سوشل میڈیا اور سپورٹر

جمعہ 18 اکتوبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

فیس بک پر اپنا اکاونٹ لاگن کیا تو ہمیشہ کی طرح گروپ میں گرما گرم بحث جاری تھی۔موضوع وھی پرانا ،مقابلہ وہی پرانا،پاکستان تحریک انصاف بمقابلہ مسلم لیگ ن۔نیا پاکستان بمقابلہ پرانا پاکستان۔ دونوں گروپوں کی طرف سے پارٹی سپورٹر کے اپنی اپنی پارٹی کے حق میں دلائل جاری تھے۔ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے ہر طرح کے جملے کسے جا رہے تھے۔

گروپ سے ہٹ کر پیج سکرولنگ کی وہاں پر یا تو اشتہارات تھے پر زیادہ تر سیاسی پوسٹ تھیی۔اپنی اپنی پارٹی رہنماوں کو بطور ہیرو نجات دہندہ پیش کیا جا رہا تھا۔دوسری جماعت کے لیڈر کو  چور ڈاکو نااہل غدار وطن کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ہر پوسٹ پر جس طرح کے تبصرے اور راے  ذیادہ تر ناقابل بیان تھیں۔ایک دوسرے کی تذلیل کی جا رہی تھی  تمسخر ارایا جا رہا تھا۔

(جاری ہے)


ان سب تبصروں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔کوی بھی سیاسی جماعت سپورٹر کے بغیر نہیں چل سکتی۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی سپورٹر پارٹی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔چونکہ سپورٹر پارٹی کا اہم حصہ ہے  کسی بھی سیاسی جماعت کا سپورٹر چاہے ن لیگ  پی پی پی یا پی ٹی آی کا ہو۔سوشل میڈیا پر آ کر ۔پاڑٹی کے جھوٹ سچ  صحیح  غلط پالیسی پر ڈٹ جانا ۔

ان کی کرپشن ہو یا عوام  سے کیے گے جھوٹے وعدے دعووں کا  دفاع اپنا  مذہبی قومی فریضہ سمجھتا ہے۔ایسے رویے ہمیں سچ سے دور لے کر جا رہے ہیں۔ہم اپنی ضد انا ہٹ دہڑمی کی وجہ سے سچ کو سچ جھوٹ کو جھوٹ ،غلط کو غلط کہنے کو تیار نہیں اور نہ ہی  کسی بھی صورت کسی کو برداشت کرتے ہیں  ۔کبھی سوچیں ان سیاسی جماعتوں ان کے قائدین کی حمایت ان کے دفاع کے لیے ہم سارا دن سوشل میڈیا پر آ کر اپنے بہن بھائیوں اپنے ہم وطنوں کو کھبی جاہل کہہ کر کھبی یوتھیا کہہ کر کھبی پٹواری غدار اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر تزلیل کرتے ہیں بلکہ تزلیل کرکے خوش بھی ہوتے ہیں۔

خدارا پارٹی پرستی چھوڑ کر ایک قوم بنیں۔پاکستانی بنیں۔ایک دوسرے کی راے کا احترام کریں۔میں آپ سے ہوں آپ مجھ سے ہیں اور ہم سب پاکستان سے ہیں۔کسی بھی پارٹی کا  حکمران ہو ملک کے لیے اچھا کریں تو دل کھول کر تعریف کریں اس کا ساتھ دیں جہاں غلط کرے اس کے دفاع کی بجاے تنقید کریں اس کی اصلاح کریں۔ملک تو اپنا ہی ہے۔
کہتے ہیں سیاست بھی ایک کھیل ہے۔

اور موجودہ حکومت کھلاڑیوں کی ہے۔آج کل ہر سیاسی اصطلاح میں کرکٹ کی اصطلاحات استعمال ہو رہی ہیں۔ اسی تناظر میں  کھیل میں اچھا کراوڈ وہی کہلاتا ہے جو سپورٹنگ کراوڈ ہو۔دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو سپورٹ کرے۔کسی کے بھی ٹیم کے اچھے کھیل پر دل کھول کر داد دیں۔
        ہر پارٹی سپورٹر یا عام عوام جس کی کسی پارٹی سے وابستگی ہے یا نہیں ۔

