حاصلِ زیست

جمعرات 2 جولائی 2020

Rehan Muhammad

ریحان محمد

فریج کو اچھی طرح چیک کرنا  کاریگر حفیظ کو زور دیتے ہوے کہا تو حفیظ آگے سے بولا آپ کو کتنے عرصے سے کہا رہا ہوں آپ کا فریج ختم ہو گیا ہے۔میں نے حفیظ کی بات اٙن سنی کرتے ہوے کہا رات تک اے ون چل رہا تھا آج صبح  ہی اسے کچھ ہوا ہے۔کوی چھوٹا موٹا نقص آیا ہے تم چیک تو کرو۔حفیظ  نہ چاہتے ہوے بھی چارو نا چار فریج چیک کرنے لگ گیا۔میری ظاہری و باطنی کفیت کسی معجزے کی منتظر تھی۔

یا لیبر روم کے باہر جو کفیت ہوتی ہے۔
حفیظ نے چیک کرنے کے بعد اپنے اوزاروں کو بیگ میں رکھتے ہوے اپنا حتمی فیصلہ سناتے کہا۔اس فریج پر پیسہ لگانے کا کوئ فاہدہ نہیں۔یہ بہت پرانا ماڈل ہے اس کا تو سامان بھی نہیں ملتا  بہتر یہی ہے آپ نیا فریج لیں۔حفیظ کی یہ بات سن کر سخت رنج ہوا۔

(جاری ہے)

دل خون کے آنسو رو رہا تھا میرا ساتھی گھر سے چلے جاے گا۔بےجان چیز ہوتے ہوے بھی اس فریج سے میری جزباتی وابستگی بہت گہری تھی۔

شائد فطرت" میں بےجان چیزوں سے پیار کرنے والا  ماضی پرست اور بخیل انسان ہوں۔کنجوسی اور تنگ دلی کوٹ کوٹ کر بھڑی ہوئ ہے۔
میرے اور فریج کی عمر میں چند برس کا ہی تو فرق تھا میں گنتی کے کچھ سال بڑا تھا۔میرا بچپن لڑکپن اس فریج کے ساتھ کھیلتے گزرا تھا۔پچھلے چند سالوں سے اس کی کارکردگی وہ نہیں رہی تھی اور اکثر طبعیت ناساز رہتی تھی۔فریج کی اس حالت کے زمہ دار کافی حد تک میرے گھر والے بھی تھے۔

فریج کے ساتھ ان کا سلوک سوتیلوں والا تھا خاص کر میری زوجہ محترمہ کو پہلے ہی دن سے ایک آنکھ نا بھایا تھا شادی کے پہلے دن ہی گھر کا تفصیلی جائزے کے بعد حکم نامہ جاری کیا۔اس اولڈ فیشن  فریج کو گھر سے باہر نکالو ۔میری منت سماجت کی وجہ سے آج تک میرے چہیتے فریج کو گھر کی چھت نصیب تھی۔لیکن وقتا فووقتا بیگم اپنا احتجاج جاری رکھتی۔بیماری کی صورت  میں کاریگر حفیظ نے لاتعداد سرجریاں کی تھی جن کی بدولت وہ دوبارہ کام کرنا شروع کر دیتا۔

اب کی بار گرمی آتے ہی بار بار علاج کی ضرورت پڑ رہی تھی اور اب ہر مرتبہ حفیظ ٹھیک کرتے ہوے یہی کہتا اسے ٹھیک کرانا چھوڑیں اور نیا فریج لیں۔پر اس دفعہ تو اس نے اپنے ہاتھ ہی کھڑے کر دیے۔حفیظ کے جاتے ہی بیگم نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوے کہا گرمی بہت زیادہ ہے اور فریج کے بغیر ایک سکینڈ گزارہ نہیں لہذا فریج ابھی اور اس وقت لینے جاو۔میں نے تھوڑا سا احتجاج کیا کہ بے حد گرمی ہے اور اس پے ستم کرونا وائرس بھی پورے شہرے میں عفریت کی طرح پھیلا ہوا ہے۔

ایک اصل وجہ یہ بھی تھی کہ فریج کی خریداری میں اچھے خاصے پیسے خرچ ہو جانے تھے جو مجھ جیسے کنجوس کے لیے کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں تھے۔لہذا بیگم کو ٹالنے کی کوشش کی کہ  ایک دو دن تک جاوں گا۔لیکن یہ کمزور سی کوشش اور احتجاج بے اثر رہا۔
گھر سے عابد مارکیٹ جانے کے لیے حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوے منہ پہ ماسک لگایا اور ہیلمنٹ پہنا۔

عابد مارکیٹ الیکٹرونکس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔بڑی بڑی دوکانیں الیکٹرونکس اشیاء سے بھڑی پڑی ہیں۔چلچلاتی دھوپ میں عابد مارکیٹ پہنچا۔پارکنگ میں موٹر سائکل کھڑی کی۔ہیلمنٹ اتارتے ہوے ماسک بھی منہ سے اتر کر نیچے کچڑے میں گر گیا۔
ماسک لگائے بغیر ایک بڑی الیکٹرونکس کی دوکان پر گیا تو چوکیدار نے نہایت برق رقتاری سے مجھے اندر جانے سے روک دیا اور بولا ماسک لگا لیں اس کے بغیر اندر جانا منع ہے۔

میں نے اگلی دوکان کا رخ کیا تو اس کے چوکیدار نے بھی کہا کہ بغیر ماسک اندر نہیں جا سکتے۔میں بغیر ماسک کے اندر جانا چا رہا تھا  پر یہی سلوک کم و بیش ہر دوکان کے چوکیدار نے کیا۔مجھے ایس او پیز ہر عمل درامد  اچھا بھی لگا اور برا بھی لگا۔ ایک چوکیدار سے اتنی سختی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کل  تقریبا ہر دوکاندار کو ایس اوپیز پر عمل درآمد نہ کرنے پر بھاری جرمانہ ہوا ہے۔

یہ سن کر بے اختیار خیال آیا یہ  سارے دوکاندار ایس او پیز پر عمل قانون کے احترام میں نہیں بھاری جرمانے کے خوف سے کر رہے ہیں۔
دوکان میں داخلے کے لیے ماسک ضروری تھا اس لیے ماسک خریدنے چل پڑا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بزرگ بابا کسی بند دوکان کے تھڑے پر  چند چپس ، بسکٹ کے پیکٹ اور ماسک لگائے اتنی شدید گرمی میں بغیر پنکھے کے بیٹھے ہوئے تھے۔

اور یہی اس کی کل جمع پونجی لگ رہی تھی۔  سلام کرنے کے بعد بابا سے کہا  میرے پاس بڑا نوٹ ہے اگر چینج ہے تو ایک ماسک دے دو۔بابا مجھے ماسک دیتے ہوے بولا آپ ماسک لے جاییں اگر پیسے کھلے ہو گے تو دے دینا اور نا ہوے تو مت دینا کوئ بات نہیں۔ میں نے تزب بزب کے عالم میں بابے کی طرف دیکھا اور ماسک لے لیا۔اور ایک نظر تھڑے پر پڑے ہوے بابے کے سامان کی طرف ڈالی جس کی مالیت ہزاروں میں نہیں گنتی کے چند سو روپے ہو گی۔

اس حساب سے ماسک بابا کا بہت بڑا سرمایہ تھا۔ ماسک پہن کر ایک بار پھر اپنے ادھورے مشن کی طرف گامزن ہوا۔ چند دوکانوں کے وزٹ کے بعد ایک دوکان سے مناسب قیمت میں ہوم ڈیلیوری کے ساتھ فریج کا سودا بن گیا ۔پیسے ادا کرنے کے بعد ایک بار پھر میں بابا کے پاس گیا اور ماسک کے پیسے  انتہائ شکریے کے ساتھ ادا کیے اور پوچھا کہ اگر میں پیسے دیے بغیر چلا جاتا تو آپ کا تو بہت نقصان ہو جاتا۔

میری یہ بات سن کر بابا مسکرایا اور بولا میرا کوئ نقصان نہیں ہوتا  اللہ کے دیے ہوے مال سے ہی جانا تھا ۔اسی نے دیا اسی نے پورا بھی کر دینا تھا۔ لیکن اللہ کی مخلوق  چھوٹی چھوٹی چیزوں سے پریشان ہو تو ہمارا فرض بنتا ہے اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں ایک دوسرے کے کام آئیں یہ بھی ایک کاروبار ہے جو اللہ کے ساتھ کیا جاتا ہے اس میں سرا سر منافع یے ایک پیسے کا نقصان نہیں۔

ویسے بھی پیسہ چاہے کڑوروں روپے جیب میں ہو دوسروں کی امانت ہوتا ہے۔اس کو آج نہیں تو کل دوسرے کی جیب میں جانا ہوتا ہے تو جانے والی چیز کا غم کیسا اس سے محبت کیسی۔اس کی جستجو کیسی اس کی طلب کیسی۔اس کو سنبھالنا کیسا بچانا کس کے لیے ۔پیسہ چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ اللہ کی دین ہے۔تو پھر اسی کی راہ میں اسی کی مخلوق پر خرچ کرنا چاہیے۔  ہمارے  معاشرے کے ایک بظاہر  چھوٹے انسان کی اتنی بڑی اور اونچی سوچ کی باتیں سن کر دنگ رہ گیا۔

حقیقت میں ہمارے معاشرے کا یہ چھوٹا نہیں بہت بڑا اور متمول انسان تھا۔ بابا جی کو اللہ حافظ کہہ کر اپنے گھر کو چل پڑا۔
لگتا تھا آج میرے لیے مذید حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنا باقی تھے۔میری  سوچ کی تبدیلی اور نئ سمت کا دن تھا۔ راستے میں ایک جگہ املی آلو بخارے کے شربت اور لیموں کی سکنجین کی  ریڑھیاں آئیں ۔جن کو دیکھ کر گرمی اور پیاس کی شدت میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا۔

ایک ریڑھی پر رک کر سکنجین کا گلاس لیا ۔اتنے میں ایک گندے مندے کپڑوں میں ایک آدمی آیا اور با آواز بلند سلام کیا۔ریڑھی والے نے اسے شربت کا گلاس دیا جو وہ ایک گھونٹ ہی میں پی کر چلا گیا۔ اتنے میں نے بھی سکنجین کا گلاس ختم کر لیا۔ جیب سے پیسے نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ریڑھی والا بولا صاحب جی پیسے رہنے دیں آپ کے پیسے ہو گے ہیں۔

میں نے حیرت سے کہا میں نے تو ابھی تک دیے نہیں پھر کیسے ہو گے۔ ریڑھی والا بولا ابھی جو صاحب شربت پی کر گے ہیں انھوں نے ادا کیے ہیں۔ میں نے کہا میں تو اسں بندے کو جانتا نہیں۔ ریڑھی والا بولا جانتا تو میں بھی نہیں پر  سارا دن جب بھی پانچ چھ مرتبہ آتا ہے  تو جتنے بھی گاہگ ہوں گے ان کا بل خود ادا کرے گا۔ خاص کر دوپہر کے وقت مجھے خصوصی ہدایت ہے کہ میں خود آوں یا نہ آوں سخت گرمی کے ستاے ہوے  ہر مسافر کو ٹھنڈا شربت جتنا مرضی پیئے پیسے میں دوں گا۔

ابھی تک تو بابا جی کے الفاظ کا سحر نہیں ٹوٹا تھا کہ ایک اور انسان دوست مجھے بغیر کچھ کہے فلسفے حیات سمجھا گیا۔زیست کا ایک نیا راز منکشف کر گیا۔ایک نئے راستے کا پتہ دے دیا۔
ان جذبوں کے سرور و سحر میں ڈوبا ہوا کب گھر آیا پتہ ہی نہ چلا۔گھر میں داخل ہوتے ہی بیگم نے تھانے داروں والوں کے کرخت انداز  میں پوچھا فریج بھی لائے ہو یا ایسے ہی خالی ھاتھ آگے ہو۔

میں اب انھیں کیسے بتاتا آج ہی تو خزانہ حیات ملا ہے۔زندگی کا اصل ڈھنگ اصل مقصد سمجھ آیا ہے۔سب گھر والوں کو فریج کے متعلق بتایا کہ شام تک گھر آ جاے گی۔اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا  بابا جی کی باتیں میرے کانوں میں گونجنے لگی۔شربت والے کی مخلوق خدا سے محبت اور احساس نے مجھے ایک نئے جذبے سے سرشار کر دیا۔آج کہ ان دو بظاہر چھوٹے اور عام سے واقعات نے میری زندگی بدل دی۔

میں جو بے جان اور پرانی چیزوں پر جان چھڑکتا تھا۔ان کو اپنا ساتھی غم خوار بنایا ہو تھا۔ماضی پرستی میں ذندگی گذار دی۔بخیل پن اور تنگ دلی کو اپنی صفت سمجھتا تھا۔ آج مجھے حقیقی زندگی ملی جانداروں سے محبت کرو ان پر خرچ کرو  ان کے لیے آسانیاں پیدا کرو اللہ تمھارے لیے آسانیاں فرماے گا۔یہی کاروبار حیات ہے۔ یہی حاصل زیست ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :