ابن سینا نے سولہ سال کی عمر میں معالج کے طور پر شہرت پائی ان کے ہاں دن بدن مریضوں کی تعد اد میں اضافہ ہوتا کیا اور لائق اساتذہ کی نگرانی میں مختلف علوم میں اٹھارہ سالوں میں عبور حاصل کیا ان کا تعلق بخارہ (از بکستان ) سے تھا فلسفے طبیعیات عربی ادب دینیات فککیات کا علم بھی از بر کر رکھا تھا بطور معالج ان کا چرچا تھا ان سے روایت ہے ایک روز وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ریسرچ جڑی بوٹیوں کیلئے الصبح جنگل میں سے گزررہے تھے ان نے دیکھا ایک پہار کی غارکے باہر لوگوں کا جم گھٹا لگا ہوا ہے اور ان کے ہاتھوں میں پانی بھرے برتن ہیں آگے بڑ ھ کر ان لوگوں سے دریافت کیا تو ان نے بتایا پہار کی غار سے ایک بزرگ نکلیں گے اور پانی والے برتنوں کو ہاتھوں سے اوپر اٹھائیں گے وہ پھوک ماریں گے اور ہمارا علاج ہو جائے گاچند لمحوں کے بعد ایک باریش بزرگ غار سے باہر آئے اور پھوک مارا اور اسی لمحہ غار کے اندر چلے گئے اور آنے والے لوگوں نے کہا بیماری سے شفا مل جائے گی اس پر میں نے سر پکڑلیا اور گہری سوچ میں پڑ گیا یہ کونسا طریقہ علاج ہے میں نے غار اندر جانے کی کوشش کی مگر بتایا گیا اب ملاقات مشکل ہے کل الصبح آگے لائن میں لگ جائیں ملاقات ہوسکے گی اسی سوچ میں فیصلہ کیا اس طبیب کا طریقہ علاج دیکھ کر ہی جانا رات وہی جنگل میں قیام طعام اگلی صبح تک کے انتظار میں کیا الصبح بیدار ہو کر پہلے ہی لائن میں لگ گیا لوگ پانے لے کر آئے غار سے بزرگ نکلے اور پھونک مار کر واپس جانے لگے تو ان کے ساتھ میں بھی غار میں داخل ہوگیا انہوں نے مجھ کو بیٹھنے کو کہا جب میں بیٹھ گیا تو آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے دریافت کیا یہ کون سا طریقہ علاج ہے انہوں نے کہا جب دوا کام کرنا چھوڑ دے تو دعا ہی کام آتی ہے جس پر میں عمل پیرا ہوں لوگوں کو شفا ہو رہی ہے میں دریافت کیا یہ کہاں سے سیکھا ہے کہنے لگے میرے استاد ابن سینا ہیں جن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے جہاں دوائیں کام کرنا چھوڑ دیں وہاں دعا کام کر جاتی ہے یہ سن کر مجھے حیرانگی ہوئی جو میں نے کتاب میں لکھا اس پر عمل نہ کر سکا اور بزرگ نے عمل کر دیکھایا جب میں بزرگ کو بتایا میں ہی ابن سینا ہوں تو احترام کرتے ہوئے اٹھااورکہا آپ کو میرے استاد ہیں میں نے عمل گیا اور اللہ تعالے سے لو لگائی اور دعاسے علاج کا سلسلہ جاری ہے اس کے علاوہ ایک واقع سابق پرنسپل اسلامیہ کالج فیصل آ باد فزکس کے پروفیسر محمد رفیق لودھرا جو کہ جمعرات کو روحانی محافل منعقد کرتے ہیں اور ان کی زندگی روحانی سلسلہ سے منسلک ہے انہوں نے ایک ملاقات میں واقع سنایا ہماری روحانی محفل میں ایک شخض آیا اوربتایا میں کینسر کا مریض تھا اور میرا چہرا کنیسر کے باعث بد نما ہوگیا جگہ جگہ علاج کروانے سے بھی مرض سے چھٹکارہ نہ مل سکا اور ڈاکٹروں نے لاعلاج مرض قرار دیتے ہوئے کہا کھا پی لو ایک دو ماہ ہی زندگی ہے مویوس ہو کر گھر لوٹ آ یا وضوگیا نماز پڑھی اور رات گئے تک اللہ تعالے سے بار بار رو رو کر معافی مانگی اور دعا کی اللہ تعالے نبی کریم ﷺ کاایک امتی اس چہرہ کے ساتھ تیرے سامنے پیش ہونے سے شر مندہ ہے اور دعا مانگتے ہوئے اونگھ آگئی اور سو گیا خواب میں نبی کریم کی زیارت ہوئی لب لگایا تو میری جاگ کھل گئی جب اپنے چہرہ کو ہاتھ لگایا تو چہرہ پہلے کی طرح تھا اور کینسر کا مرض ختم ہو چکا تھا دعائیں انسان کو بچالیتی ہیں آج کل بھی بڑے ڈاکٹر بھی مریضوں کو سورت رحمان پڑ ھنے سننے کا بھی علاج کے ساتھ مشورہ دیتے ہیں قرآن کریم انسانوں کیلئے رحمت ہی رحمت ہے علماء بھی مختلف امراض کیلئے سورتوں کو بیان کرتے ہیں میری پوتی تشہد والات سے چھ ساتھ روز بعد اچانک بیمار ہو گئی اچانک گھر سے فون آیا اس کی سانس بھی بند ہوگئی ہے میرے چھوٹے بیٹا نعمان نے ہمت نہ ہاری اور اس کو فوری ہسپتال لے جانے کے ساتھ دردد کا ورد کرتے ہوئے ایمرجنسی میں لے پہنچا مگر درود شریف پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا وہاں ڈاکٹروں نے کہا اس کو تو سانس نہیں آرہا مگر اسی لمحہ بچی نے معمولی حرکت کی اورامید کی کرن سامنے آ ئی کچھ امید لگنے کے بعد ان نے الائید ہسپتال فیصل آباد ریفر کر دیا گیا وہاں کو انتہائی نگہداشت واڈ میں بچی کو رکھا گیا مگر بیٹا نے درود شریف کا ورد جاری رکھا اور بچی صحت یاب ہو کر گھر آئی یہ دروپاک کا ہی کمال تھا اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں مگر دکھی انسانیت اپنے علاج کے ساتھ ساتھ اللہ تعالے کی بارگاہ میں جھک جھک اور رور رور کر دعائیں مانگنے کا بھی سلسلہ جاری رکھیں ان کی دعائیں قبول بھی ہوں گی اور شفا بھی ملے گی اللہ تعالے کی کتاب قرآن مجید کے ہر حرف اور لفظ میں شفا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