیں نا کہیں اس کے ذمہ دار ہم اور ہمارا معاشرہ بھی ہیں کہ عدم مساوات کی وجہ سے یہ طبقہ مختلف جرائم کا شکار ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو معززین کے محلوں سو سائیٹیوں میں بھی نہیں رہتے کہ لوگ انہیں تضحیک کا نشانہ بنایئں گے۔یہ بھی جیتے جاگتے جذبات رکھنے والے انسان ہیں۔دل میں آزادی سے معاشرے میں جینے کی امنگیں ہیں،دوسرے انسانوں کی طرح اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔

روٹی کپڑا اور مکان کا حق رکھتے ہیں۔ آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب بند ہے۔ تو اب تو انہیں بھیک بھی میسر نہیں۔۔مخیر حضرات مستحق لوگوں میں راشن اور ضرورت ِ زندگی کی اشیاء تقسیم کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی یاد رکھیے۔انہیں بھی روٹی کی ضرورت ہے ادویات اور علاج کی ضرورت ہے۔ ان کو صنفی امتیاز کی بنیاد پر نظر انداز مت کیجئے حقارت کا نشانہ مت بنائیے۔اللہ نے انسان پیدا کیا تھااور انسان کی توہین کرنے پر اللہ نے ایک عابد کو شیطان بنا دیا۔کہیں ہم اپنے روئیوں کی وجہ سے انسان اور انسانیت کی توہین کے مرتکب تو نہیں ہو رہے!!
غریب کو روٹی خود ہی دیا کر مولا
تیرے بندے بڑا ذلیل کرتے ہیں۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :