سیاسی دانے عوامی کھال

پیر 28 اکتوبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

ہٹلر ایک مرتبہ اپنے ساتھ ایوان میں ایک مرغا لے کر آیا۔اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پنکھ نوچنے لگا۔مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر ہٹلر نے ایک ایک کر کےاس کے سارے پنکھ نوچ کر مرغے کو زمین پر پھینک دیا اور جیب سے کچھ اناج کے دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور دھیرے دھیرے چلنے لگا تو مرغا دانا کھاتا ہوا ہٹلر کے پیچھے چلنے لگا۔

ہٹلر دانا پھینکتا گیا اور مرغا دانا کھاتا ہوا اس کے پیچھ چلتا رہا۔آخرکار وہ مرغا ہٹلر کے پیروں میں آ  کھڑا ہوا  ۔ہٹلر نے سپیکر کی طرف دیکھا اور ایک تاریخی جملہ کہا
 "جمہوری ملکوں میں عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں ان کے لیڈر عوام کا پہلے سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہچ کر دیتے ہیں اور بعد میں انہیں تھوڑی سی خوراک دے کر ان کے مسیحا بن جاتے ہیں"
 
ہمارے ملک میں جمہوریت عوام اور سیاستدانوں کا حال بھی کچھ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے سیاستدان ہہلے ماہر شکاری کی طرح  دانا ڈالتے ہیں ۔پھر پانچ سال کے لیے اپنے چنگل میں پھنسا کر کھبی تیز اور کھبی کند آلے سے ہماری کھال اتارتے ہیں۔ کھال چاہے تیز آلے سے اتارے یا کند سے تکلیف کی اذیت میں کوی کمی نہیں آتی۔اگر ہم اپنی چند بڑی سیاسی جماعتوں پر نظر دوراے تو پتہ چلا گا ملکی حالات اور موقع محل کے مطابق کس کس طرح عوام پر دانا ڈالا اور کھال اتاری
پی پی پی نے روٹی کپڑے اور مکان کا دانا عوام کو ڈالا۔

اور یہ تینوں انسانی بنیادی ضروریات ہیں۔  بہت عرصہ گذرنے کے بعد بھی ان دانوں کی افادیت میں کوی فرق نہیں پڑا۔آج بھی یہ مکر و فریب سے بھر پور دانے صوبہ سندھ عوام کی پسند ہیں۔سیاستدان بڑی کامیابی سے ان دانوں کو زبانی جمع خرچ میں لا کر پچاس سال سے عوام کی کھال  بڑی مہارت سے اتار رہے ہیں ۔روٹی کے نعرے کا یہ حال ہے کہ اندرون سندھ میں غذای قلت کی وجہ سے ہر سال ان گنت قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔

صاف پانی کا حصول نہیں لوگ گندہ پانی پر مجبور ہیں آج بھی انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اندرون صوبہ سندھ  میں انسانی بےوقعتی کا   عالم ہے کہ آوارہ کتوں کے کاٹنے اور زہریلے سانپ کے ڈسنے کا آسان ترین شکار مقامی آبادی ہے اور ہمارے سیاست دان کھال اتارنے میں اتنے مصروف ہیں کہ عوام کے لیے کتے کاٹنے  اور سانپ کے ڈسنے کی ویکسین کی فراہمی کا وقت نہیں اور نہ ہی خیال ہے۔

ہیپاٹائٹس جیسا موزی وائرس اور متعدد خطرناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔تعلیم کا شعبہ زبوحالی کا شکار ہے۔سندھی وڈیرہ ازم عوام کی تعلیم  کے حق میں نہیں کہ پڑھ لکھ کر باشعور نہ ہو جائیں۔اور کھال اتارنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن  کی کارکردگی بھی مختلف نہیں۔ان کے دانوں کا برانڈ ہر الیکشن میں نیا ہوتا ہے
. . . . . . .  ہم بدلے گے پاکستان  
. . . . . . .  مظبوط معیشت مظبوط پاکستان
. . . . . . .  خوددار  خوشحال  خود مختار پاکستان
. . . . . . .   ووٹ کو عزت دو
 مندرجہ بالا دانوں کے برانڈ سے عوام کو اپنے جال میں پھنسا کر عوام کے نام پر بین الاقوامی مالیاتی بنکوں سے انتہای مہنگے شرح سود پر قرض لے کر عوام کا بال بال قرض کی دلدل میں جکڑ دیا۔

خوشحالی اور ترقی کے تیز دار آلے سے عوام کی کھال اس مہارت سے اتاری کہ عوام نے اف بھی نہیں کی۔اپنی بقا کے لیے بار بار  اسی برانڈ کے دانے چغے۔پنجاب ن لیگ کی سیاست کا مرکز ہے۔بڑے پیمانے پر دانے ادھر ہی بیجے  ہیں اور دانوں کا جال بھی یہی بچھایا ہوا ہے۔ان کے دانوں کا تجزیہ کریں تو زیادہ تر لوہے نما دانے یا ربڑ نما  دانے ہیں۔جیسے مرضی چباو حلق سے نیچے نہیں اترے گے،لیکن کھال با آسانی اتر جاے گی ۔

لمبے عرصے تک پنجاب پر حکمرانی کرنے کے بعد بھی عوام کی حالت زار میں کوی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آی۔آج بھی صوبے میں صحت تعلیم صاف پانی کے مسائل ابتر ہیں ۔اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ن لیگ کے میگا پروجیکٹس سڑکوں پلوں پر مشتمل ہیں۔صوبے میں سڑکوں پلوں کا جال بچھا دیا ہے۔کسی گاوں کے تشویش ناک حالت کا مریض نے ہسپتال تک جانا ہو تو سفر سکینڈوں میں طہ ہو  جاے گا پر ہسپتال پہنچ کر نہ ڈاکٹر ہو گا نہ ادویات خراب لیبارٹری ملے گی۔

صحت تعلیم ترجیح نہیں سڑکیں اور پل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت ہے۔pti نے تبدیلی انصاف احتساب کے پرانے دانوں کو جو اس پہلے بھی کئ سیاسی جماعتیں استعمال کر چکی ہیں ایک نئ دلکش پیکنگ میں مذید اچھے فلیور ڈال کر عوام کو ڈالے ہیں۔ان دانوں کا ذائقہ خاص کر نوجوان نسل کو بہت ہی اچھا لگا ہے۔ملک کی اکثریت عوام کا یقین ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے تیار کردہ دانے انتہای ایمانداری خالص دیسی اجزا اور حفضان صحت کے اصول کے تحت تیار کیے گے ہیں جس کے استعمال سے عوام کی نوچی ہوی کھال اور ملک کی تباہ حال قرضوں میں جکڑی معیشت بہت برق رفتاری سے بحال ہو جاے گی۔

pti کے دانوں کی افادیت دیکھتے ہوے عوام نے پانچ سال کے لیے Pti کو منتخب کیا ہے اور اب ملک میں ان کی حکمرانی ہے۔سوا سال گذرنے کے بعد ان کی کارکردگی بھی باقی جماعتوں سے مختلف نہیں۔وزیرآعظم عمران خان(بانی) شوکت خانم ہسپتال  کو چلانے کے لیے قربانی کی کھالیں اکھٹی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے جس کا موقع سال میں فقط ایک مرتبہ ملتا ہے۔اسی شوق اور طریقہ کار کو آگے بڑھاتے ہوے سالانہ انتظار کی اذیت سے بچنے کے لیے ان کے ھاتھ عوام کی کھالوں تک پہنچ گے ہیں اور دیگر سیاست دانوں کے نقشے قدم پر چلتے ہوے انتہای جدید اور بین الااقوامی مثلاً lmf وغیرہ کے ہتھیاڑ سے عوام کی کھال اتارنے میں مصروف عمل ہیں۔

مہنگای بے روزگاری معاشی بدحالی جیسے تیز آلے سے جس بےدردی سے عوام کی کھال اتاری ہے اس کی چیخیں ہر گلی کوچے میں سنی جا سکتی ہیں۔تبدیلی انصاف احتساب کے دعوے صرف دعوے نکلے۔
اس ضمن میں ملک کے بڑے طاقت ور ادارے کو بھی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا کئ بار موقع ملا ۔طاقت اور لامحدود اختیارات کے ہوتے ہوے بھی عوام کی کھال اترنے سے نہ بچ سکی۔


ہماری کھالیں ادھیڑ کر آنھیں ہر طرح سے نوچ کر ملکی سیاستدان امیر سے امیر ہوتا چلا گیا اور ملک کو بیرونی قرضوں میں ڈوبو گیا  ۔اس کا سرمایہ اندرون ملک اور بیرون ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ملک کی معاشی حالت وینٹیلیٹر(ventilator ) پر آگی ہے۔پر ہمارا سیاست دان اور سرمایہ کار معاشی لحاظ سے بے انتہا فربہ ہوتا جا رہا ہے۔اس میں عوام کی بھی غلطی ہے یا شعور کی کمی ہے۔

جس دن ہماری قوم میں احساس ذمہ داری شعور آ جاے گا سچ کو سچ غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ آ  جاے گا۔ظلم سہنے کی بجاے مقابلہ کرنا آجاے گا ڈٹ کر کھڑا ہو سکے گے۔سیاسی پارٹی وابستگی سے ہٹ کر ملک کا مفاد سوچیں گے۔اس دن سب جھوٹے دھوکے باز سیاست دان  نقلی منجن دینے والے مکر و فریب کے جعلی دانے ڈالنے والے عوام کی کھال نوچنے والے  خود آپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔

ابھی تو عوام کا یہ حال ہے خراب جھوٹے کیڑا ذدہ دانے کھا کر اور اپنی کھال بے دردی سے اتروا کر بھی نہیں سمجھتے پھر بھی انھیں کو مسیحا اور نجات دہندہ سمجھتے ہوے پورے جوش و جذبے کے ساتھ دوبارہ انھیں کو موقع دے کر پہلے سے بھی ذیادہ اذیت اور تکلیف کا شکار ہو کر اپنی کھال اترواتے ہیں پھر چیخیں مارتے ہیں ۔ان کی مثال ایسی ہے
"سو چھتر بھی کھانے ہیں اور سو پیاز بھی"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :