نئی سرد جنگ کا امکان اور امن عالم پر طائرانہ نظر

جمعرات 24 جون 2021

Riaz Mirza

ریاض مرزا

آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم نئی سرد جنگ کے امکانات اور آنے والے دنوں پر ا ن کے اثرات کا عمیق جائزہ لیں۔ روس ، چین اور امریکہ کے مواقف کی بنیاد پر عالمی سطح پر ابھرنے والے سوالات کے جوابات بھی تلاش کریں ۔ہم اس بات کا بغور مطالعہ کریں کہ جنوبی ایشاء میں نئی سرد جنگ کے بیج کون بو رہا ہے؟کیا ہم تیسری عالمگیر جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟کیا یہ جنگ نیو کلئیر پاورز ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، اقتصادیات یا بیالوجیکل وار کا شاخسانہ ہو گی؟کیا گلوبل ویلج پر ایٹم بم کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں؟ جس سے نفسیاتی او ر ذہنی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

ہم ہر لمحہ بریکینگ نیوز کے منتظر کیو ں رہتے ہیں؟کیا طاغوتی طاقتیں ’خوف ‘ کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہیں؟کیا ہم آگ کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں کہ ہوا کے ایک جھونکے سے آگ بھڑک اٹھے گی جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

(جاری ہے)

کیا امن عالم تبائی اور بربادی کے دھانے تک پہنچ چکا ہے؟کیا جنوبی ایشاء کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گا؟کیا عالمی مکھڑے ایک دفعہ پھر جال بننے میں مصروف ہو گے ہیں؟ سٹریٹیجک پلاننگ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ جب ناگفتہ بہ حالات کا سامنا ہو تو پھر مکمل منصوبہ بندی کے تحت اپنی طاقت اور استعداد کو بڑھائیں او ر ہر طرح کے نامساعد حالات کے مقابلہ کے لئے ہر شعبہ ہائے زندگی کو تقویت بخشیں۔


تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سرد جنگ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے بیچ استوار ہونے والے رشتے کی نوعیت کیلئے استعمال کرتے تھے۔سردجنگ نے عالمی سیاست کو کئی دہائیوں تک متاثر کیئے رکھا اور اسکی وجہ سے بہت سے عالمی بحرانوں نے جنم لیا۔جن میں سے کچھ کیوبا کا میزائل بحران ویتنام ہنگری اور دیوار برلن کا بحران ہیں۔

سب سے بڑا بحران بڑے پیمانے پر تبائی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ تھا۔سرد جنگ کی بنیادی نظریاتی تضاد سرمایہ داریت اور اشتمالیت تھی۔امریکہ اور سویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع ، تناؤ اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔اس پورے عرصے میں یہ د و قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحا د ، نظریات ، نفسیات ، جاسوسی ، عسکری قوت ، صنعت ، تکنیکی ترقی ، خلائی دوڑ ، دفاع پر کثیر اخراجات ، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔

ا مریکہ اور سویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن بعد از جنگ تعمیر نو کے حوالے سے ان کے نظریات بالکل جدا تھے۔چند دہائیوں میں سرد جنگ یورپ اور پوری دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی۔
آج حالات میں تغیر و تبدل آ چکا ہے ۔عالمی منظر نامے میں نئی سرد جنگ کے امکانات میں امریکہ ، روس ، چین ، بھارت اور پاکستان نمایاں نظر آرہے ہیں۔

سابق امریکن صدر ڈونالڈٹرمپ نے آن ریکارڈ کورونا کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے کر عالمی سطح پر چین مخالف جذبات کو ہوا دینے کی بھی کوشش کی۔امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کو بھی صدارت کا منصب سنبھالتے ہی سفارتی سطح پر چین سے الجھنا پڑ گیا ، تائیوان کی گستاخیوں پر چین کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم بڑی سنجیدگی سے تائیوان میں آزادی کی خواہش رکھنے والی قوتوں پر واضع کر دینا چاہتے ہیں کہ تائیوان میں آزادی کا مطلب چین سے کھلی جنگ سمجھا جائے گا۔

اپنے ردعمل میں جوبائیڈن نے چین کے بیان کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔چین میں کینیڈا کے سفارتخانے نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے حالیہ سفارتی بدمزگی پر معذرت کا اظہار کیا ، دونوں ممالک کے مابین صورتحال کشیدہ کرنے کی وجہ چینی میڈیا میں یہ خبریں بنیں کہ کینیڈا کے سفارتی عملے کے کچھ ممبرز نے ایسی ٹی شرٹس آرڈر کی ہیں جن میں چینی علاقہ ووہان کا نام اور چمگادرڑ کی شبہیہ کنندہ ہیں ، ووہان چین کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے کورونا وباء پھوٹی اور اس کی وجہ مبینہ طور پر چمگادرڑ کے گوشت کو سمجھا جاتا ہے ، چین نے یہ ناپسندیدہ واقعہ منظر پر آنے کے بعد کینیڈا سے شدید احتجاج کیا۔

روس نے نئی سرد جنگ کے خدشات پر کہا ہے کہ ” ہم ہمیشہ بہترین کی امید رکھتے ہیں لیکن کسی بدتر حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں“۔چین کے صد ر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”چھوٹے گروہ بنانا یا نئی سرد جنگ شروع کرنا ، مسترد کرنا یا دوسروں کو دھمکانا یہ دنیا کو تقسیم کرنے کا باعث بنیں گی“چین کے صدر نے دنیا میں آزادانہ تجارت کی حمایت کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں کو نئی سرد جنگ شروع کرنے سے خبردار کیا ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ” ایشیا میں نئی سرد جنگ کے بیج بوئے جارہے ہیں ، خطے میں استحکام کیلئے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کا حل ضروری ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :