کشیدگی،سندھ وفاق اور فرنٹ لائن سولجرز

منگل 5 مئی 2020

Reha Altaf

ریحا الطاف

ابھی کل کی ہی تو بات ہے خبر پڑھی تھی کہ ۲۴ سالہ فریش گریجویٹ ڈاکٹر رابیعہ طیب ہولی فیملی راولپنڈی کے Isolation wardمیں اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے کرونا کا شکار ہوئیں اور خالق ِ حقیقی سے جا ملیں۔دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ڈاکٹر رابیعہ طیب جس کے سامنے ساری زندگی اور روشن مستقبل انتظار کر رہا تھا ۔ابھی دل دماغ اس اندوہناک خبر کی ذد سے باہر نہیں نکلا تھا کہ آج ایک اور دہلا دینے والی خبر ملی، اپنے کیریئر میں ہزاروں جانیں بچانے والے ڈاکٹر فاروق جو کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزسے ریٹائرڈتھے کرونا سے لڑتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔


 جنرل فیزیشن ڈاکٹر فاروق کو ایس آئی یو ٹی،انڈس اسپتال لے جایا گیا مگر آئی سی یو اور وینٹی لیٹر خالی نا ملنے کی وجہ سے دو گھنٹے کراچی کی سڑکوں پر مختلف اسپتالوں کے چکر لگانے اور جگہ نا ملنے کے بعد ایک ڈاکٹر نے نہایت بے بسی کی حالت میں اپنی جان دے دی۔

(جاری ہے)

سندھ میں ایک مسیحا کو وینٹی لیٹر نا ملا اور فرنٹ لائن سولجر کرونا سے موت کی نیند سو گیا۔

چند دن پہلے ڈاکٹرز اور پی ڈی ایم اے کے عہدیداران نے پریس کانفرس میں سندھ حکومت سے اور وفاق سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی کہ خدارا عوام کو گھروں میں بٹھائیں اور اس وقت سے ڈریں کہ جب ڈاکٹرز بھی مریضوں کی جان بچانے کو باقی نا رہیں۔ اور ڈاکٹرز کے یہ خدشات صحیح ثابت ہو گئے۔صرف کراچی میں ایک گائنی کی ڈاکٹر ، ایک فزیشن ،ای این ٹی کے ڈاکٹر، آئی سی یو میں ڈیوٹی پہ مامور ڈاکٹر اسامہ اور آج ڈاکٹر فاروق دنیا سے چل بسے۔

یہ ابھی صرف کراچی اور سندھ کی بات ہے۔ 
مگر اس اپیل کا سندھ حکومت پر اثر تو کجا ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ڈاکٹرز کے پاس حفاظتی سامان ،کٹس تک کا نا ہونا، سندھ حکومت کی نا اہلی اور کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صحت کے نام پہ خرچ ہونے والا روپیہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟2019 کا صحت کے نام پر ایک سو چودہ ملین کا بجٹ کہاں استعمال ہوا؟ اتنے بجٹ کے باوجود اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے۔

کراچی شہر جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہاں صحت کے نظام اور اسپتالوں کا یہ حال ہے۔ انٹیرئیر سندھ کی تو بات ہی نا کریں۔ چھبیس فروری کو پہلا کیس رپورٹ ہوا، اور تقریبا ۶۸، ۷۰ دن گزرنے کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔رپورٹس کے مطابق پورے سندھ میں ٹوٹل ۴۸۴ وینٹی لیٹرز ہیں۔ جن میں سے ۳۵۳ فنکشنل ہیں اور کام کر رہے ہیں، جبکہ ۶۰ سے ۷۰ وینٹی لیٹرز آوٹ آف آرڈر ہیں فنکشنل نہیں ہیں۔

تو ۷۰ دن گزرنے کے بعد ان میں سے ایک بھی ابھی تک ٹھیک کیوں نہیں ہوا؟کیا ترجیحات ہیں ہماری؟۲۲ کروڑ کے ملک میں دو ہزار آئی سی یو بھی نہیں۔ کیا سندھ میں لاک ڈاون اناونس کرنا ہی کافی تھا یا اس لا ڈاؤن میں اپنی حالت ِ زار کوبھی بہتر بنانا تھا؟
اب اس سب سچویشن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے روئیے اور حکمت ِ عملی دیکھی جائے تو پہلے دن سے اب تکPTIاور PPP کی ٹھنی ہوئی ہے ۔

وفاق کو سندھ حکومت سے شکایت اور وہیں بلاول بھٹو ذرداری حاکم ِ وقت پر اور ان کے لائحہ عمل پر برس پڑے۔ جس کا خمیازہ صرف عوام ،State ریاست کو بھگتنا پڑ رہا۔کرونا پہ سیاست عجیب ہے اور اس سے بھی زیادہ عجیب متضاد بیانات اور حکومتی حکمت ِ عملی ہے کہ اب تک یہی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ لاک ڈاؤن جزوی ہو گا،مکمل ہوگا، یا کرفیو۔۔۔یہی لاک ڈاؤنPTIاور PPP کے درمیان Bone of contention ہے۔

 
بلاول بھٹو صاحب نے الزام لگایا کہ ہر صوبے کو حکومت کی نا اہلی نے نقصان پہنچایا۔عمران خان صاحب کو مشورہ دیا کی خود کو کنٹینر سے اتار کے وزیراعظم بنیں اور کام کریں ورنہ استعفاء دے دیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان صاحب کی یہی حکمت ِ عملی رہی تو کراچی کی حالت نیو یارک جیسی ہو جاے گی۔ جبکہ عمران خان صاحب اتنے دن گزرنے کے بعد ابھی بھی کلیئر نہیں۔

کنفیوژ ہیں۔ان کا بیان نہایت مضحکہ خیز تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے حق میں ہی نہیں تھے۔لاک ڈاؤن سے کرونا ختم نہیں ہو گا۔حاکم ِ وقت سے کوئی پوچھے کہ چین، امریکہ اٹلی، سینٹرل امریکہ نے سخت لاک ڈاون کیا تو ان کی حکمت ِ عملی غلط تھی؟ مختلف جگہوں پر مختلف بیانات نے ملک کو عوام کو نہایت مشکل میں ڈال دیا ہے۔کیا عمران خان صاحب کی حکومت چیک اینڈ بیلنس کی صلاحیت رکھتی ہے؟روز مرہ کی زندگی کی بحالی کا مطلب صاف واضح ہے کے بچاؤ کی ڈائیرکٹ ذمہ داری عوام پہ آتی ہے ۔

حکومت ابھی تک قوم کوخطرے سے جگانے میں ناکام کیوں رہی ہے؟ حکومت جانتے بوجھتے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اور کیسز ہیں کے بڑھتے جا رہے ہیں اور وفاق اور سندھ کی زبانی بیان بازی ختم نہیں ہو رہی۔
ملک اس وقت حالت ِ جنگ میں ہے۔ جسے ہم تیسری بڑی جنگ ِ عظیم کہیں تو بے جا نا ہو گا، فرق صرف اتنا ہے کہ جنگ ِ عظیم اول اور دوئم کے یہ جنگ ہتھیاروں کی بجائے ایک وباء سے لڑنی پڑ رہی ہے۔

جس جنگ کی کمانڈ ہمارے ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں ہے۔جو فرنٹ لائن پر اس سے لڑ رہے ہیں اور سچے سپاہیوں کی طرح اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
یہ ٹائم اور Energy زبانی بیان الزام بازی پر ضائع کرنے کی بجائے عوام کی بہتری بھلائی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کو تمام اختلافات کو ختم کر کے ایک Page پہ آ نا ہو گا۔ بندر بانٹ ختم کرنی ہو گی ،حکومتوں اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے یہ جنگ فرنٹ لائن پر لڑنے والے سولجرز کے ساتھ مل کر لڑنی ہو گی۔ 
یہی زندہ اور کامیاب قوموں کی نشانی ہے۔۔۔۔!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :