خواب عذاب

ہفتہ 23 نومبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

رات کے آٹھ بج چکے تھے۔جب میں گھر جانے کے لیے اپنے آفس سے نکلا ۔سارا سٹاف کچھ دیر پہلے ہی چھٹی کر گیا تھا ۔مجھے کچھ بزنس ڈاکومنٹس میل کرنے تھے اس لیے آفس رکنا پڑا۔میرا آفس سو منزلہ بلٰڈنگ کے وسط میں شہر کے پوش علاقے میں ہے۔ آفس سے ہر قسم کی آلودگی گندگی  سے پاک سر سبز و شاداب شہر کا خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔برق رفتار لفٹ سے چند لمحوں میں پارکنگ میں پہنچ گیا۔

جہاں میرا امریکن ڈرائیور ٹرمپ میرا منتظر تھا۔گھر کے لیے روانہ ہو گے ۔کچھ ہی دیر میں شہر کی جگ مگ کرتی آرام دہ سڑکوں سے گزرتے ہوے گھر پہنچ گیا۔کھانا ٹیبل پر لگا ہوا تھا اہلخانہ میرا ہی اننتظار کر ریے تھے ۔آج ہمارے بنگالی باورچی جو  بنگلہ دیش سے آیا ہے نے مچھلی کی سپیشل ڈش تیار کی تھی۔

(جاری ہے)

جو انتہای لزیز تھی۔کھانے کے بعد کچھ دیر بچوں کے ساتھ گپ شپ لگانے بیٹھ گے۔

بڑے بیٹے نے جوشخبری سنای اس کا اسلام آباد میں وزیراعظم ہاوس ختم کر کے قائم ہونے والی یونورسٹی میں میرٹ پر داخلہ ہو گیا ہے۔رہائش اور داخلہ حکومت نے مفت  دیا ہے۔اور کل صبح  اسلام آباد جا رہا ہوں ۔میں نے فورا"دل ہی دل میں اللہ کا اور اس رحم دل عوام کا درد دل رکھنے والی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔منجھلا بیٹا صوفے سے اٹھتے ہوے میرے قریب آیا میرا بوسہ لیا اور بولا میں نے صبح نماز اور ٹرینگ کے لیے جلدی جاگنا ہے اسی لیے سونے جا رہا ہے۔

میرے استفتسار پر بتایا کہ حکومت نے گورنر ہاوس ختم کر کے بہت اعلی معیار کا نوجوانوں کے لیے فٹنس اور ٹرینگ سنٹر بنایا ہے۔اور ساتھ میں عوام کے لیے  بہت خوبصورت تفریح گاہ بنا ریے ہیں۔کچھ دیر مذید گپ شپ لگای پھر ایک دوسرے کو شب خیر کہہ کر اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گے۔
صبح اپنے  وقت مقرر پر اٹھا تو حسب معمول نریندر مودی کو بڑی جانفشانی سے گھر کی صفای کرتے پایا۔

نریندر مودی کا تعلق انڈیا سے ہے اور اس کو گھر کی صفای کے لیے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک انڈین کاروباری دوست کی سفارش پر رکھا تھا۔واقع یہ۔کہنا غلط نہ ہو گا صفای کے معاملے میں نرینرر مودی بہت اعلی معیار کا جمعدار نکلا۔گھر کی صفای چمک دمک میں اضافہ کیا۔خالص دودھ دہی کا ناشتہ کیا۔تیار ہو کر دفتر کے لیے روانہ ہوا۔مودی کی طرح ڈرائیور ٹرمپ بھی اپنے کام میں بہت مہارت رکھتا تھا۔

اور امریکہ سے نوکری کرنے کے لیے پاکستان آیا تھا۔مجھے تجربہ کار ڈرائیور کی ضرورت تھی جو میری جدید نوعیت کی گاڑی مہارت سے چلا سکے۔سو میں نے اسے کے تجربےکو مدنظر رکھتے ہوے۔ ڈرائیور رکھ لیا۔راستے میں پولیس اسٹیشن کچھ کام تھا۔ٹرمپ کو پولیس اسٹیشن پر روکنے کا کہا۔بہت عرصے بعد پولیس اسٹیشن جا رہا تھا پولیس اسٹیشن پہنچ کر یقین ہی نہ آیا یہ پولیس اسٹیشن ہے ۔

صاف ستھڑا چاک و چوبند سٹاف۔ایس ایچ او بہت اخلاق سے ملا میرا بہت  غور  سے مسلہ سنا اور فوری حل کی یقین دھانی کرای پھر مجھے گاڑی تک خود چھوڑنے آیا۔دفتر پہنچ کر روزمرہ کہ کام نمٹانے لگ ہوا تھا موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔کال اٹینڈ کی تو فٹنس اور ٹرینگ سنٹر سے فون تھا کہ منجھلا بیٹا ٹرینگ کے دوران شدید زخمی ہو گیا یے قریبی سرکاری ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔

میں نے کہا میں بھی فوراً پہنچ رہا ہوں۔
 ٹرمپ کو ہسپتال کا راستہ سمجھایا اور جلد از جلد پہنچانے کا کہا۔میرے پہنچنے سے پہلے ہی ابتدای طبی امداد  دے دی تھی اور مریض کی حالت خطرے سے باہر تھی۔ملک کے بہت نامور ڈاکٹر نے فوری علاج کیا تھا ڈاکٹر صاحب بڑی خوش اخلاقی سے ملے اور مریض کی موجودہ حالت سے آگاہ کیا کہ چند گھنٹوں بعد چھٹی مل جاے گی اور مریض کو گھر لے کر جا سکتے ہیں۔

ہسپتال ایسے تھا جیسے کوی فائیو سٹار ہوٹل ہو صاف ستھرا خوشبودار۔ہر قسم کا علاج معلاجہ ادوایات ہر ایک کو بلاتفریق مفت فراہم کرنا حکومت کی زمہ داری تھی
جب سے ملک میں PTI کی حکومت آی ہے ۔عوام کا معیارے زندگی ناقابل یقین حد تک بلند ہو گیا ہے ۔حکومت میں آنے سے پہلے کیے گے ہر دعوے کو سچ کر دیکھایا ہے۔ملک لوٹنے والوں سے قوم کی لوٹی ہوی رقم کا ایک ایک روپیہ گن کر وصول کیا ہے۔

اور ملکی لیٹروں ڈاکووں کو کرپشن پر  کڑی سزا دی ہے۔اس سے نا صرف ملکی سارے قرضے اتر گے ہیں بلکہ دوسرے ممالک کو قرض دینے کی پوزیشن میں آ گیا ہے ۔ملک میں کتنی خوشحالی آ گی ہے۔غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔حکومت نے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کیے اب ملک میں کوی بےروزگار نہیں ہے۔ بلکہ اتنی نوکریاں پڑی ہوی ہیں کہ باہر ممالک سے لوگ نوکریوں کے لیے ہمارے ملک آ رہے ہیں۔

ہر بے گھر کو گھر بنا کر دیا ہے۔اور اب کوی بے گھر بھی نہیں رہا۔ تعلیم عام اور مفت ہو گی ہے۔ہر کام میرٹ پر ہو رہا ہے۔تھانہ کلچر بدل گیا ہے۔عدالتوں میں فوری انصاف مل رہا ہے۔روزمرہ استعمال کی اشیاءملاوٹ سے پاک خالص مل رہی ہیں۔  کچھ ہی عرصے پہلے میں خود بےروزگار تھا مجھے حکومت نے  میری صلاحیتوں کے مطابق موقع دیا تو میں  نے تھورے عرصے میں  بے حساب ترقی کی۔


شام تک مریض بہت بہتر ہو گیا۔ڈاکٹر نے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ہسپتال سے گھر تک جانے کے لیے ایمبولینس سروس بلامعاوضہ مہیا کی۔ایمبولینس جدید سہولیات سے آراستہ تھی۔اس بات کی تصدیق میرے ڈرائیور ٹرمپ نے بھی کی کہ ایسی ایمبولینس ہمارے ملک امریکہ میں چند ایک ہسپتال کے پاس ہیں۔گھر پہنچ کر مریض کو اس کے کمرے میں شفٹ کیا۔تھوڑی دیر مریض سے پیش آنے والے حادثے کے متعلق بات چیت کی پھر مریض کے آرام کی غرض سے میں اپنے کمرے میں آگیا۔

اور اپنی اہلیہ کو کہا میں بھی کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں لہذا مجھے کوی ڈسٹرب نہ کرے۔بستر پر لیٹتے ہی  میں گہری نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
گہری نیند میں مجھے ایسے لگا کوی مجھے جھنجھوڑ رہا ہے اور پٹای کے ساتھ اونچی آواز میں گالی  گلوچ کر رہا ہے۔غصے کے عالم میں آنکھیں ملتے ہوے مودی کو زوردار لہجے میں آواز دی۔تو کمر پر کسی نے انتہای طاقت سے جوتا مارا اور میرے سے بھی بلند آواز آی آنکھیں  کھولو مودی نہیں سودی تیری ماں۔

یہ سننا ہی تھا کہ ہڑبڑا کہ اٹھ کے بیٹھ گیا  سامنے ماں ابا کا فل سائز کا چپل ھاتھ میں لیے کھڑی تھی اور شدید غصے میں بولی چل اٹھ دس بج رہے ہیں جا جا کر کوی کام دہندہ ڈھونڈ ۔اچھا اماں بس ابھی دفتر جاوں گا ٹرمپ سے کہو گاری باہر نکالے۔ یہ بات سنتے ہی اماں نے ایک اور کھنچ کر دی اور رونی آواز میں بولی رات پھر تو عمران خان کی تقریر سن کر آیا ہے۔

کتنی مرتبہ تجھے اس کی جھوٹی تقریر سننے سے منع کیا ہے۔جب تقریر سن لے تو رات کو دورہ پڑ جاتا یے۔موہے کی کوی جادو ٹونے والی تقریر ہے اچھے بھلے میرے محنتی بچے کو تقریر سنا سنا کر ناکارہ کر دیا۔میں عمران کی رات والی تقریر جس میں نئے پاکستان ایسا ہو گا کہ ٹرانس سے نکل آیا۔ اور  اٹھ کر کام کی تلاش میں  نکل پڑا۔
پچھلے آٹھ سالوں سے  PTI  کا سپورٹر ہوں عمران خان کی ایک ہی تقریر سن سن کر میری زہنی حالت یہ ہو گی ہے کہ خواب میں نیے پاکستان میں چلے جاتا ہوں۔


یہ خواب  عذاب کا مسئلہ  ملک کے   بےشمار نوجوانوں کا ہے۔عمران خان نے نئی نسل کو ترقی اور تبدیلی  کے ایسے ایسے سبز باغ  دیکھاے ہیں کہ وہ جاگتے سوتے اس تبدیلی کے خواب کی تعبیر میں کھو جاتے ہیں۔ خان صاحب اب ملک  کے وزیر اعظم ہیں اور ان کی حکومت ہے۔اور وہ ابھی تک خوابوں کی تعبیر پانے اور تبدیلی لانے کی بجاے بار بار  ایک ہی تقریر کر رہے ہیں لہذا عمران خان سے گزارش ہے کہ جب خواب پورے نہیں کر سکتے ان کی تعبیر نہیں پا سکتے تو دیکھاتے کیوں ہو۔کیوں ان جوانوں کو خواب عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔یہ خواب ان کے لیے عذاب اور مذاق بن گے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :