
صغرائی
ہفتہ 8 مئی 2021

ریحان محمد
صغرا اصل نام تھا مگر وہ صغرائی کے نام سے اپنا تعارف کرواتی تھی ۔ تیس سالہ صغرائی میرے گھر سے ملحکہ پلاٹ میں چھوٹی سی جھگی ڈال کر اپنے چھ عدد بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ جوانی میں ہی بیوہ ہو گی تھی۔ بڑا بچہ جسے وہ گامے کے نام سے پکارتی تھی کم و بیش باڑہ تیرہ سال کا ہو گا۔جبکہ سب سے چھوٹا بچہ ڈھائی تین سال کا ۔اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کا ایندھن بڑھنے کے لیے دن بھر لوگوں کے گھروں کا کام کرتی تھی۔ اسی تناظر میں میرے گھر کی صفائی ستھرائی کا سارا کام صغرائی کرتی تھی۔
جتنی میرے گھر خوشحالی تھی اس سے کہیں زیادہ صغرائی کے گھر بدحالی تھی۔پر اتنی بدحالی میں بھی اپنے پانچ بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا تھا۔ اور باقاعدگی سے سکول بھیجتی تھی۔
میرے تین بیٹے طلال بلال اور جمال ہیں ۔جو میرا غرور ہیں۔ جن کو میں نے شہزادوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ ان کے منہ سے نکلی ہر جائز و نا جائز خواہش فوری پوری ہوتی۔سہل پسند بھی اتنے ہو گے کہ گھر کی ڈور بیل بجنے پر ایک دوسرے کا منہ تکتے کے کوئی دروازہ کھول آے۔ان کی سہل پسندی دیکھتے ہوے گامے کو سکول سے آنے کے بعد گھر میں سودا سلف لانے کے لیے ملازم رکھ لیا جو رات گے تک گھر کی اور بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے مارکیٹ جاتا ۔
صغرائ نے دوچار مرتبہ کہا کہ میں اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر افسر بناوں گی۔ تو میں نے اسے کہا کہ تم نے اپنے بچوں کو پڑھا کر کیا کرنا ہے انھوں نے کون سا پڑھ لکھ کر آفسر لگ جانا ہے۔ تم جیسوں کے بچوں نے کرنی تو مزدوریاں ہی ہیں ایسے ہی ان کا اور اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔کھبی تمہارے جیسے لوگوں نے بھی ترقی کی ہے۔ ان کو کسی کام پر ڈالو تا کہ تمہارا بوجھ بھی کم ہو۔میری بات سن کر بجھ سی گئی۔
گھر میں اچھے سے اچھا کھانا پکنے کے باوجود روزانہ تینوں اپنی اپنی پسند کا کھانا گامے سے باہر سے منگواتے۔اور ضائع بھی بہت کرتے۔ وہی ضائع شدہ جھوٹا کھانا اپنی فراخدلی سمجھتے ہوے گامے اور اس کے گھر والوں کو دے دیتے۔ تینوں بچے زرا زرا سی بات پر گامے کو ڈانٹتے اور مارتے تھے۔ مارنے کے باوجود گامے کی شکایت صغرائی سے بھی کرتے جو انتہائی سفاکی سے اسی وقت گامے کی مرمت شروع کر دیتی۔ گامے کو جب مار پڑ رہی ہوتی تو گامے کی اچھل کود اور بے ہنگم آوازیں دیکھنے سننے والی ہوتی۔ جس سے میرے بچے اور میں بھی بہت محظوظ ہوتا۔
برسات کا موسم تھا۔ شہر میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ جس کی لپیٹ میں میرا بڑا بیٹا طلال بھی آ گیا۔ڈاکٹر پر جانے سے پہلے موشن اور قے رک نہیں رہے تھے ۔کیا بستر کیا فرش غرض گھر میں ہر جگہ گندگی کر دی جسے بڑی خندہ پیشانی اور فراخدلی سے صغرائی اور گاما صاف کرتے رہے۔ دو چار دن میں نہایت اچھے علاج سے طلال صحت مند ہو گیا۔
رات کے پچھلے پہر بہت تیز ڈور بیل بجی جیسے انگلی دبا کر ہٹانا بھول گیا ہو۔ میں اور میری بیگم ہر بھرا کے اٹھے اور مین گیٹ کے دروازے پر نہایت بےزارگی سے پوچھا کون ہے۔ تو صغرائی کی گھبرائی ہوئی آواذ میں بولی صاحب جی جلدی سے دروازہ کھولیں۔ میں نے چھوٹا گیٹ کھولا تو بیگم نے جھڑکتے ہوے پوچھا کیا بات ہے صبر نہیں ہے تم میں یہ کوئی بیل دینے کا طریقہ ہے۔ آگے سے صغرائی روندھی ہوئی آواز میں بولی میرے گامے کی حالت بہت خراب ہے الٹیاں اور دست کر کر کے بے سودھ ہو گیا ہے بلکل ہوش نہیں کر رہا ۔خدا کے لیے اسے اپنی گاڑی میں ہسپتال لے جائیں۔ ہوا کا بھبکا چلا پاس کھڑی صغرائی سے شدید ناقابل برداشت قے اور موشن کی بدبو آئی ۔میری بیگم نے ناک پر ھاتھ رکھتے ہوے صغرائی سے ہماری نئی گاڑی ہے گاما گندگی کر دے گا تو گاڑی گندی ہو جاے گی۔ تم محلے میں کسی اور کو کہو۔ تو وہ بولی شیخ صاحب اور ملک صاحب کے گھر گی پر وہ دونوں نہیں ملے۔ اللہ کے واسطے آپ گامے کو ہسپتال لے چلیں۔ میں نے صغرائی سے کہا رات کے اس وقت ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں ہوتے صبح ہوتے ہی میرے سے رکشہ کا کرایہ لینا اور ڈاکٹر پر چلی جانا۔ صغرائی روندھی آواز میں بولی پر گامے کی حالت ۔صغرائی کا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے جھارتے ہوے بولا تمہیں ایک دفعہ کہہ دیا ہے میری نئی گاڑی گندی بدبودار ہو جاے گی۔ صبح ہسپتال لے جانا اور گامے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس کو وقفے وقفے سے پانی میں نمک گھول کر پلاتی رہو۔ یہ کہہ کر دروازہ بند کر کہ اندر آ گیا۔
دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو ساتھ والے پلاٹ پر محلے کے چند بزرگ اور نوجوان نظر آے۔ انہوں نے اشارے سے مجھے بلایا ۔میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس گیا تو پتہ چلا گاما مر گیا ہے اب اس کے کفن دفن کے انتظام کے لیے چندہ اکٹھا کر کے صغرائی کو دینا ہے۔ صغرائی ایک چارپائی کے پاس بیھٹی ہوئی تھی جس میں گاما ابدی نیند سو رہا تھا ۔میں پاس گیا تو اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے ایسے دیکھاکہ پتہ نہیں کیا بات تھی میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پایا۔ دوسری طرف نظریں کرتے ہوے کہا خدا کو یہی منظور تھا گامے کی اتنی ہی زندگی تھی ۔جیب سے چند نوٹ نکال کر صغرایٰ کے ھاتھ میں رکھے۔ اور دفتر کے لیے نکل گیا آج میری بہت ضروری میٹنگز تھیں۔
دو چار دن بعد پتہ چلا کہ صغرائی اپنے بچوں سمیت جھگی چھوڑ کر کہیں چلے گی۔ یہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بوجھ میرے اوپر سے ہٹ گیا ہے۔
شب و روز ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں مہینے سالوں میں بدل گے۔ایسا لگتا تھا وقت نے بہت تیز سفر کیا یے۔دوران ملازمت ہر جائز و ناجائز زرائع سے پیسہ اور جائیدادیں بنائی۔ پر تینوں بچے انتہائی نالائق نکلے پڑھائی کا تو زرا سا بھی شوق نہیں تھا۔ بس ایک ہی کام تھا آپس میں ہر وقت لڑتے رہنا۔ اپنے تعلقات اور پیسوں کے دم پر پڑھا لکھا کر اچھے عہدوں پر سفارش اور بھاری رشوت دے کر تقرریاں کروائی ۔
کچھ عرصے بعد دونوں بڑے بیٹوں طلال اور بلال نے اپنی اپنی پسند کی شادی کر لی ۔شادی کے پندرہ دنوں بعد ہی دونوں نے علحیدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کا اثر ان کی ماں نے بہت زیادہ لیا۔ ایک جان لیوہ دل کا دورہ پڑا اور میری تیس سالہ رفاقت چھوڑ کر اگلے جہاں چلے گئی۔ میں اپنے آپ کو بلکل ہی تنہا محسوس کرنے لگا۔ سوچا تیسرے بیٹے جمال کی شادی کر دوں تو گھر میں رونق ہو جاے گی۔ بڑے دونوں کو میں ہی فون کروں تو کروں وہ خود تو جیسے بھول ہی گے تھے میں ان کا باپ ہوں۔ تیسرے کی بڑی دھوم دھام سے شادی کی ۔شادی کے کچھ دن بعد ہی تیسری بہو کی زبان درازی سے اندازہ ہو گیا کہ مجھے سخت ناپسند کرتی ہے۔
ایک بھیانک دن میں شاپنگ کر کے گھر واپس جا رہا تھا کہ سامنے سے آتے تیز رفتار بے قابو ٹرک میری گاڑی میں آ کر لگا۔ جس کے نتیجے جان تو بچ گئی پر ہمیشہ کے لیے معذور ہو گیا۔ اپنے جسم پر میرا کنٹرول ختم ہو گیا۔ ایک بازو ہر وقت ایسے ہلتا رہتا جیسے ابھی کس کو مارنے لگا ہوں۔کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا جو کھاتا کچھ دیر بعد الٹی کر دیتا ۔باتھ روم ٹائلٹ تک نہیں جا سکتا تھا۔چھوٹے بڑے پیشاپ کے لیے پیمپر لگانا پڑتا۔ اس کام کے لیے کئی ملازم رکھے جو ایک دو دن میں ہی میرے جسم سے آنے والی بدبو سے بھاگ جاتے۔ان حالات میں چھوٹا بیٹا جمال بھی مجھ سے کترانے لگا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بولا گھر میں آپ کے لیے کوئی ملزم آپ سے آنے والی بدبو کی وجہ سے نہیں ٹکتا۔اب تو بدبو پورے گھر میں پھیل گئی ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے آپ کو ہسپتال داخل کرا دوں۔ وہاں آپ کی دیکھ بھال بھی ہو گی اور علاج بھی۔ ایک ہسپتال کا پتہ کیا ہے وہ آپ جیسے مریضوں کے لیے ہے۔ میں تو آ گے ہی ان کے رحم وکرم پر تھا کیا بحث کرتا۔ میں نے کہا جو تم کو مناسب لگے ویسا کرو۔ اگلے دن جمال صبح صبح ہی آ گیا کہ ہسپتال میں آپ کے داخلے کا انتظام ہو گیا ہے آپ کو ابھی جانا ہے۔ میں نے کہا میں تیار ہوں گاڑی میں میری ضرورت کی چیزیں رکھ لو اور ساتھ کس کو لگا کر اپنی گاڑی میں مجھے بیٹھا دو۔ جمال فورا بالا نہیں بابا آپ میری گاڑی میں نہیں ایمبولنس میں جائیں گے آپ کو تو پتہ ہی ہے میں نے کچھ دن پہلے نئی گاڑی لی ہے۔ آپ کو وقت بے وقت قے اور موشن آ جاتا ہے۔ جس سے نئی گاڑی میں بدبو پڑ جاے گی۔ یہ سنتے ہی میں سناٹے میں آ گیا برسوں پہلے کہے ہوے الفاظ آج مجھے سود کے ساتھ مل گے۔ سچ کہتے ہیں غرور کا سر ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔ تینوں بیٹوں پر ساری عمر بڑا غرور کیا۔ آج میں اسی غرور کے نیچے آ گیا۔ اتنی چوٹیں شائد ٹرک کی ٹکر سے نہیں آئیں جتنی آج میرا بھرم میرا غرور ٹوٹنے پر آئیں۔
ایمبولنس اپنے مقررہ رستوں سے ہوتی ہوی ہسپتال پہنچی۔مین گیٹ پر ہی غلام رسول میموریل ٹرسٹ ہسپتال جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ۔میں نے جمال سے کہا تم مجھے خیراتی ہسپتال میں لے آے ہو تو وہ بڑی بےزاری سے بولا تو اور کہاں لے کر آتا۔ پرائیویٹ علاج تو میں اکیلا افورڈ نہیں کر سکتا بڑے بھائیوں نے آج تک آپ کے علاج کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی۔ہسپتال کی وارڈ میں مجھے داخل کر دیا۔ جمال کچھ دیر ٹھیر کر چلا گیا۔وارڈ کا معیار کسی بھی مہنگے ہسپتال کی وارڈ سے کم نہ تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے دیکھنے اسپیشلسٹ ڈاکٹر آ گیا۔ جس نے بہت اچھی طرح میرا چیک اپ کیا۔ اور بتایا کہ آپ کا ابھی تک کسی نے علاج ہی نہیں کروایا ۔آج سے آپ کا علاج شروع ہو گیا ہے ۔بہت بہتر ہو جائیں گے۔
اگلے دن وارڈ میں ایک عورت آئ جو پوری وارڈ کی اور مریضوں کی صفائی چیک کر رہی تھی ۔جب میرے بیڈ پر آئ تو کچھ لمحے مجھے بغور دیکھنے کے بعد بولی صاحب جی آپ ادھر۔ میں اسے نہیں پہچان سکا تو اس نے میری الجھن بھانپتے ہوے بولی صاحب جی میں صغرائ آپ کی پرانی ملازمہ۔تو میں فورا" پہچان گیا اور کہا صغرائ تم ادھر ملازمت کرتی ہو۔ تو وہ بڑی رعونت سے بولی نہیں ملازمت نہیں کرتی یہ میرے بیٹے کا ہسپتال جو گامے کے نام سے بےسہارہ نادار لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ میں یہاں صفائ کی انچارج ہوں۔میرے پر تو حیرتوں اور ندامتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تربیت کا فرق واضع نظر آنے لگا۔ آج مجھے پتہ چلا گامے کا اصل نام غلام رسول تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گے اور گھٹی ہوئ آواز میں بولا صغرائ مجھے معاف کر دو اگر میں گامے کو بروقت ڈاکٹر پر لے جاتا تو شائد گاما نہ مرتا اور مجھے اتنی سزا نہ ملتی۔ صاحب جی مجھے آپ سے کوئ گلہ نہیں ہے آپ آج بھی میرے صاحب ہیں میں آپ کی نوکرانی۔گاما مر کے بھی زندہ ہو گیا ہے۔ اب کی بار تو میں ہچکیوں سے رویا۔ صغرائ نے مجھے بہت مشکل سے چپ کروایا۔ بچوں کا پوچھا تو میں نے اپنے ساتھ ہونے والا سلوک بتایا۔ میں نے صغرائ سے پوچھا تم بغیر ملے بتاے کہاں چلے گئیں تھی۔ نم ناک آنکھوں سے بتایا وہاں سے چلے جانے کے بعد بہت دھکے کھاے۔ پھر ایک صاحب ثروت خدا ترس کے ہاں اس کی معذور بیوی اور بچے کی دیکھ بھال کی نوکری اور رہائش مل گئ۔ میں نے پورے دل سے ایمانداری سے نیک نیتی سے ان کی دیکھ بھال کی ہر طرح سے گھر خیال رکھا۔بچوں کو پڑھانا میرا خواب ہے ان سب حالات اور میرے جنون اور شوق کے دیکھتے ہوے میرے بچوں کی پڑھائ کی ذمہ داری لے لی۔ ان کو اچھے سکول میں پڑھوایا۔میرے بچوں نے بھی مجھے مایوس نہ کیا اور دل و جان سے پڑھائی کی ہسپتال کا سب سے بڑا ڈاکٹر میرا بیٹا ہے۔ یہ وہی ڈاکٹر تھا جو کل مجھے چیک کر کے گیا تھا ۔ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے ڈاکٹر صاحب آ گے اور آتے ہی صغرائ سے ملا اور اس کے ھاتھ چومے۔جو صغرائ کی عالی تربیت کا ثبوت ہے۔ صغرائ نے جب میرا بتایا تو وہ بولا صاحب جی کو میں نے کل ہی پہچان لیا تھا ۔میں انھیں کسی مناسب وقت پر اپنے متعلق بتانا چاھتا تھا۔
اگلے دن اخبار میں خبر پڑھی میرے دونوں بیٹے طلال اور بلال نااھلی اور کرپشن کی وجہ سے پکڑے گئے ہیں۔ خبر پڑھ کر بہت رویا انکوائری بڑھی تو جمال بھی نااھلی بھرتی پر نوکری سے فارغ ہو گیا ۔ اللہ سے ایک ہی دعا کرتا رہا اللہ مجھے پردہ دے دے مجھ میں غم اٹھانے کی مذید ہمت نہیں۔ ایک رات ایسا سویا کے ہمیشہ کے لیے نہ جاگ سکا۔
جتنی میرے گھر خوشحالی تھی اس سے کہیں زیادہ صغرائی کے گھر بدحالی تھی۔پر اتنی بدحالی میں بھی اپنے پانچ بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا تھا۔ اور باقاعدگی سے سکول بھیجتی تھی۔
(جاری ہے)
چھوٹی بچی جو ڈھائی تین سال کی تھی اپنے ساتھ کام پر لے جاتی۔ ایک دو مرتبہ اس نے ٹی وی لاونج میں پیشاپ کر دیا جس پر میری بیوی نے سختی سے نوٹس لیا۔
پہلی اور آخری وارننگ دیتے ہوے کہا اسے آیندہ میرے گھر مت لانا سو وہ چھوٹی بچی کو جھگی میں بند کر کے آتیمیرے تین بیٹے طلال بلال اور جمال ہیں ۔جو میرا غرور ہیں۔ جن کو میں نے شہزادوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ ان کے منہ سے نکلی ہر جائز و نا جائز خواہش فوری پوری ہوتی۔سہل پسند بھی اتنے ہو گے کہ گھر کی ڈور بیل بجنے پر ایک دوسرے کا منہ تکتے کے کوئی دروازہ کھول آے۔ان کی سہل پسندی دیکھتے ہوے گامے کو سکول سے آنے کے بعد گھر میں سودا سلف لانے کے لیے ملازم رکھ لیا جو رات گے تک گھر کی اور بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے مارکیٹ جاتا ۔
صغرائ نے دوچار مرتبہ کہا کہ میں اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر افسر بناوں گی۔ تو میں نے اسے کہا کہ تم نے اپنے بچوں کو پڑھا کر کیا کرنا ہے انھوں نے کون سا پڑھ لکھ کر آفسر لگ جانا ہے۔ تم جیسوں کے بچوں نے کرنی تو مزدوریاں ہی ہیں ایسے ہی ان کا اور اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔کھبی تمہارے جیسے لوگوں نے بھی ترقی کی ہے۔ ان کو کسی کام پر ڈالو تا کہ تمہارا بوجھ بھی کم ہو۔میری بات سن کر بجھ سی گئی۔
گھر میں اچھے سے اچھا کھانا پکنے کے باوجود روزانہ تینوں اپنی اپنی پسند کا کھانا گامے سے باہر سے منگواتے۔اور ضائع بھی بہت کرتے۔ وہی ضائع شدہ جھوٹا کھانا اپنی فراخدلی سمجھتے ہوے گامے اور اس کے گھر والوں کو دے دیتے۔ تینوں بچے زرا زرا سی بات پر گامے کو ڈانٹتے اور مارتے تھے۔ مارنے کے باوجود گامے کی شکایت صغرائی سے بھی کرتے جو انتہائی سفاکی سے اسی وقت گامے کی مرمت شروع کر دیتی۔ گامے کو جب مار پڑ رہی ہوتی تو گامے کی اچھل کود اور بے ہنگم آوازیں دیکھنے سننے والی ہوتی۔ جس سے میرے بچے اور میں بھی بہت محظوظ ہوتا۔
برسات کا موسم تھا۔ شہر میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ جس کی لپیٹ میں میرا بڑا بیٹا طلال بھی آ گیا۔ڈاکٹر پر جانے سے پہلے موشن اور قے رک نہیں رہے تھے ۔کیا بستر کیا فرش غرض گھر میں ہر جگہ گندگی کر دی جسے بڑی خندہ پیشانی اور فراخدلی سے صغرائی اور گاما صاف کرتے رہے۔ دو چار دن میں نہایت اچھے علاج سے طلال صحت مند ہو گیا۔
رات کے پچھلے پہر بہت تیز ڈور بیل بجی جیسے انگلی دبا کر ہٹانا بھول گیا ہو۔ میں اور میری بیگم ہر بھرا کے اٹھے اور مین گیٹ کے دروازے پر نہایت بےزارگی سے پوچھا کون ہے۔ تو صغرائی کی گھبرائی ہوئی آواذ میں بولی صاحب جی جلدی سے دروازہ کھولیں۔ میں نے چھوٹا گیٹ کھولا تو بیگم نے جھڑکتے ہوے پوچھا کیا بات ہے صبر نہیں ہے تم میں یہ کوئی بیل دینے کا طریقہ ہے۔ آگے سے صغرائی روندھی ہوئی آواز میں بولی میرے گامے کی حالت بہت خراب ہے الٹیاں اور دست کر کر کے بے سودھ ہو گیا ہے بلکل ہوش نہیں کر رہا ۔خدا کے لیے اسے اپنی گاڑی میں ہسپتال لے جائیں۔ ہوا کا بھبکا چلا پاس کھڑی صغرائی سے شدید ناقابل برداشت قے اور موشن کی بدبو آئی ۔میری بیگم نے ناک پر ھاتھ رکھتے ہوے صغرائی سے ہماری نئی گاڑی ہے گاما گندگی کر دے گا تو گاڑی گندی ہو جاے گی۔ تم محلے میں کسی اور کو کہو۔ تو وہ بولی شیخ صاحب اور ملک صاحب کے گھر گی پر وہ دونوں نہیں ملے۔ اللہ کے واسطے آپ گامے کو ہسپتال لے چلیں۔ میں نے صغرائی سے کہا رات کے اس وقت ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں ہوتے صبح ہوتے ہی میرے سے رکشہ کا کرایہ لینا اور ڈاکٹر پر چلی جانا۔ صغرائی روندھی آواز میں بولی پر گامے کی حالت ۔صغرائی کا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے جھارتے ہوے بولا تمہیں ایک دفعہ کہہ دیا ہے میری نئی گاڑی گندی بدبودار ہو جاے گی۔ صبح ہسپتال لے جانا اور گامے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس کو وقفے وقفے سے پانی میں نمک گھول کر پلاتی رہو۔ یہ کہہ کر دروازہ بند کر کہ اندر آ گیا۔
دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو ساتھ والے پلاٹ پر محلے کے چند بزرگ اور نوجوان نظر آے۔ انہوں نے اشارے سے مجھے بلایا ۔میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس گیا تو پتہ چلا گاما مر گیا ہے اب اس کے کفن دفن کے انتظام کے لیے چندہ اکٹھا کر کے صغرائی کو دینا ہے۔ صغرائی ایک چارپائی کے پاس بیھٹی ہوئی تھی جس میں گاما ابدی نیند سو رہا تھا ۔میں پاس گیا تو اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے ایسے دیکھاکہ پتہ نہیں کیا بات تھی میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پایا۔ دوسری طرف نظریں کرتے ہوے کہا خدا کو یہی منظور تھا گامے کی اتنی ہی زندگی تھی ۔جیب سے چند نوٹ نکال کر صغرایٰ کے ھاتھ میں رکھے۔ اور دفتر کے لیے نکل گیا آج میری بہت ضروری میٹنگز تھیں۔
دو چار دن بعد پتہ چلا کہ صغرائی اپنے بچوں سمیت جھگی چھوڑ کر کہیں چلے گی۔ یہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بوجھ میرے اوپر سے ہٹ گیا ہے۔
شب و روز ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں مہینے سالوں میں بدل گے۔ایسا لگتا تھا وقت نے بہت تیز سفر کیا یے۔دوران ملازمت ہر جائز و ناجائز زرائع سے پیسہ اور جائیدادیں بنائی۔ پر تینوں بچے انتہائی نالائق نکلے پڑھائی کا تو زرا سا بھی شوق نہیں تھا۔ بس ایک ہی کام تھا آپس میں ہر وقت لڑتے رہنا۔ اپنے تعلقات اور پیسوں کے دم پر پڑھا لکھا کر اچھے عہدوں پر سفارش اور بھاری رشوت دے کر تقرریاں کروائی ۔
کچھ عرصے بعد دونوں بڑے بیٹوں طلال اور بلال نے اپنی اپنی پسند کی شادی کر لی ۔شادی کے پندرہ دنوں بعد ہی دونوں نے علحیدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کا اثر ان کی ماں نے بہت زیادہ لیا۔ ایک جان لیوہ دل کا دورہ پڑا اور میری تیس سالہ رفاقت چھوڑ کر اگلے جہاں چلے گئی۔ میں اپنے آپ کو بلکل ہی تنہا محسوس کرنے لگا۔ سوچا تیسرے بیٹے جمال کی شادی کر دوں تو گھر میں رونق ہو جاے گی۔ بڑے دونوں کو میں ہی فون کروں تو کروں وہ خود تو جیسے بھول ہی گے تھے میں ان کا باپ ہوں۔ تیسرے کی بڑی دھوم دھام سے شادی کی ۔شادی کے کچھ دن بعد ہی تیسری بہو کی زبان درازی سے اندازہ ہو گیا کہ مجھے سخت ناپسند کرتی ہے۔
ایک بھیانک دن میں شاپنگ کر کے گھر واپس جا رہا تھا کہ سامنے سے آتے تیز رفتار بے قابو ٹرک میری گاڑی میں آ کر لگا۔ جس کے نتیجے جان تو بچ گئی پر ہمیشہ کے لیے معذور ہو گیا۔ اپنے جسم پر میرا کنٹرول ختم ہو گیا۔ ایک بازو ہر وقت ایسے ہلتا رہتا جیسے ابھی کس کو مارنے لگا ہوں۔کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا جو کھاتا کچھ دیر بعد الٹی کر دیتا ۔باتھ روم ٹائلٹ تک نہیں جا سکتا تھا۔چھوٹے بڑے پیشاپ کے لیے پیمپر لگانا پڑتا۔ اس کام کے لیے کئی ملازم رکھے جو ایک دو دن میں ہی میرے جسم سے آنے والی بدبو سے بھاگ جاتے۔ان حالات میں چھوٹا بیٹا جمال بھی مجھ سے کترانے لگا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بولا گھر میں آپ کے لیے کوئی ملزم آپ سے آنے والی بدبو کی وجہ سے نہیں ٹکتا۔اب تو بدبو پورے گھر میں پھیل گئی ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے آپ کو ہسپتال داخل کرا دوں۔ وہاں آپ کی دیکھ بھال بھی ہو گی اور علاج بھی۔ ایک ہسپتال کا پتہ کیا ہے وہ آپ جیسے مریضوں کے لیے ہے۔ میں تو آ گے ہی ان کے رحم وکرم پر تھا کیا بحث کرتا۔ میں نے کہا جو تم کو مناسب لگے ویسا کرو۔ اگلے دن جمال صبح صبح ہی آ گیا کہ ہسپتال میں آپ کے داخلے کا انتظام ہو گیا ہے آپ کو ابھی جانا ہے۔ میں نے کہا میں تیار ہوں گاڑی میں میری ضرورت کی چیزیں رکھ لو اور ساتھ کس کو لگا کر اپنی گاڑی میں مجھے بیٹھا دو۔ جمال فورا بالا نہیں بابا آپ میری گاڑی میں نہیں ایمبولنس میں جائیں گے آپ کو تو پتہ ہی ہے میں نے کچھ دن پہلے نئی گاڑی لی ہے۔ آپ کو وقت بے وقت قے اور موشن آ جاتا ہے۔ جس سے نئی گاڑی میں بدبو پڑ جاے گی۔ یہ سنتے ہی میں سناٹے میں آ گیا برسوں پہلے کہے ہوے الفاظ آج مجھے سود کے ساتھ مل گے۔ سچ کہتے ہیں غرور کا سر ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔ تینوں بیٹوں پر ساری عمر بڑا غرور کیا۔ آج میں اسی غرور کے نیچے آ گیا۔ اتنی چوٹیں شائد ٹرک کی ٹکر سے نہیں آئیں جتنی آج میرا بھرم میرا غرور ٹوٹنے پر آئیں۔
ایمبولنس اپنے مقررہ رستوں سے ہوتی ہوی ہسپتال پہنچی۔مین گیٹ پر ہی غلام رسول میموریل ٹرسٹ ہسپتال جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ۔میں نے جمال سے کہا تم مجھے خیراتی ہسپتال میں لے آے ہو تو وہ بڑی بےزاری سے بولا تو اور کہاں لے کر آتا۔ پرائیویٹ علاج تو میں اکیلا افورڈ نہیں کر سکتا بڑے بھائیوں نے آج تک آپ کے علاج کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی۔ہسپتال کی وارڈ میں مجھے داخل کر دیا۔ جمال کچھ دیر ٹھیر کر چلا گیا۔وارڈ کا معیار کسی بھی مہنگے ہسپتال کی وارڈ سے کم نہ تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے دیکھنے اسپیشلسٹ ڈاکٹر آ گیا۔ جس نے بہت اچھی طرح میرا چیک اپ کیا۔ اور بتایا کہ آپ کا ابھی تک کسی نے علاج ہی نہیں کروایا ۔آج سے آپ کا علاج شروع ہو گیا ہے ۔بہت بہتر ہو جائیں گے۔
اگلے دن وارڈ میں ایک عورت آئ جو پوری وارڈ کی اور مریضوں کی صفائی چیک کر رہی تھی ۔جب میرے بیڈ پر آئ تو کچھ لمحے مجھے بغور دیکھنے کے بعد بولی صاحب جی آپ ادھر۔ میں اسے نہیں پہچان سکا تو اس نے میری الجھن بھانپتے ہوے بولی صاحب جی میں صغرائ آپ کی پرانی ملازمہ۔تو میں فورا" پہچان گیا اور کہا صغرائ تم ادھر ملازمت کرتی ہو۔ تو وہ بڑی رعونت سے بولی نہیں ملازمت نہیں کرتی یہ میرے بیٹے کا ہسپتال جو گامے کے نام سے بےسہارہ نادار لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ میں یہاں صفائ کی انچارج ہوں۔میرے پر تو حیرتوں اور ندامتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تربیت کا فرق واضع نظر آنے لگا۔ آج مجھے پتہ چلا گامے کا اصل نام غلام رسول تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گے اور گھٹی ہوئ آواز میں بولا صغرائ مجھے معاف کر دو اگر میں گامے کو بروقت ڈاکٹر پر لے جاتا تو شائد گاما نہ مرتا اور مجھے اتنی سزا نہ ملتی۔ صاحب جی مجھے آپ سے کوئ گلہ نہیں ہے آپ آج بھی میرے صاحب ہیں میں آپ کی نوکرانی۔گاما مر کے بھی زندہ ہو گیا ہے۔ اب کی بار تو میں ہچکیوں سے رویا۔ صغرائ نے مجھے بہت مشکل سے چپ کروایا۔ بچوں کا پوچھا تو میں نے اپنے ساتھ ہونے والا سلوک بتایا۔ میں نے صغرائ سے پوچھا تم بغیر ملے بتاے کہاں چلے گئیں تھی۔ نم ناک آنکھوں سے بتایا وہاں سے چلے جانے کے بعد بہت دھکے کھاے۔ پھر ایک صاحب ثروت خدا ترس کے ہاں اس کی معذور بیوی اور بچے کی دیکھ بھال کی نوکری اور رہائش مل گئ۔ میں نے پورے دل سے ایمانداری سے نیک نیتی سے ان کی دیکھ بھال کی ہر طرح سے گھر خیال رکھا۔بچوں کو پڑھانا میرا خواب ہے ان سب حالات اور میرے جنون اور شوق کے دیکھتے ہوے میرے بچوں کی پڑھائ کی ذمہ داری لے لی۔ ان کو اچھے سکول میں پڑھوایا۔میرے بچوں نے بھی مجھے مایوس نہ کیا اور دل و جان سے پڑھائی کی ہسپتال کا سب سے بڑا ڈاکٹر میرا بیٹا ہے۔ یہ وہی ڈاکٹر تھا جو کل مجھے چیک کر کے گیا تھا ۔ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے ڈاکٹر صاحب آ گے اور آتے ہی صغرائ سے ملا اور اس کے ھاتھ چومے۔جو صغرائ کی عالی تربیت کا ثبوت ہے۔ صغرائ نے جب میرا بتایا تو وہ بولا صاحب جی کو میں نے کل ہی پہچان لیا تھا ۔میں انھیں کسی مناسب وقت پر اپنے متعلق بتانا چاھتا تھا۔
اگلے دن اخبار میں خبر پڑھی میرے دونوں بیٹے طلال اور بلال نااھلی اور کرپشن کی وجہ سے پکڑے گئے ہیں۔ خبر پڑھ کر بہت رویا انکوائری بڑھی تو جمال بھی نااھلی بھرتی پر نوکری سے فارغ ہو گیا ۔ اللہ سے ایک ہی دعا کرتا رہا اللہ مجھے پردہ دے دے مجھ میں غم اٹھانے کی مذید ہمت نہیں۔ ایک رات ایسا سویا کے ہمیشہ کے لیے نہ جاگ سکا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.