
یااللّٰہ چھین لے کنٹینر میرا
جمعرات 21 نومبر 2019

ریحان محمد
"ھمارے ایک ٹیچر مشتاق نامی لڑکے سے بہت بیزار تھے..مشتاق کا کمال یہ تھا کہ اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہتے وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے " میرا بہترین دوست" ضرور فٹ کردیتا تھا جو اسے فر فر یاد تھا۔
مثال کے طور پے اسے کہا جاتا کے ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لئے ریلوے سٹیشن گئے وھاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاھد بیٹھا تھا- زاھد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی ھیں اس کا باپ محکمہ پولیس میں آفیسر ھے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ھے -اگر اسے "میرا استاد" مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ھیں ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وھاں میرا بہترین دوست زاھد بیٹھا تھا- زاھد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی ھیں اس کا باپ محکمہ پولیس میں آفیسر ھے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ھے -
ظاہر ھے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وھاں بھی زاہد حسین موجود ھوتا ھے- تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کے دیکھو یہ تو ھو نہیں سکتا کے ھر جگہ تمہارا دوست زاہد حسین موجود ھو۔
آج تم ھوائی جہاز پر مضون لکھو اور یاد رکھو ھوائی جہاز میں زاہد حسین موجود نہیں ھونا چاھیئے۔
دوسرے دن مشتاق نے مضون لکھا وہ اس طرح تھا-میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئر پورٹ گیا وہاں جہاز کھڑا تھا، ھم اس میں بیٹھ گئے - جہاز میں زاھد حسین نہیں تھا - پھر جہاز اڑنے لگا میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاھد جارھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی"... . . . . . . . .
(نوٹ مندجہ بالا عبارت مشہور ادیب مُستنصر حسین تارڑ کے مضمون سے نقل ہے )
دیکھا جاے تو عمران خان اور مشتاق میں گہری مماثلت پای جاتی ہے۔خان صاحب کسی بھی افتتاح ،کسی تعلیمی ادارے کے فنکشن میں ،سی پیک سے متعلق تقریب ہو،کوی قومی دن ہو،ہمارا یا غیر مسلم کا مزہبی تہوار ہو۔اندرون ملک بیرون ملک جلسے سے خطاب ہو۔یعنی ہر موقع پر مشتاق کی طرح اپنی تقریر میں کہیں نہ کہیں کنٹینر والی تقریر فٹ کر دیتے ہیں۔اور برسوں پرانے اپنے عزم کو بھرپور جوش و جزبے سے دھرائیں گے۔کہ میں تمام چور ڈاکووں کو نہیں چھوڑوں گا۔لوٹی ہوی رقم کا ایک ایک پیسہ نکلواوں گا۔کسی کو کسی صورت NRO نہیں دوں گا۔۔۔۔یہ سب وہ بیانات تقریریں ہیں جو پچھلے پانچ سالوں سیے تواتر سے کر ریے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے عوام کی اکثریت کو بھی یہ تقریر یاد ہو گی ہے اور اس سے بےزار بھی ہو گے ہیں۔سوشل میڈیا پر اکثر ان کی تقریر کے لب و لہجے کی نقل کے کلپ موجود ہیں۔کینٹینر والی تقریر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگاییں کہ اپنی وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر قومی اسمبلی میں جو تقریرکی وہ بھی کینٹینر والی تقریر کی۔
اٹھارہ نومبر کو ہزارہ موٹروے کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کیا۔یاد رہے ہزارہ موٹر وے کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انتیس نومبر 2014 کو رکھا تھا.عمران خان دو دن کی چھٹی اپنے اہلخانہ کہ ساتھ گذار کے آے تھے ۔امید یہی تھی خان صاحب خوشگوار موڈ میں آ کر افتتاح کریں گے۔اور آج کچھ نیا سننے کو ملے گا۔لیکن اس دن موڈ مار دھاڑ سے بھر پور اننگز کھیلنے میدان میں اترے لہجہ میں بہت تلخی تھی۔ہزارہ موٹر وے منصوبے پر تنقید کی۔ملکی معاشی استحکام کا زکر کیا۔اپنی معاشی ٹیم کی تعریف کی ۔پھر یک دم تند و تیز لہجہ میں وہی کینٹینر والی تقریر شروع کر دی۔اپوزیشن کی ہر پارٹی کو انتہای جارحانہ لہجے میں ایک بار پھر کرپشن پہ ناصرف خبردار کیا بلکہ ان کے لب و لہجہ کی نقل کی اور ان کے بیانات کا مذاق بھی اڑایا۔
خان صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کی نقل اتاری اور کہا کہ بلاول بھٹو نے جو بارش کے متعلق بیان دیا کہ "بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے "اس تھیوری پر دنیا کے سارے سائنس دان گھبراے ہوے ہیں۔اگر آج دنیا کا سب سے بڑا آئین سٹائن بھی ہوتا تو وہ بھی سر پکر کر بیٹھ جاتا۔
خان صاحب نے اپنی توپوں کا رخ مولانا فضل الرحمان کی طرف موڑا اور پوری توانای کے ساتھ مولانا کے ماضی کو حقارت سے بیان کیا ۔مولانا نے میڈیا سرکس کینٹینر پر لگای ہوی ہے۔مذید تنقید کی کہ مولانا کو ایک وزارت دے دو یا کشمیر کمیٹی کی چیرمین شپ دے دو تو اپنی مرضی کا فتوی دلوا لو مذید کہا کہ مولانا کی قیمت ایک ڈیزل پرمٹ یے ۔ میں دن رات مولانا کی آخرت کی دعا کرتا ہوں۔
اسی شعلہ بیانی کو جاری رکھتے ہوے شہباز شریف بارے کہا کہ وہ مولانا کے کینٹینر پر ایسے منہ بنا کر کھڑے تھے جیسے نیلسن منڈیلا ہوں اور شہباز شریف کو ڈرامہ باز اور بالی ووڈ ایکٹر کہا۔
یاد ماضی عذاب سے کم نہیں ۔تھوڑا سا ماضی قریب میں جائیں تو عمران خان نے بلاول کے بیان سے بڑا جو انکشاف کیا کہ جاپان اور جرمنی کی ایک سرحد ہے ۔سارا جغرافیہ ہی لپیٹ دیا۔پھر معیشت کی بحالی کے لیے مرغیاں کٹے بکرے پالنے کی تجویز پر جگ ہنسائ کا سبب بنی۔شعر کو غلط شاعر سے منسوب کر کے مذاق اور تنقید کا نشانہ بنے۔سب سے بڑھ کر القاعدہ کی تربیت کا اعتراف کر کے انڈیا کو الزام تراشی کا موقع دیا۔
ان تقاریر میں قابل غور بات یہ ہے یہ سارے حکامات کرپشن کی داستانیں الزامات دھونس دھمکیاں سب اپوزیشن جماعتوں کے لیے ہیں۔ جو ان کے ادرگرد کھڑے ہیں ۔جو ان کی ناک تلے کرپشن کر رہے ہیں۔جو بےقاعدگیاں ہو رہی ہیں وہ سب کرپشن کی پکڑ سے منبرا ہیں ۔ان پر کوی ھاتھ نہیں ڈال سکتا۔
وزیراعظم عمران خان کی کینٹینر والی تقریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب پکڑ دھکڑ آپ ہی نے کرنی ہے ۔قانون بھی آپ ،عدالت بھی آپ۔سب فیصلے آپ نےکرنے ہیں تو ۔ملک کے قانون و انصاف کے ادارے ،ختم کر دینے چاہیے ۔خواہ مخواہ ملک و قوم کا پیسہ ان اداروں پر خرچ ہو رہا ہے۔ججوں نیب کے افسروں کو بھاری تنخواہوں مرعات سے نواز کر ضائع کر رہے ہے۔
خان صاحب اپنی ہر تقریر میں باقاعدگی سے ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کرتے ہیں پر ابھی تک اس کی کوی سمت بھی نظر نہیں آی۔ریاست مدینہ کے خدوخال وہاں کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوے احتساب سب سے پہلے عمران خان کا اور پارٹی ارکان کا ہونا چاہے خان صاحب پر ہیلی کاپٹر کیس ,پارٹی فنڈنگ کا کیس ہے جس پر کوی کاروای نہیں ہوی۔اسی طرح پرویز خٹک پر نیب میں کرپشن کا کیس ہے۔اعظم سواتی ،جہانگیر ترین ،خسرو بختیار ،علیم خان ،بابر اعوان اور ان کے اتحادیوں پر بدعنوانی کے کیس ہیں پر ان کی کوی پوچھ گھچ نہیں کوی کاروای نہیں۔جو ریاست مدینہ کے نظام سے متصادم ہیں۔یا پھر دوسری بات یہ ہو سکتی ہے ریاست مدینہ کے قوانین صرف اپوزیشن کے لیے ہوں۔اپنے اور پارٹی ارکان سپورٹر کے لیے نہ ہوں۔
موجودہ حالات میں عمران خان کی حکومت کو نہ مولانا کے دھرنے سے خطرہ ہے۔نہ ن لیگ نہ پی پی پی سے نہ دیگر اپوزیشن جماعتوں سے ۔خان صاحب بذات خود اپنی حکومت کے لیے خطرہ ہیں۔اس وقت وہ محازارای کی سیاست کر رہے ہیں۔خان صاحب کی بہت سی باتیں کسی خود کش حملہ آور سے کم نہیں۔یہی حال ان کی کابینہ کے وزرا مشیروں کا ہے۔ہر وقت ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر بیانات اور بیانات رزلٹ صفر۔وزرا مشیروں کی کارکردگی کا اس سے اندازہ لگاییں کے مارکیٹ میں تین سو روپے کلو بکنے والا ٹماٹر مشیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب میڈیا میں آ کر سترہ روپے کلو قیمت بتای۔اور مشیر اطلاعات فردوس عاشق عوان نے سو روپے کلو بکنے والے مٹر کی قیمت پانچ روپے کلو بتای۔کچھ عرصہ پہلے فواد چوہدری کا بیان ہیلی کاپٹر کا خرچ 55 روپے فی کلو میٹر ہے۔ اسی سے حکومتی اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حکومت کو اپنی کارکردگی کے بارے سوچنا ہو گا۔سنحیدگی سے حکومتی کاروبار کو چلانا ہو گا۔ وزرا مشیر بمشول وزیر اعظم سب کو اپنی بیان بازی سے زیادہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں ۔ جیسی حکومتی پرفارمنس ہو گی ویسی ہی اپوزیشن کی زبان ہو گی۔اپوزیشن ہمیشہ فائدہ حکومتی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اٹھاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے زیادہ سے زیادہ عوام کی بھلای کے لیے کام کریں ۔ کیونکہ کارکردگی ہمیشہ بولتی ہے ۔یہ سب تبھی ممکن ہے خان صاحب کو کینٹینر والی تقریر سے باہر نکلنا ہو گا۔اس کے لیے یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ
مثال کے طور پے اسے کہا جاتا کے ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لئے ریلوے سٹیشن گئے وھاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاھد بیٹھا تھا- زاھد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی ھیں اس کا باپ محکمہ پولیس میں آفیسر ھے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ھے -اگر اسے "میرا استاد" مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ھیں ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وھاں میرا بہترین دوست زاھد بیٹھا تھا- زاھد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی ھیں اس کا باپ محکمہ پولیس میں آفیسر ھے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ھے -
ظاہر ھے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وھاں بھی زاہد حسین موجود ھوتا ھے- تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کے دیکھو یہ تو ھو نہیں سکتا کے ھر جگہ تمہارا دوست زاہد حسین موجود ھو۔
(جاری ہے)
دوسرے دن مشتاق نے مضون لکھا وہ اس طرح تھا-میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئر پورٹ گیا وہاں جہاز کھڑا تھا، ھم اس میں بیٹھ گئے - جہاز میں زاھد حسین نہیں تھا - پھر جہاز اڑنے لگا میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاھد جارھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ھے اس کے تین بہن بھائی"... . . . . . . . .
(نوٹ مندجہ بالا عبارت مشہور ادیب مُستنصر حسین تارڑ کے مضمون سے نقل ہے )
دیکھا جاے تو عمران خان اور مشتاق میں گہری مماثلت پای جاتی ہے۔خان صاحب کسی بھی افتتاح ،کسی تعلیمی ادارے کے فنکشن میں ،سی پیک سے متعلق تقریب ہو،کوی قومی دن ہو،ہمارا یا غیر مسلم کا مزہبی تہوار ہو۔اندرون ملک بیرون ملک جلسے سے خطاب ہو۔یعنی ہر موقع پر مشتاق کی طرح اپنی تقریر میں کہیں نہ کہیں کنٹینر والی تقریر فٹ کر دیتے ہیں۔اور برسوں پرانے اپنے عزم کو بھرپور جوش و جزبے سے دھرائیں گے۔کہ میں تمام چور ڈاکووں کو نہیں چھوڑوں گا۔لوٹی ہوی رقم کا ایک ایک پیسہ نکلواوں گا۔کسی کو کسی صورت NRO نہیں دوں گا۔۔۔۔یہ سب وہ بیانات تقریریں ہیں جو پچھلے پانچ سالوں سیے تواتر سے کر ریے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے عوام کی اکثریت کو بھی یہ تقریر یاد ہو گی ہے اور اس سے بےزار بھی ہو گے ہیں۔سوشل میڈیا پر اکثر ان کی تقریر کے لب و لہجے کی نقل کے کلپ موجود ہیں۔کینٹینر والی تقریر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگاییں کہ اپنی وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر قومی اسمبلی میں جو تقریرکی وہ بھی کینٹینر والی تقریر کی۔
اٹھارہ نومبر کو ہزارہ موٹروے کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کیا۔یاد رہے ہزارہ موٹر وے کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انتیس نومبر 2014 کو رکھا تھا.عمران خان دو دن کی چھٹی اپنے اہلخانہ کہ ساتھ گذار کے آے تھے ۔امید یہی تھی خان صاحب خوشگوار موڈ میں آ کر افتتاح کریں گے۔اور آج کچھ نیا سننے کو ملے گا۔لیکن اس دن موڈ مار دھاڑ سے بھر پور اننگز کھیلنے میدان میں اترے لہجہ میں بہت تلخی تھی۔ہزارہ موٹر وے منصوبے پر تنقید کی۔ملکی معاشی استحکام کا زکر کیا۔اپنی معاشی ٹیم کی تعریف کی ۔پھر یک دم تند و تیز لہجہ میں وہی کینٹینر والی تقریر شروع کر دی۔اپوزیشن کی ہر پارٹی کو انتہای جارحانہ لہجے میں ایک بار پھر کرپشن پہ ناصرف خبردار کیا بلکہ ان کے لب و لہجہ کی نقل کی اور ان کے بیانات کا مذاق بھی اڑایا۔
خان صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کی نقل اتاری اور کہا کہ بلاول بھٹو نے جو بارش کے متعلق بیان دیا کہ "بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے "اس تھیوری پر دنیا کے سارے سائنس دان گھبراے ہوے ہیں۔اگر آج دنیا کا سب سے بڑا آئین سٹائن بھی ہوتا تو وہ بھی سر پکر کر بیٹھ جاتا۔
خان صاحب نے اپنی توپوں کا رخ مولانا فضل الرحمان کی طرف موڑا اور پوری توانای کے ساتھ مولانا کے ماضی کو حقارت سے بیان کیا ۔مولانا نے میڈیا سرکس کینٹینر پر لگای ہوی ہے۔مذید تنقید کی کہ مولانا کو ایک وزارت دے دو یا کشمیر کمیٹی کی چیرمین شپ دے دو تو اپنی مرضی کا فتوی دلوا لو مذید کہا کہ مولانا کی قیمت ایک ڈیزل پرمٹ یے ۔ میں دن رات مولانا کی آخرت کی دعا کرتا ہوں۔
اسی شعلہ بیانی کو جاری رکھتے ہوے شہباز شریف بارے کہا کہ وہ مولانا کے کینٹینر پر ایسے منہ بنا کر کھڑے تھے جیسے نیلسن منڈیلا ہوں اور شہباز شریف کو ڈرامہ باز اور بالی ووڈ ایکٹر کہا۔
یاد ماضی عذاب سے کم نہیں ۔تھوڑا سا ماضی قریب میں جائیں تو عمران خان نے بلاول کے بیان سے بڑا جو انکشاف کیا کہ جاپان اور جرمنی کی ایک سرحد ہے ۔سارا جغرافیہ ہی لپیٹ دیا۔پھر معیشت کی بحالی کے لیے مرغیاں کٹے بکرے پالنے کی تجویز پر جگ ہنسائ کا سبب بنی۔شعر کو غلط شاعر سے منسوب کر کے مذاق اور تنقید کا نشانہ بنے۔سب سے بڑھ کر القاعدہ کی تربیت کا اعتراف کر کے انڈیا کو الزام تراشی کا موقع دیا۔
ان تقاریر میں قابل غور بات یہ ہے یہ سارے حکامات کرپشن کی داستانیں الزامات دھونس دھمکیاں سب اپوزیشن جماعتوں کے لیے ہیں۔ جو ان کے ادرگرد کھڑے ہیں ۔جو ان کی ناک تلے کرپشن کر رہے ہیں۔جو بےقاعدگیاں ہو رہی ہیں وہ سب کرپشن کی پکڑ سے منبرا ہیں ۔ان پر کوی ھاتھ نہیں ڈال سکتا۔
وزیراعظم عمران خان کی کینٹینر والی تقریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب پکڑ دھکڑ آپ ہی نے کرنی ہے ۔قانون بھی آپ ،عدالت بھی آپ۔سب فیصلے آپ نےکرنے ہیں تو ۔ملک کے قانون و انصاف کے ادارے ،ختم کر دینے چاہیے ۔خواہ مخواہ ملک و قوم کا پیسہ ان اداروں پر خرچ ہو رہا ہے۔ججوں نیب کے افسروں کو بھاری تنخواہوں مرعات سے نواز کر ضائع کر رہے ہے۔
خان صاحب اپنی ہر تقریر میں باقاعدگی سے ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کرتے ہیں پر ابھی تک اس کی کوی سمت بھی نظر نہیں آی۔ریاست مدینہ کے خدوخال وہاں کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوے احتساب سب سے پہلے عمران خان کا اور پارٹی ارکان کا ہونا چاہے خان صاحب پر ہیلی کاپٹر کیس ,پارٹی فنڈنگ کا کیس ہے جس پر کوی کاروای نہیں ہوی۔اسی طرح پرویز خٹک پر نیب میں کرپشن کا کیس ہے۔اعظم سواتی ،جہانگیر ترین ،خسرو بختیار ،علیم خان ،بابر اعوان اور ان کے اتحادیوں پر بدعنوانی کے کیس ہیں پر ان کی کوی پوچھ گھچ نہیں کوی کاروای نہیں۔جو ریاست مدینہ کے نظام سے متصادم ہیں۔یا پھر دوسری بات یہ ہو سکتی ہے ریاست مدینہ کے قوانین صرف اپوزیشن کے لیے ہوں۔اپنے اور پارٹی ارکان سپورٹر کے لیے نہ ہوں۔
موجودہ حالات میں عمران خان کی حکومت کو نہ مولانا کے دھرنے سے خطرہ ہے۔نہ ن لیگ نہ پی پی پی سے نہ دیگر اپوزیشن جماعتوں سے ۔خان صاحب بذات خود اپنی حکومت کے لیے خطرہ ہیں۔اس وقت وہ محازارای کی سیاست کر رہے ہیں۔خان صاحب کی بہت سی باتیں کسی خود کش حملہ آور سے کم نہیں۔یہی حال ان کی کابینہ کے وزرا مشیروں کا ہے۔ہر وقت ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر بیانات اور بیانات رزلٹ صفر۔وزرا مشیروں کی کارکردگی کا اس سے اندازہ لگاییں کے مارکیٹ میں تین سو روپے کلو بکنے والا ٹماٹر مشیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب میڈیا میں آ کر سترہ روپے کلو قیمت بتای۔اور مشیر اطلاعات فردوس عاشق عوان نے سو روپے کلو بکنے والے مٹر کی قیمت پانچ روپے کلو بتای۔کچھ عرصہ پہلے فواد چوہدری کا بیان ہیلی کاپٹر کا خرچ 55 روپے فی کلو میٹر ہے۔ اسی سے حکومتی اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حکومت کو اپنی کارکردگی کے بارے سوچنا ہو گا۔سنحیدگی سے حکومتی کاروبار کو چلانا ہو گا۔ وزرا مشیر بمشول وزیر اعظم سب کو اپنی بیان بازی سے زیادہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں ۔ جیسی حکومتی پرفارمنس ہو گی ویسی ہی اپوزیشن کی زبان ہو گی۔اپوزیشن ہمیشہ فائدہ حکومتی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اٹھاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے زیادہ سے زیادہ عوام کی بھلای کے لیے کام کریں ۔ کیونکہ کارکردگی ہمیشہ بولتی ہے ۔یہ سب تبھی ممکن ہے خان صاحب کو کینٹینر والی تقریر سے باہر نکلنا ہو گا۔اس کے لیے یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ
" یااللّٰہ چھین لے کنٹینر میرا "
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.