اپنی سیاسی پارٹی  کا موازنہ دوسری پارٹی سے نہ کریں۔بلکہ اس کا موازنہ مقابلہ اپنی پارٹی کے بیانیے سے کرے اس کے حکومت میں آنے سے پہلے کیے گے وعدوں دعووں سے کرے۔وہ ان کو پورا کرنے کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ان پر کس طرح اور کتنا عمل درامد کر رہی ہے۔
         اس وقت وطن عزیز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔سوشل میڈیا پر pti کی حکومت بہت کامیابی سے چل رہی ہے کاش حقیقت میں بھی pti کے حکمران کامیابی سے چلا رہے ہوتے ۔

pti سپوٹر کو چاہے کہ ہر وقت سوشل میڈیا پر سابقہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ مواذنہ یا مقابلے باذی کرنے کی بجاے۔اپنی پارٹی کے وعدے دعوے تبدیلی کے نعروں پر عمل درامد کروایں۔کیونکہ ابھی تک pti حکومت میں آنے کے بعد  سوا سال گذرنے کے بعد بھی اپنے کسی بھی وعدے دعوے تبدیلی کے  نعرے پر عمل نہیں کر سکی ہے۔ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ ملک کو قرضوں سے نجات غربت مہنگائ ختم کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔

بلکہ اپنے ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے سے دستبردار ہو گی ہے ۔اس ضمن میں وفاقی وزیر چوہدری فواد نے کل صاف صاف کہہ دیا ہے عوام ہم سے نوکریوں کی توقع مت رکھے ۔نوکری دینا حکومت کا کام نہیں ۔پنجابی کا یہ فقرہ حسب حال ہے
              جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا
  اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوے ۔ سپورٹس مین کی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا اپنے آپ سے ہے۔

عوام سے کیے گے وعدے دعووں سے ہے۔دیکھا یہی گیا ہے کوی بھی جماعت حکومت میں آنے سے پہلے ظاہر یہی کرے گی ملک اور قوم کے درد سے بے حال ہے اور اس سے بڑا محب وطن کوی نہیں ۔حکومت میں آنے  کے بعد تو کون میں کون کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوے صرف اور صرف اپنے مفاد کو مد نظر رکھتی ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت بزرگ لطیفہ یاد آ رہا یے (نوٹ ہنسنا منع ہے لطیفے غیر سیاسی ہوتے ہیں)
    .  شیر کی بارات جا رھی تھی بارات میں چوھا سب سے زیادہ زور و شور سے ناچ رھا تھا۔

کسی نے چوھے سے پوچھا تم کیوں اتنا ناچ رھے ھو۔ چوھا بولا میرے بھائ کی شادی ھے۔پوچھنے والے نےحیرت سے کہا تم چوھے وہ شیر۔چوھا بولا شادی سے پہلے میں بھی  شیر تھا
یھی حال ھمارے سیاست دانوں کا ھے۔جب اپوزیشن میں ھوتے ھیں تو شیر ھوتے ھیں برکیں مارتے ھیں ۔ھم یہ کر دے گے وہ کر دے گے۔جیسے ھی حکومت میں آتے ھیں تو شیر سے چوھے بن جاتے ھیں۔پارٹی سپورٹر کے لیے باعث شرمندگی کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن ہمارا سیاسی سپوٹر انتہائ بہادری سے پارٹی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوے سوشل میڈیا پر اپنی پارٹی کے دفاع میں کوی کسر نہیں چھورتا۔چاہے برسوں کے تعلق چھوڑ دے۔
        سپورٹر پارٹی کی جان ہوتے ہیں۔اور انھیں یہ سمجھنا چاہیے۔ جماعتیں سپورٹر سے ہیں۔سپورٹر جماعتوں سے نہیں۔  پارٹی سپورٹر کو چاہے کہ پارٹی کے غلط اقدام پر  دفاع کی بجاے اعلی قیادت پر دباو بڑھاے ان کو مجبور کرے کہ اپنی پارٹی پالیسی پر فل فور عمل کرتے ہوے اپنے وعدے پورے کرے۔

اپنی جماعت کے لیے خود ہی مظبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔بجاے اس کے اپوزیشن اس سے فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرے ۔
 اس ساری بات کا خلاصہ یہی ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوے سیاسی سپورٹر کسی بھی جماعت کا ہو،کسی پارٹی یا سیاستدان کے بارے میں تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر اپنی راے دیں اور اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔

دوسرے کی راے کا احترام کریں۔پارٹی وابستگی کا مذاق نہ ارائیں۔ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیں۔کسی کی بھی محب الوطنی پر شک نہ کریں۔کسی ثبوت کے بغیر الزام تراشی لعن طعن نہ کریں۔سیاست کو انجواے کریں۔ درد سر مت بنائیں۔سیاست دانوں کا تماشہ دیکھیں ان کی خاطر خود تماشہ نہ بنیں۔ آپس کی دوستی تعلقات کو ان کی بےجا حمایت کر کے قربان مت کریں۔ان کی خاطر اپنے پیاروں سے بد کلامی یا قطع تعلق کرنا جہالت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :