من حیث القوم

جمعرات 12 مارچ 2020

Rehan Muhammad

ریحان محمد

 من حیث القوم ہمارا رویہ تضاد کا شکار ہے۔ بیک وقت منفی اور مثبت رویہ ہمارے مزاج کا حصہ ہے۔ ملک و قوم پر آفت آئے مصیبت آئے تو اس صورتحال میں پوری قوم اکھٹی ہو جاتی ہے۔ یک جان ہو جاتی ہے۔جس کو شکست دینا ناممکن نظر آتا ہے۔ جو ایک زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ اور مثبت رویے کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہی ہمارے بیشمار منفی رویے ہیں جو ایک قوم لگنے کی بجاے ہجوم کی نشاندہی کرتے ہیں اور لگتا ہے اس ہجوم کو تتر بیتر کرنا اس کو ختم کرنا بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔

 
 ھماری قوم کے کچھ منفی رویے اور عادات۔
ہماری عوام کی اکثریت گاڑی چلاتے ہوے یا موٹر سائیکل کی سواری کرتے ہوئے ایکسیڈینٹ کے خوف سے سیٹ بیلٹ اور ہیلمنٹ کا استعمال نہیں کرے گی بلکہ ٹریفک چلان کے خوف سے سیٹ بیلٹ اور ہیلمنٹ استعمال کرے گی۔

(جاری ہے)

ٹریفک اشارے کی خلاف ورزی کرنا۔قطار کو تورنا ہماری قوم کے لیے کسی فخر اور بہادری سے کم نہیں۔

اے ٹی ایم سے کیش نکلاوانے جائیں تو ڈسٹ بین ہونے کے باوجود اے ٹی ایم رسید فرش پر پھینک دیں گے۔ اسی طرح جہاں کھائیں پییں گے وہی گند ڈال دیں گے۔ پبلک ٹوئلٹ کی حالت زار نا قابل بیان ہے۔ 
غور کریں تو یہ قوم تماشا بھی نظر آتی ہے۔ پچھلے دنوں قریبی نہر میں دو جوان لڑکے نہاتے ڈوب گے۔ میرے سمیت دو تین سو کا ہجوم جائے۔ حادثہ پر اناً فاناً جمع ہو گیا۔

لیکن بچانے والے دو جوان شامل تھے جو نہر میں غوطہ لگا کر ان کو تلاش کر رہے تھے۔ باقی سب میرے سمیت تماشا دیکھنے والوں میں شامل تھے کوئی ڈوبتے جوانوں کی موبائل سے وڈیو بنانے مصروف عمل تھا کوئی سیلفی لینے میں مگن تھا۔ کچھ موبائل پر اپنے یاروں دوستوں کو حادثہ کی منظر کشی کرتے ہوے فوراً پہنچنے کی ہدایات جاری کر رہے تھے۔کچھ نے تو اپنے طور پر ان لڑکوں کی موت کی تصدیق کر دی۔

اسی طرح آپ کسی کو غلط نام سے مخاطب کریں تو اردگرد سننے والے بہت محظوظ ہوں گے۔ کسی کا مذاق اڑایا جائے تو خوش ہوں گے۔ ہمیں خوش ہونے کے لیے دوسروں کو زلیل کرنا پڑتا ہے۔ہمارے سٹیج ڈرامے ہوں یا ٹی وی پر مزاحیہ ڈرامہ مزاحیہ شو ہو جس قسم کی جگت بازی جملے بازی ہوتی ہے ایک دوسرے کی جس طرح مزاح کے نام پر تذلیل کی جاتی ہے اور سننے دیکھنے والا جس انداز سے محظوظ ہوتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ٹی وی سیاسی ٹاک شو میں مہمانوں کا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور اینکر پرسن کا جلتی پر تیل ڈالنا اس سے پروگرام کی ریٹنگ زیادہ ہو گی اور یہ عوام کی پسندیدگی کا معیار ہے اور ہماری تماشای طبعیت ہونے کا ثبوت ہے۔ 
ہمارے ٹی وی ڈراموں کی کہانی جتنی منفی سوچ کی حامل ہو گی پسندیدگی کا تناسب اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنا مستقبل اور دوسروں کا ماضی جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔

ہماری عوام کا اپنی دنیا کی اور دوسروں کی آخرت کی فکر لگی رہتی ہے۔ ڈراموں فلموں میں دکھی درد ناک کرداروں پر آنسو نکل آتے ہیں۔حقیقی زندگی میں کسی رشتے دار کے دکھ تکلیف کے باعث آنسووں کو کہنا کے ڈرامہ کر رہا ہے۔ 
ہمارے رویے میں ہٹ دھرمی ضدی پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اگر کسی بات پر کسی کے حق میں کسی کی حمایت کر دیں اور غلط ثابت ہونے پر بھی ہم اپنے موقف سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہو جائے اس کی حمایت اپنی پوری توانائی سے جاری رکھیں گے۔آپ میرے اس دعوے کو سوشل میڈیا پر چیک کر سکتے ہیں۔ اگر کوی کسی سیاسی جماعت کا سپورٹر وہ ہر حال میں اپنی سیاسی جماعت کی چاہے اس کی کرپشن کی داستانیں ظلم کی کہانیاں زبان و زد عام ہوں۔اس کی نا اہلی اس کی محب الوطنی پر شک ہو پھر بھی اس کی حمایت ہر حال میں کریں گے۔ اس کے ہر فیصلے کی چاہے اچھا برا ہے اس کا دفاع کرنا مذہبی قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

ایسے رویے ہمیں سچ سے دور لے کر جا رہے ہیں۔ ہم سچ کو سچ غلط کو غلط کو کہنے سننے کو تیار نہیں۔ اور نہ ہی اس حوالے سے کسی کو برداشت کرتے ہیں۔
 شیخی بگھاڑنے آرام طلبی میں اور بھڑکیں مارنے میں ہماری قوم کا کوئی ثانی نہیں۔مستقبل کے منصوبے بنانے کامیاب زندگی کے نسخے ہر وقت جیب میں موجود ہوتے ہیں۔ پر افسوس عمل ٹائیں ٹائیں فش۔ ایک مزدور سے لے کر دانشور تک دنیا کو درپیش چیلنجلز کی وجوہات اور اس کا حل چٹکی بجاتے پیش کر دیے گا۔

ہر بیماری کے علاج اور ادویات کی معلومات پر مکمل دسترس حاصل ہو گی۔ حال ہی میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئیے جانے والا جان لیوا کورونا وائرس کا علاج جس تیزی سے ہماری قوم نے دریافت کیا ہے۔ اس کے آگے دنیا کے بڑے بڑے ریسرچ سینٹر ناکام ہو گے ہیں۔ 
ہمارے پالیسی میکر جو انتہائی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود عام عوام کی فلاح کے لیے جو پالیسی بنائیں گے اس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔

مثال کے طور پر کم بچے خوشحال گھرانے کا اشتہار یا اس کی کمپین میں وہ لوگ شامل ہوں گے۔جن کے ذرائع آمدن بے حساب ہیں ان لیے کثرت اولاد کوئی مسئلہ نہیں یا پہلے ہی سے کم بچے خوشحال گھرانے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن جہاں اس پیغام کی اشد ضرورت ہے وہاں تک پہنچے گا نہیں۔اسی طرح وومن ڈے پر عورتوں کے حقوق اور آزادی سے متعلق وہ خواتین مارچ میں شامل ہوتی ہیں اور بیہودہ پلے کارڈ بینڑ اٹھائیں ہوتی ہیں جو پہلے ہی سے بہت آزاد اور ماڈرن ہوتی ہیں۔

جن کا عورت کی آزادی اس کے حقوق کوئی مسئلہ نہیں ہے۔پڑھے لکھے پاکستان کی تحریک وہ چلائیں گے جن کے اپنے گھروں دفاتر میں غریب بچے سکول جانے کی بجائے محنت مزدوری کر رہے ہوں گے۔ عدم برداشت ہماری قوم و معاشرے کا بہت بڑا منفی پہلو ہے۔چاہے پڑھے لکھا ہو یا ان پڑھ ہو۔ دونوں میں عدم برداشت کا فقدان ہے۔ 
میری ذاتی رائے میں عدم برداشت جرم ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔بیشمار واقعات ایسے ہیں جو معمولی تنازعے سے بہت بڑے جھگڑے میں بدل گے اور بات قتل و غارت تک پہنچ گی۔ کچھ عرصہ پہلے چھوٹی سی عدم بداشت پر وکلا اور ڈاکٹروں کا جھگڑا جنگ میں بدل گیا۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی گی۔ہر قسم کا علاج معلاجہ بند ہو گیا۔

ہزاروں مریضوں کی زندگیاں داو پر لگ گیں۔
 ہماری قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلییاں ہوں۔ جہاں عوام کے نمایندے قوم کی فلاح بہبود کے لیے ترقی و خوشحالی کے لیے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ان کی حیثیت رول ماڈل کی ہوتی ہے۔ پر افسوس ایوان کے اندر جس قسم کی زبان کا فکرے بازی کا گالی گلوچ کا استعمال کرتے ہیں اور جس عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوے ہنگامہ آراء کرتے ہیں۔

وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
 عدم برداشت کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ حالیہ دنوں وومن ڈے کے حوالے سے میڈیا پر بہت ٹاک شو ہوئے گرما گرم بحث محباحثے ہوئے۔پر سب سے زیادہ متنازعہ اور زیر بحث رہنے والا پروگرام خاتون صحافی سرمد ماروی اور معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان کا تھا۔میں خلیل الرحمان کے موقف کی سو فیصد تائید کرتا ہوں۔ خلیل الرحمان درست موقف رکھتے ہوئے بھی اپنے عدم برداشت کی وجہ سے ایک خاتون کے ساتھ اپنی نازیبا گفتگو سے اور گالی گلوچ کی وجہ سے اپنے ساتھ بہت بڑی ناانصافی کر بیٹھے۔

شعلہ بیانی کی بجائے تھوڑے تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔اپنا موقف دوسرے فریق پر تھوپنے کی بجائے اس کی بھی رائے کا احترام کرتے۔ تحمل اور برداشت میں ہی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ عدم برداشت کی کمی معاشرے اور قوموں کے زوال کی نشانی ہے۔ 
باصلاحیت قوم ہوتے ہوئے بھی ناکامی کی وجوہات ہماری منفی اپروچ ہے۔ ساری قوم کو اپنے منفی رویے سے نکل کر مثبت سوچ کو اپنانا ہو گا۔ حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا۔آرام طلبی کی بجائے محنت کرنا ہو گی اور اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا اور دنیا میں اپنا نام اونچا کرنا ہو گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :