ُْْقدیم ورثہ بچاؤ

پیر 24 فروری 2020

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

پاکستان میں سیاحت کو فروغ مل رہا ہے مگر دیکھایہ گیا ہے ورثہ کو قائم دائم رکھنے حفاظت نہیں کی جارہی جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتیں ہیں قوموں اپنے ورثہ ثقافت کی امین اور حفا ظت ان کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ ان کا مستقبل ورثہ ثقا فت سے روشناش ہو سکیں مگر جب ورثہ کی حفاظت نہ کی جائے ورثہ بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتاہے۔
 قدیم اسلامی ورثہ خلجی مسجدکی زبوں حالی کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے قدیم اسلامی ورثہ عدم تحفظ کا شکارسلطان جلال الدین خلجی جو کہ خلجی خاندان کے پہلے سلطان تھے ان بازورشمشیردہلی پر قبضہ کیا تھا ،1290 عیسوی سے ان کا دور حکومت شروع ہوا۔

خلجی خاندان کو بھی تعمیرات کرانے کا شوق تھا 700سال قد یم خلجی مسجد جلا لپور کہنہ مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکا رعدم تخفط کی وجہ سے یہ اسلامی ور ثہ ٹو ٹ پھو ٹ کا شکار ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

یہ مسجد قدیم تر ین جلا ل الدین خلجی کی عہد میں در یا ئے چنا ب کے کنا رے پر تعمیر کی گئی تھی اُس وقت لو گ تجارت دریاوں کے ذر یعے کر تے تھے جلا لپور کہنہ جو کہ ز ما نہ قد یم میں تبا ہ ہو کر ز مین بو س ہو گیا تھا جس کے آ ثا ر ایک ٹبہ میں محفوظ ہے۔

700سال قدیم مسجد کی درو دیوار ا تنے مضبوط ہیں اُس دور کے ما ہر ین کی مہارت اور فن تعمیر کا نمو نہ ہے یہ مسجد اس وقت ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا ر ہیں اس طر ف کو ئی تو جہ نہ دی گئی تو یہ قدیم ورثہ ختم ہو جا ئے گا۔
 کچھ سال قبل حکومت پنجاب نے دی نیوز اورجنگ میں میری رپورٹ صدیوں سے مسجد میں اذان کی آوازہیں سنی نہیں گئی اور قدیم ترین اسلامی ورثہ عدم تحفظ کا شکار ہے اس کوبچانے کی اپیل کی گئی تو مشرف دور حکومت میں اس خبر پر ایکشن لیتے ہوئے 13لا کھ رو پے کی رقم مختص کی گئی اس منصوبہ کو محکمہ اوقاف کے ذر یعے تعمیر و مر مت کر ا ئی اس مسجد کے اصل خد و خال کو ضا ئع کردیاگیا ۔

میڈیا کے ذریعے منصوبہ شروع کرنے سے قبل حکومت کی توجہ اس جانب دلائی گئی یہ منصوبہ آثار قدیمہ کے سپرد کیا جائے تاکہ اس اسلامی ورثہ کی مرمت قدیم ورثہ کے خدوخال کو برقرار رکھتے ہوئے کرائی جائے تاکہ یہ اسلامی ورثہ اپنی اصلی حالت میں قائم ودائم رہ سکے مگر محکمہ اوقاف نے اس اپیل کو نظر انداز کر کے اس کو اپنی مرضی سے مرمت کروا کر حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا اس میں ایک امام مسجد بھی مقر رکر کے اس میں مدرسہ اور کمپیوٹرکی سہولت کا بھی اعلان کیا اور محکمہ آثار قدیمہ کے اس وقت کے ڈاریکٹر نے بھی پیش کش کی تھی مگر ہٹ دھرمی نے اس ورثہ کا حلیہ تبدیل کر کے رکھ دیا اور محکمہ نے جلد ہی اس مسجد سے چھٹکارہ حاصل کر لیا ۔

مسجدکواب جنازہ گاہ کے طور پراستعمال کیا جارہاہے اس اسلامی ورثہ کومسجد ہی ہونا چاہیے تاکہ اذان کی آواز بلندہو سکے اس کواس حال پر نہ چھوڑاجائے اس ورثہ کوضائع نہ کیا جائے فوٹو جرنلسٹ ا یسو سی ایشن تحصیل پنڈی بھٹیاں نے وزیر اعظم عمران خان صاحب اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزوار صاحب سے ا پیل کی ہے اس اسلا می ورثہ محکمہ آثار قد یمہ پنجاب کی تحو یل میں دیکر اس کے اصل خدو خال کو ا جا گر کر انے کا کام شروع کر و یا جا ئے تا کہ اسلامی ورثہ سیا حوں کو دیکھنے کا موقع مل سکے کیو نکہ اس مسجد کے در دیوار بلڈنگ اصل مو جودہ ہے محکمہ اوقاف نے تعمیر و مر مت کے دوران جو تبد یلی کی ہے اس میں تبد لی لا ئی جا سکتی ہے۔

اس عظیم نادر شا ہکا ر کا تحفظ کا مطا لبہ کر تا ہے یہ گاوں تحصیل پنڈ ی بھٹیاں میں واقع ہے نانک شاہی ہاتھ سے تھپی ہوئی اینٹوں سے کاریگروں نے ڈاٹ کا استعمال کر کے اس چھت پر تین ڈھلوانی گنبذمسجد کے اندر داخل ہونے کیلئے تین محرابی دروازے پانچ پانچ فٹ کی چوڑی دیواریں اس کی قدامت کی عکاسی کرتی ہیں۔ صدیوں بعد بھی عظمت کے ساتھ اس کی عمارت کھڑی ہے اور عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہے اس اسلامی ورثہ کواصلی حالت میں لانے کیلئے آثار قدیمہ کے محکمہ کو فرائض ادا کرنے چاہیں اسلامی ورثہ کی رکھوالی اور اس کی آرائش و تزئیں قدیم طرزکو مد نظر رکھتے ہوئے کرائیں تو یہ اسلامی ورثہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے ترقی یافتہ اقوام اپنے ورثہ کی حفاظت کرتے ہیں پاکستان میں قدیم ورثہ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا مستقبل بھی عہد رفتہ کی عمارتوں کو دیکھ پائے نہ کہ ان کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جائے اور کتب میں ہی دیکھنے کو مل سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :