سوشل میڈیا کے قیدی

پیر 22 مارچ 2021

Riaz Mirza

ریاض مرزا

آج کا دور سوشل میڈیا کا دور سمجھا جاتا ہے ۔ ہر طرف مرد و زن اسکے گرویدہ او ر اسیر نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا زہر ہے جسے آج کا طالب علم ، بزنس مین ، بنکر ، صنعتکار ، سیاستدان ، ڈاکٹر ، ا نجینئر ، وکیل با لعموم اور نوجوان نسل کے نمائندگان با لخصوص بغیر کسی بحث و تمہید کے شہد سمجھ کر اپنے گلے میں انڈیل ر ہے ہیں۔وہ سب گلوبل ویلج کی پرنٹ اور الیکٹرانک دلدل میں گردنوں تک دھنسے ہوئے ہیں۔

جہاں پر وہ بمشکل سانس لے رہے ہیں۔وہ اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں۔ انکے قلوب و اذہان مفلوج ہو چکے ہیں ۔ٴموٴذن کی پکار کانوں پڑی سنا ئی نہیں دیتی۔حتٰی کہ عزت و تکریم والے رشتے بھی آواز دیں تو لگتا ہے کہ جواب دیا تو میٹھے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔اس بے رحم میڈیا کی مثال ایسے ہے۔

(جاری ہے)

جیسے ایک ظالم مکھڑا خوش آمدی او ر مکاری کا جال بْن کر اپنے انجام سے بے خبر معصوم مکھی اور کیڑے مکوڑوں کو جال میں پھنسا لیتا ہے۔

پھر وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں او ر بلآخر مکڑے کی خوراک بن جاتے ہیں ۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ سفّاک اور ظالم سوشل میڈیا نے ہمارے خاندانی اور ملکی نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے؟ہم نے جھوٹ مکروفریب کو سچ سمجھ ایک تاج محل تعمیر کر لیا ہے او ر پھر صبح شام اِس محل پر عقیدت و احترام کی چادر ڈال کر اْس پر گْل پاشی کرتے رہتے ہیں۔نہ صرف خود گرد ِراہ بن رہے ہیں بلکہ دوسروں کو روایت پسندی ، رجعت پسندی ، دقیہ نوسی ، کم علمی ، آؤٹ آف فیشن ، پست ذہن اور ٹھیکیداری کا طعنہ دے کر اپنے آقاؤں کے دجالی قافلے میں شامل کر رہے ہیں اور ایک انجانی منزل کیطرف دیوانہ وار بھاگے جارہے ہیں۔


کسی زمانے میں گھمسان کی جنگ ہوا کرتی تھی۔دو حریف گروپ یا قبائل آمنے سامنے آتے تھے اور پھر میدان لگ جاتا تھا۔ماں بچوں سے بچھڑ جاتی تھی ، بچے والدین سے جد ا ہو جاتے تھے ۔گر د و غبار آسمان کو چھوتے۔خون کی ندیاں بہہ جاتی۔چیخ وپکار سے دل دہل جاتے۔بے گوروکفن لاشے چیل اور کوّے کھا جاتے۔آج کا سوشل میڈیا اْس گھمسان کی جنگ سے بھی زیادہ بھیانک اور تباہ کن ہے۔

انٹرنٹ کا دور شروع ہوا تو پلک جھپکتے ہی ہم نے فیس بک ، وٹس ایپ ، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کا سفر طے کر لیا ۔ہماری معصوم اور انجام سے نابلد نوجوان نسل نے اس میڈیا کو تو اوڑھنا بچھونا ہی بنا لیا ۔پھر چشم ِفلک نے دیکھا کہ ٹک ٹاکرز نے فحاشی او ر عریانی کا بازار گرم کر دیا ۔عزت دار گھرانوں کے بچے جو کے کبھی ایکٹنگ کرنے سے نفرت کرتے تھے غیر محسوس انداز میں آج اپنی ذات کی تشہیر او ر خود نمائی کے لئے ٹک ٹاکرز بن گے۔

کوئی نہیں جانتا کہ آپ کے سامنے کلپ میں پرفارم کرنے والے کا تعلق کس جاہ و حشمت اور اعلٰی حسب نسب رکھنے والے مذہبی گھرانے سے ہے۔خاندانی وجاہت تو بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے۔ہمیں جی بس لائیکس ملنے چاہیے۔لوگ ہمیں فالو کریں او ر ملین میں ہمارے سبسکرائبرز ہوں۔ان ٹک ٹاکرز میں تو بعض باریش بھی ہیں اور سر پر ٹوپی ہے۔
عزتوں کی دھجیاں اْڑا کر ہم نے شہرت کے بنگلے تو بنا لئے ہیں مگر ہم اْس باپ کی آنکھوں کی بے بسی نہیں دیکھ سکتے جس کی بیٹی ویلنٹائن ڈے پر اپنے کلاس فیلوز کے سامنے اپنے میل کلاس فیلو کو پھول پیش کرتی ہے اور فرحت ِ جذبات میں اْسے گلے لگا لیتی ہے۔

اس کے دیگر درجنوں کلاس فیلوز ویڈیوز بناتے ہیں اور اگلے لمحے اپنے فیس بک کے فرینڈز کو ٹیگ کر دیتے ہیں چند لمحات میں ملک کے طول و عرض میں یہ کلپس وائرل ہو جاتے ہیں۔ماں شرم سے بند کمرے میں خود ساختہ قید اختیار کر لیتی ہے جبکہ باپ بازا ر میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اْس ماں کا کرب کوئی نہیں سمجھ سکتا جس کی بیٹی ایک ٹیک ٹاکر تھی اور غیرت کے نام پر اْسے سربازار دوستوں سمیت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔

اْسکی ماں جیتے جی قبر میں اْتر گئی ۔ دل پر پتھر رکھ کر لوگوں کو بتاتی ہے کہ ہم نے اِسکو عاق کیا ہو ا تھا۔کتنے ہی ٹک ٹاکرز ایسے ہیں جو محض شہرت کے حصول کے لئے موت کی آغوش میں چلے گے۔کوئی ندی میں ڈوب گیا تو کوئی ٹرین کے ساتھ ٹکرا کر خون آلود ہو ا۔کیا یہ وہ نوجوان ہیں جن کو علامہ اقبال شاہین ، مرد قلند ر اور مرد حْر کہہ کر پکارتے تھے ؟ حکومت ِوقت نے تو ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی ہے مگر من حیث القوم ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کی راہنمائی کریں اور انکو درست سمت گامزن کریں ورنہ سوشل میڈیا کے یہ قیدی ایک ایک کر موت کی گھاٹ اْتار دیئے جائیں گے ۔

ہم رات کے اندھیروں میں ان کو کسی ویران قبرستان میں دفناتے جائیں گے اور دن کے اجالے میں اُنکی شناخت سے انکار کر دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :