میر حسن

جمعہ 10 جنوری 2020

Rehan Muhammad

ریحان محمد

شہر قائد کراچی پاکستان کا سب سے بڑا آبادی والا شہر ہے۔ کراچی ملک کا بڑا معاشی حب ہے۔ اور ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کراچی جیسا شہر جو بڑے بڑے سرمایہ داروں جاگیرداروں سیاست دانوں کا شہر ہے۔گزشتہ دنوں ایک خودکشی کا واقعہ ہوا۔جس کی تفصیلات پڑھ کر دل دھل گیا۔اردو پوائنٹ کے رپوٹر کے مطابق شہر قائد میں بچوں کی گرم کپڑے کی فرمائش پر باپ نے خودکشی کرلی۔

تفصیلات کے مطابق میر حسن کراچی کی کورنگی ابراہیم حیدری کا رہائشی تھا۔اس کی عمر 35 سال بتائی گئی ہے۔پچھلے تین ماہ سے بےروزگار تھا۔  جس نے غربت کا شکار ہوتے ہوئے اپنے بچوں کی فرمائش کے سامنے ہار مار لی اور خود کش کا فیصلہ کر لیا۔
میر حسن نے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر قریبی قبرستان میں خود کو آگ لگا لی۔

(جاری ہے)

مقامی لوگوں کی جانب سے میر حسن کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ۔

جھلستے ہوئے میر کو زخمی حالت میں سول اسپتال کی وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ سول اسپتال کے ڈاکٹروں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جب تک میر حسن کو اسپتال لایا گیا تب تک اس کا جسم60 فیصد جھلس چکا تھا۔واضح رہے کہ اس سال پاکستان میں سردی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔کراچی وہ شہر ہے جہاں سردی کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی،لیکن اس سال ریکارڈ سردی نے کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔

ایسے میں بچے اگر گرم کپڑوں کی فرمائش نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ بچوں کی ایسی فرمائش کو ہی پوری نہ کر سکنے پر میر حسن نے خودکشی کر لی۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ میر حسن 3 ماہ سے بے روزگار تھا اور زندگی نہایت غریبی تنگدستی میں گزر رہی تھی اور ایسے حالات نے ہی اسے مجبور کیا  وہ ایسا قدم اٹھائے۔ خودکشی کرنے سے پہلے غریب نے  وزیراعظم  عمران خان کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں اپنی غربت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے لئے گھر اور روزگار کی اپیل کی لیکن کسی بھی قسم کا وزیر اعظم کی طرف سے کوی امدادی جواب نہ آیا۔

بلکہ میرا خیال ہے کہ خان صاحب نے اپنا فلسفہ حیات و موت میر حسن تک پنچایا جس پر اس نے عمل کرتے ہوے اپنے آپ کو زندگی کی قید سے آزاد کر لیا۔یہی فلسفہ  گذشتہ دنوں عمران خان نے ایک تقریب میں بھی بیان کیا کہ انسان کی ساری زندگی بے چینی میں گذرتی ہے اور  حقیقی سکون قبر میں جا کر ملتا یے۔
   خان صاحب نے اس تقریب میں اپنے ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے کی نفی کی، وضاحت کی، یا ہمیشہ کی طرح یو ٹرن لیتے ہوے کہا کہ نوکری یا روزگار دینا حکومت کی زمہ داری نہیں ہوتی بلکہ حکومت کا کام ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔


     وزیراعظم عمران خان سے میرا سوال ہے کہ اگر حکومت ملکی وسائل سے   روزگار  کے مواقع پیدا نہیں کر سکتی تو معاشرے میں خودکشی کے حالات بھی پیدا نہ کرے۔ میر حسن یا اس جیسے دوسرے کس قانون کے تحت خودکشی کی۔ بڑے بڑے قومی مجرم جنھوں نے دن رات ملک لوٹا ان کو وی آی پی پروٹوکول کس قانون کے تحت حکومت دیتی ہے۔ جیل میں اے سی ہیٹر کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

میر حسن جیسے معاشرے کے غریب لوگ ایک لحاف کے لیے ترستے ہیں۔ معاشرے میں دو قانون امیر کے لیے کچھ اور غریب کے لیے کچھ اور کب ختم ہوں گے۔ ہمارے ملک کا غریب کب تک چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے ترستا ریے گا۔ کب تک مایوس ہو کر موت کو گلے لگاتا رہے گا۔ کب تک اس ملک کی اشرافیہ سرمایہ دار غریب کا لحاف بھی چھینتی رہے گی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ جو غریب کے لیے ہے کب تک سترھویں بایسویں گریڈ کے افسران ہڑپ کرتے رہے گے۔

کب ان کے خلاف سخت سے سخت کاروای کر کے حق دار تک حق پہنچے گا۔ کب تک غریب کے وسائل پر ڈاکہ ڈالتا رہے گا۔ کب تک غریب کے مسائل کا حل خودکشی ہو گا۔
  ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والے تاریخ پڑھیں تو پتہ چلے گا۔ کسی کو امیرالمومنین  کے نام  درخواست لکھنی نہیں پڑتی تھی۔ حضرت عمرؓ خود بھیس بدل کر راتوں کو لوگوں کے حالات زندگی معلوم کرتے تھے۔

اور خاموشی سے عزت نفس بحال رکھتے ہوے ان کے مسایل حل کرتے۔ حضرت عمرؓ فرماتے اگر ان کے دورے خلافت کتا بھی دریاے فرات کے کنارے پیاسا مر گیا تو اس کا حساب  بھی دینا ہو گا۔ آج لوگ اس ریاست مدینہ میں خودکشیاں کر رہے ہیں۔
یہ اپنی نوعیت  کا پہلا واقع نہیں۔  اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں گذشتہ پانچ سالوں میں تیرہ سو افراد نے خود کشی کی ہے۔

  پڑ نا جانے کیوں خود کشی  کے اس واقع نے طبعیت مکدر کر دی ہے۔ دل و دماغ ماوف ہو گے ۔اپنے آپ سے معاشرے سے اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہم کسی معاشرے میں نہیں رہ رہے ہیں نہ کسی معاشرے کا حصہ ہیں ۔اتنی بے حسی بےبسی پہلے نہیں دیکھی۔ معاشرے کا نظام مردہ ہو گیا ہے ۔ہم سب بہرے گونگے ہوں گے ہیں۔جس ملک میں سردی سے بچنے کے لیے بچوں کو ایک لحاف نہ ملے نا صرف ہماری اشرافیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔

بلکہ اشرافیہ کو بھی خودکشی کر لینی چاہیے۔ہم سب میر حسن کے برابر کر مجرم ہیں۔ ہم سب غریب کے حالات جان کر بھی انجان بن جاتے ہیں۔ اس سے بےرخی اختیار کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ اپنی سوچ اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔   زرا سوچے آج جو بیج بو رہے ہیں کل اسی کی فصل کاٹنی ہے۔ یہ فصل کیسی ہو گی سوچ کر ہی دل ڈوب جاتا ہے۔
  میر حسن کے بچے کس کے ہاتھ اپنے باپ کا لہو تلاش کریں گے۔ سب نے نوکیلے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :