آلودہ پانی بیماریوں کی جڑ

پیر 16 مارچ 2020

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

انسانوں کی صحت کیلئے شفاف پانی کی ضرورت ہے بڑھتی ہوئی ملک کی آبادی کیلئے پانی کی کمیابی اور آلودہ پانی کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ان پر قابو اسی صورت میں پایا جا سکتا ہے حکومت اور پوری قوم ایک پیج پر آکر پاکستان شفاف پانی کی فراہمی کیلئے قومی سوچ لیکر آگے بڑھیں زندہ قومیں کی یہ ہی پہنچان ہے وہ مشکل سے مشکل کام کو مل جل کر انجام دیتیں ہیں پاکستان میں صاف پانی کے نام پر کاروبار کو مسلسل فروغ مل رہا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کیا پانی کا دھندہ کرنے والے صاف پانی لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں یا آلودہ پانی سے کمائی کررہے ہیں ورلڈ بنک نے اپنی روپوٹ میں انکشاف کی ہے پاکستان میں 68فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں اور پاکستان ماحولیاتی آلودگی انڈیکس میں 180 شامل ممالک میں 140ویں نمبر پر ہے 36فی صد آ بادی کو ملنے والا پانی کا معیار بھی بہتر نہیں ورلڈ بنک کی چونکا دینے والی روپوٹ ہے آلودگی اور آلودہ پانی جن لوگوں کو ملے گا بیماریوں کو ہی فروغ ملے گا اور ہسپتالوں بیماروں کا ہی ہجوم حکومت کیلئے بھی مسائل کا باعث بنتا رہے گا پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتی اور تیس فیصد شہری ہے ہمارے شہروں قصبات میں کوڑا کر کٹ کے ڈھیر گندگی سے اٹی ہو ئی نالیاں گٹروں سے اُٹھنے والاتعفن بد بو دھواں چھوڑتی گاڑیاں مو ٹر سائیکل پبلک مقامات پر سیگرٹ پیتے لوگ اور فیکٹریوں کا دھواں آ لودہ پانی اور آلودہ پانی پر سبزیوں کی کاشت گوشت کو آلودہ پانی لگانے اور سبزیوں فروٹ پر آلودہ پانی کا چھڑ کو ہی دیکھنے کو مل رہا ہے افسوس تو اس بات کا ہے لوگ اپنے پاوٴں پر کلہاڑی خود بھی چلا رہے ہیں تو ہمیں پینے کو آلودہ پانی ہی ملے گا اب دیہاتی آبادی کو دیکھیں ہماری کلر زدہ زرعی زمینیں جہاں سفید کلر اور کالا کلر کے باعث زرعی پیداوار نہیں ہوتی تھی اس ہمارے زرعی ماہرین نے چیپم کھاد اور ادویات کے استعمال کے ساتھ اجناس کی ایسی اقسام کو متعارف کروا کر کلر والی زرعی اراضی سے پیداوار حاصل کر رہے ہیں اور ان نے زمینداروں کو ٹیوب ویل کا پانی 200فٹ سے زائد نیچے سے اور اس پانی کا لیبارٹری تجزیہ کروانے کے بعد استعمال کی ہدایت کر رکھی ہے اور کلر زدہ پانی کو زراعت کیلئے غیر موزوں قرار دے رکھا ہے توان علاقوں کا پانی انسانوں کیلئے کیسے استعمال کے قابل ہو سکتا ہے اور دیہاتی آبادی نے جو نلکے ٹیوب ویل ان علاقوں میں پانی کے حصول کیلئے لگا رکھے ہیں یہ بھی ان لوگوں کی مجبوری ہے پانی کے کاروبار کرنے والوں نے بھی آلودہ پانی ہی فروخت کرنے کا دھندہ کھلے عام جاری رکھا ہے گد ھا گاڑیوں رکشاوٴں ہتھ ریڑیوں ویگنوں پر میلے کچلی ڈرمیوں گیلنوں میں نہری پانی اور فلٹریشن پلانٹ کے صاف پانی کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رکھا ہے ان کے پاس پانی کے صاف ہونے کا کوئی ثبوت یا سر ئیفکیٹ اور اجازت نامہ تک نہ ہے فلٹریشن پلاٹ کے وقت پر فلٹر تبدیل بھی نہیں ہوتے نہ ہی فلٹریشن پلانٹ کی چیکنگ کی جاتی ہے کچھ لوگوں نے دیہاتی ایریا میں پانی کے فلٹریشن پلانٹ کی تشہیر کر کے پانی کی فروخت شروع کر رکھی ہے اور معروف کمپنیوں کی بوتلوں میں اور مشروبات کی جعلی بوتلوں کی فروخت بھی جاری رکھی ہوئی ہے پانی کی سطح بتذریج نیچے جا رہی ہے اور شہری علاقوں میں بہتر پانی کا حصول کیلئے ٹیوب ویل لگانے کے لئے بو رنگ کم از کم 450فٹ ہونا چاہیے مگر اس کے لیبارٹری ٹیسٹ بھی ضروری ہے ورلڈ بنک کی روپورٹ کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے صاف پانی کی فراہمی کیلئے اکیلی حکومت کا ہی کام نہیں ہمیں اپنی حالت بدلنے کیلئے آلودگی سے نجات پانے اور صاف پانی کی فراہمی کیلئے قومی جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ماحول کو صاف ستھرا بنانے سمیت اپنے گھروں کے گٹر معیاری بنوانے اور متعلقہ اداروں کو اپنا فرض نیتی سے ادا کرنے اور فلٹریشن پلانٹوں کے فلٹر تبدیل کرانے اور ان کا پانی وقفہ وقفہ کے ساتھ ٹیسٹ کروانے کی جانب توجہ کو یقینی بنائیں اورپانی کا دھندہ کرنے والوں کے پانی کو بھی ٹیسٹ کروانے سمیت ان کو سرئیفکیٹ کا پابند کرائیں باہمی تعاون سے ہی صاف پانی عوام تک پہنچانا ممکن ہے پاکستان ہم سب کا ہے اس کو ہم سب نے ہی آلودگی سے نجات دلانا ہے اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنا ہے اگر ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کیا تو اپنے مستقبل کو تاریک کر دیں گے اور جس قدر ملکی آ بادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس کو بھی مد نظر رکھیں اپنے مستقبل کو گڑھے میں نہ ڈالیں فکر کل کی کریں ابھی سے قومی سوچ لیکر اس مسئلہ پر غورکرنے کا عہد کر لیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :