لاوارث قوم

جمعہ 27 دسمبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

رات بارہ بجنے کا بےچینی سےانتظار کر رہا تھا ۔ نئ تاریخ شروع ہونے میں اب کچھ سیکنڈ رہ گے تھے۔جیسے ہی گھڑی نے بارہ بجے کی گھنٹی بجائ۔چُھُڑی پر اپنی گرفت مظبوط کی اور اپنا ھاتھ آگے بڑھایا ہی تھا گیٹ بیل بجی اور میراھاتھ وہیں رک گیا جنجھلا کر دروازے اور گھڑی کی طرف دیکھا رات کے  اس پہر  کس نے گیٹ بیل بجائ ہے۔ انہتائ بیزارگی کے عالم میں اٹھا اور مین گیٹ کا دروازہ بغیر کسی پوجھ گچھ کے کے تیزی سے کھول دیا۔

اپنے سامنے آنے والے کو دیکھ کر وہی شششدرہ رہ گیا۔حیرت اور بےیقینی سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گی۔  میری اس گم صم کی کفیت کو آنے والے نے محظوظ ہوتے ہوے کہا اسطرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے رہو گے کے اندر بھی آنے دو گے۔یہ سنتے ہی چونکہ اورمیکانکی انداز میں دروازے کے ایک طرف ہو کر راستہ دیا۔

(جاری ہے)

میری حیرت کی انتہا نہ رہی ناقابل یقین گھڑی تھی میرے سامنے آنے والے میرے ہیرو باباے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کھڑے تھے۔

ہوش و حواس بحال ہوتے ہی قائد کو جھک کر سلام کیا۔آواز تو گلے میں ہی اٹک سی گی۔  جوابً قائد نے میرے سلام کا جواب دیا دعا اور پیار دیا۔ انتہائ ادب و احترام سے قائد کو ڈرائنگ روم میں لے کر آیا اور بیٹھایا۔باباے ملت نے سفید رنگ کی شیروانی اور پاجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ سر پر مٹیالے رنگ کی ٹوپی تھی۔بہت خوبصورت لگ ریے تھے ۔سب سے بڑھ کر جسمانی طور پر صحت مند لگ رہے تھے۔


قائد  بڑے خوش گوار لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوے کہ میری سالگرہ کا کیک اکیلے اکیلے ہی کاٹ کر سارہ کھانا چاہتے تھے۔جس طرح ہر کوی ملک کو اکیلا ہی کھانا چاہتا ہے۔  آگے سے میرے پاس خاموشی کے سوا جواب نہیں تھا۔کچھ توقف کے بعد قائد سے میں نے کہا اگر آپ دو سیکنڈ بھی لیٹ ہو جاتے تو آپ کی سالگرہ کا کیک میں نے کاٹ لینا تھا آپ بہت صیح وقت پر تشریف لاے۔

قائد نے بڑے روعنیت سے مجھے جواب دیا میں نے ساری عمر وقت کی پابندی کی ہے ۔مجھے نہیں یاد پڑتا کوئ کام بھی اپنے وقت سے دیر میں کیا ہو۔ مجھے دیکھ کر تو کی لوگ اپنی گھڑی کا وقت ملاتے تھے۔ ویسے بھی ہمارا دین کا دوسرا نام پابندی وقت ہے۔ وقت پر نماز روزہ سونا جاگنا کھانا پینا عبادت کرنا ہی ہمارا مزہب میرے نبی کا دین اسلام ہے۔اللہ نے ساری کاینات کی ہر شے دن رات سورج چاند ستارے گرمی سردی اپنے وقت مقرر پر کام کر رہے ہیں۔

میری زندگی کی کامیابی کا راز پابندی وقت ہے۔پھر بڑی روندی  آواز میں بولے پر میری قوم پابند وقت کو فراموش کر بیھٹی ہے۔ آگر کوی پابند وقت کرتا بھی ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔وقت جیسی انتہای قیمتی چیز کو مذاق بنا لیا ہے۔  اسی وجہ سے آج ہم دنیا میں بہت پیچھے اور مذاق بن کر رہ گے ہیں۔
ٹیلیویژن پر کسی آٹو موبایل کمپنی کی خبر آی کہ وہ پاکستان میں گاڑیوں کی اسمبلی کا پلانٹ لگانا چاہتی ہے۔

قائد یہ خبر سن کر افرسردہ لہجے میں بولے اللہ اگر ذندگی کی کچھ مہلت دیتا تو میں ملک کو جدید ترین ٹیکنالوجی بنانے والا ملک بنا جاتا ۔جاپان امریکہ جرمنی تو کوی چیز ہی نہ ہوتے۔ مجھے جدید ٹیکنالوجی سے شروع ہی سے بہت لگاو تھا۔نئ سے نئ گاڑی میرے زیرے استمال رہی ہے۔  میری چشم تصور نے بہت پہلے ہی دیکھ لیا تھا آنے والا وقت جدید ٹیکنالوجی کا ہے۔

پر افسوس صد افسوس میرے بعد نہ کسی نے سوچا اور نہ ہی کسی قسم کی توجہ دی۔آج بھی ہم مانگے کی ٹیکنالوجی پر گزارا کر رہے ہیں۔
کچھ دیر خاموشی رہی میز پر پڑے ہوے پرانے اخبار کا مطالعہ کیا۔ پچھلے دنوں ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان جو دم دم مست قلندر ہوا کی خبر پڑھ کر آنسووں کے ساتھ روتے ہوے بولے یہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ڈاکٹر اور وکیل تو قوم کے مسیحا ہوتے ہیں ۔

اس ملک خدا کا خواب بھی ایک وکیل علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔جس میں مسلمان آپس میں مل کر رہے نہ کوی پنجابی سندھی بلوچی پٹھان ہو صرف پاکستانی ہو۔  دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں رسم ورواج سے لے کر دین اسلام ہمارا جدا ہے۔ اور اس خواب کی تکمیل کرنے والا بھی وکیل  تھا۔یہ خبر پڑھ کر دل خون کے آنسووں سے رو رہا ہے۔

قوم کے مسیحا اگر اتنی گری  ہوی حرکت کریں گے تو اس کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ وکالت تو انبیاء کرام کی میراث  ہے ۔ہمارے پیارے نبیؐ بہترین منصف بہترین وکیل تھے۔ وکلا حضرات جو قانون کے محافظ ہیں قانون اپنے ھاتھ میں لیا ۔قانون کی آڑ میں غنڈہ گردی کی۔ اور کھلے عام قانون شکنی کے مرتکب ہوے۔ میں نے انگریزوں اور ہندووں کے خلاف آزادی کی تحریک چلای اور بغیر کسی قانون شکنی کے ۔

ایک بار بھی پابند سلاست  نہیں ہوا۔کسی قتل و غارت کے بغیر۔ کسی بھی قسم کی توڑ پھوڑ کے بغیر۔ہر طرح کےہتھیاڑ کے بغیر ۔صرف اور صرف آپنی دلیل کے زریعے الگ وطن اپنے جداگانہ تشخص کے لیے حاصل کیا۔افسوس صد افسوس آج ملک میں افراتفری کا شکار ہے۔  چھوٹے چھوٹے جائز و نا جائز مطالبات کے لیے جلسے جلوس نکالتے ہیں۔ اپنی سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اپنے ہی ملک کے لوگوں کو اذیت دیتے ہیں۔ اپنے ہی ہم وطنون کے خلاف سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ میں نے تو ایسے پاکستان کے قیام کے لیے دن رات جدوجہد نہیں کی۔جس میں اپنے لوگ کو دوسرے ممالک دہشت گرد قرار دیں۔میرا پاکستان تو اسلام کا قلعہ تھا۔ جس نے اسلام کا پرچم بلند کرنا تھا۔جس نے امت مسلمہ کی بھاگ دوڑ سنبھالنی تھی۔پر  اپنا ملک بھی نہیں سنبھال سکے اور ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔

صرف ملک ہی دو لخت نہیں ہوا میرے بھی دو ٹکڑے کر دیے۔  دو قومی نظریہ کو بھی ختم کر دیا۔جن حکمرانوں نے عوام کی خدمت ان کا خادم بن کر کرنی تھی وہ غریب عوام کے ان داتا بن گے ہیں۔ زرد صحافت نے ملک کو اور کمزور کر دیا ہے صحافی مظلوم کی آواز بننے کے بجاے طاقت ور کا ہتھیاڑ بنے ہوے ہیں۔ استاتذہ اپنا علم منتقل کرنے کی بجاے اس کو بیچ رہے ہیں۔ علم حاصل کرنا نہیں پڑ رہا ہے بلکہ خریدنا پڑ رہا ہے۔

جو ایک متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے۔ ملک میں دو قانون ہیں غریب کے لیے اور امیر کے لیے اور۔ امیر آدمی من چاہا انصاف حاصل کر رہا ہے۔ غریب کی کوی شنوای نہیں۔قانون کے محافظ ہی لیٹڑے بن گے ہیں۔
یہ سب کہتے ہوے قائد کی ہچکی بندھ گی۔
کچھ لمحوں کے بعد قائد نے جھکا چہرہ اوپر اٹھایا تو آنسو سے تر تھا۔ افسردگی ہر طرف چھای ہوی تھی۔

لگتا تھا قائد کے ہر گلے پر در و دیوار بھی رو رہے ہیں۔ قائد دوبارہ مخاطب ہوے اور کہا طب جیسے مقدس پیشے کو بھی کاروبار بنا لیا ہے۔ کسی کی جان بچانے سے افضل کوی عمل نہیں۔ پر میرے ملک  پاکستان میں مریض علاج کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کوی پوچھنے والا نہیں۔میرے ملک کا کاروباری طبقہ اپنا منافع زیادہ سے زیادہ کمانے میں لگا ہے ۔

زخیرہ اندوزی کرنا ناقص ملاوٹ شدہ اشیاء صرف  بیچنا جرم نہیں سمجھتا۔ ہوس زر میں اندھا ہو چکا ہے۔ دفاتر میں کوی اہلکار اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے سر انجام نہیں دے رہا۔ رشوت سفارش کے بغیر کوی جائز  کام نہیں ہوتا۔
 قوم کو عمل کرنے کے لیے تین اصول دیے۔
اتحاد    تنظیم    یقین
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار انھیں تین  اصولوں پر ہے۔

پر میری قوم یہ تینوں اصول بھلا چکی ہے۔اس کے برعکس عمل کر رہی ہے۔  غلط راستے پر چل پڑی ہے۔ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ اپنا مفاد عزیز ہے۔ملک کو صحیح وارث نہیں ملا۔ قوم کی حالت لاوارثوں والی ہے۔   اتنی برائیاں والا خامیوں والا یہ میرا پاکستان نہیں یے۔
میرے پاکستان کا دانشور ایماندار نہیں رہا۔ ان کرپٹ لیڈروں کی لبیک کر رہا ہے جو اسے دانا  ڈالتا ہے۔

اپنے محسنوں آزادی کے سپاہیوں آزادی کے ہیرو سے زیادہ کرپٹ عناصر کو ہیرو اپنا لیڈر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ہیں۔ میرے کئ ساتھی جنھوں نے قیام پاکستان کے لیے بیشمار قربانیاں دی انھیں قوم نے فراموش کر دیا ہے۔ ایک دن مجھے بھی فراموش کر دیں گے۔ یاد رکھو وہ قومیں لاوارث ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو، لیڈروں کو فراموش کر دیتی ہیں۔
میں قائد کے ہر لفظ پر شرم سار ہو رہا تھا۔

اتنے میں میرا پانچ سالہ بیٹا کمرے میں آیا۔ اس نے قائد کو سلام کیا۔میں نے اپنے بیٹے سے کہا انھیں پہچانا یہ محمد علی جناح ہیں  پاکستان انھوں نے  بنایا ہے۔قائد کے بارے میں مذید باتیں کارنامے بتاے ۔میرا بیٹا سب سن کر بولا کیا قائدآعظم  سپائیڈر مین سے زیادہ بہادر ہیں ؟ مجھے تو  سپائیڈر مین زیادہ طاقت ور اور بہادر لگتا ہے۔اپنے بیٹے کے سوال سے ہونقوں کی طرح میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اور میری آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گی۔دماغ ماوف ہو گیا۔  سر شرم سے جھک گیا۔مجھے لگا آج واقعی میں لاوارث ہو گیا ہوں۔
  قائد جا چکے تھے۔پر ان کے الفاظ گردش کر رہے ہیں۔
" یاد رکھو وہ قومیں لاوارث ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو، لیڈروں کو فراموش کر دیتی ہیں۔"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :