انسداد خودکشی اور ذرائع ابلاغ کا کردار

ہفتہ 10 اپریل 2021

Riaz Mirza

ریاض مرزا

آئے روز ہماری سماعتوں سے یہ بازگشت ٹکراتی ہے کہ کسی شہر گاؤں میں ویران کمرے میں لٹکتی ہوئی لاش ملی ہے بعدازاں شواہد سے حقیقت آشکار ہ ہو تی ہے کہ کسی نے خود کشی کرکے اپنی انمول زند گی کا خاتمہ کر لیا ۔ کسی عورت نے گھریلو ناچاکی ، مزدور نے بیروزگاری ، طالبعلم نے امتحان میں ناکامی اور دوشیزہ نے پسند کی شادی نہ ہونے کی و جہ سے موت کو گلے لگا لیا۔

لیکن ان سارے واقعات میں جو اذیت ناک اور خطرناک پہلو سامنے آرہا ہے وہ یہ ہے کہ خودکشی کرنے والا خو د کو تو مار رہا ہے سا تھ ہی ساتھ وہ دوسروں کو بھی موت کی بھٹی کا ایندھن بنا رہا ہے ۔جیسے ایک خود کشی کرنے والے شخص نے بیروزگاری اور ناگفتہ بہ حالات سے تنگ آکر سب سے پہلے بیوی کو قتل کیا پھر معصوم بچوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔

(جاری ہے)

جن کا کوئی قصور نہیں تھا ۔

افسوس جس بیوی کے لئے اسے تحفظ کی چادر اور بچوں کے لئے سر کا سایہ بننا تھا انکو خود اپنے ہاتھوں سے خون آلود کر دیا۔ ایک اور واقعہ میں عورت نے خودکشی سے پہلے بچوں کو ندی میں پھینکا اور پھر خود ندی میں چھلانگ لگا دی۔ ڈپریشن کا شکار ہو نا، خود کشی پر اکسانا یا راغب ہو نا ، ناقابل برداشت پچھتاوا ، گہرا صدمہ ، ناقابل تلافی نقصان اور اذیت پسندی خودکشی کا موجب بن سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر اذیت پسندی نفسیات کی رو سے پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے۔اس قسم کا ذہنی مریض خو د اذیتی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ایذا پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا۔اس کا یہ گھناؤنا فعل موت کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک نفسیاتی آدمی ایک پاگل آدمی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیوں کے پاگل کا تو پتہ ہوتا ہے کہ وہ نقصان دیگا لہذا اس سے بچاؤ کی پیشگی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔

مگر ایک بظا ہر صحت مند نظر آنے والا نفسیاتی مریض اچانک ایسا حملہ یا نقصان کرے گا کہ جو ہمارے وہم و گما ن میں بھی نہیں ہو گا ۔ منشیات او ر الکوحل کے عادی افراد میں خود کشی کا رحجانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔حال ہی میں ریسرچ سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا میں کچھ اداکار ایسے ہیں کہ جنہوں نے خود کشی کی او ر تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ نشے کی علت کا شکار ہو کر دھیرے دھیرے در د ناک انجام کی طرف بڑھتے رہے او ر ایک خاص نہج پر پہنچنے کے بعد نشے کی اس عادت کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انکی بے وقت موت کے بعد خودکشی کو قتل کا رنگ دیا گیا مگر بلآخر یہ نتیجہ نکلا کہ وہ نشے کے عادی تھے۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ہمارے دماغ میں ڈوپامین کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو کہ ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے اس مادے کی کمی بھی مایوسی اور ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔اگر کوئی مایوسی کی باتیں کرے تو چوکنا ہو جانا چاہیے کہ وہ کچھ کرنے والا ہے۔

انسانی زندگی میں ہر لمحہ تغیر و تبدل آتا رہتا ہے۔ اور اسی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بعض اوقات ایسے حادثات رونما ہو جاتے ہیں کہ ان کے اثرات آنے والی نسلوں تک برقرا ر رہتے ہیں۔ بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
 حاد ثہ ایک د م نہیں ہوتا
خودکشی رو ز افزوں پھیلتی ہوئی ایک عالمی وبا ہے ۔ حال ہی میں انڈیا راجھستان سے تعلق رکھنے والی عائشہ مکرانی نے سابر متی ندی میں کودنے سے پہلے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’ ’ میں دعا کروں گی کہ مجھے دوبارہ کبھی انسانوں کا چہر ہ نہ دیکھنا پڑے“ اس کی خودکشی گھریلو ناچاکی کا شاخسانہ تھی ۔

اسکے خاوند کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور آخری خبریں آنے تک تفتیش جاری ہے۔بالی و ڈ اداکار ششانت سنگھ راجپوت نے بھی خودکشی کرکے زندگی کا خاتمہ کر لیا۔دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لئے کام کرنے والے عالمی ادارے کا نام آئی ا ے ایس پی(انٹر نیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پر یو نشن) ہے۔ خود کشی سے بچاؤ کے لئے اکھٹے کام کرنا اور تمام دنیا کے لوگوں کو منٹل ہیلتھ کا شعور اجاگر کرنا اس کے اہم مقاصد او ر نصب العین میں شامل ہے۔

سیمینا رز او ر مباحثوں کا اہتمام کیا جاتا ہے او ر ٹوئٹر کے ذریعے بحث کر کے خود کشی سے بچاؤ کا شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔یکم ستمبر سے 10 اکتوبر 2020 میں ”خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن“ کے سلسلے میں مہم کا آغاز کیا گیا۔گھروں کے باہر خودکشی کے بچاؤ کے لئے شمعیں روشن کی گئیں او ر سوشل میڈیا پر شمع کے ساتھ اپنے فوٹو ٹیگ کئے گے۔ مختلف ممالک میں روشن شمع کے ساتھ حسین مناظر دیکھنے کو ملے۔

درحقیقت روشن شمع روشن زندگی کا استعارہ ہے۔زندگی بہت خوبصورت ہے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہے۔ ماہرین کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوان خودکشی کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں اسلئے انکی حرکات و سکنات پر کڑی نگاہ ر کھنی چاہے۔ خود کشی میں ایک شخص از خود ا پنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے ۔ بظاہر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب او ر اس کے مدمقابل لوگ ناکام نظر آ ر ہے ہوتے ہیں۔

مگر در حقیقت وہ ایک بزدل اور حالات سے بھاگا ہوا شخص ہوتا ہے۔ خود کشی کرنے والا فرد اپنے آپ کو دنیا کا بہادر آدمی سمجھتا ہے جو کے دیدہ دلیری سے اپنی موت کو گلے لگا تا ہے۔ جبکہ دوسر ی طرف وہ دنیا کا ڈرپوک ترین انسان ہوتا ہے جو کے حالات کا مقابلہ نہیں کرتا اور شارٹ کٹ میں موت کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔اسلام میں خودکشی حرام ہے۔یاد رکھیں کہ انسان کا اپنا جسم او ر زندگی اسکی اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کی عطا کرد ہ امانت ہے۔

بلاشبہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے۔ قرآن میں فرمان الہی ہے کہ ِ”اور اپنے ہاتھوں سے خو د کو ہلاکت میں نہ ڈالو او ر بھلائی والے ہو جاؤ۔ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔“(البقرة 2 195:)
حکومت پاکستان کو ذہنی صحت کے لئے جامع او ر واضح پالیسی وضع کرنی چاہے۔ ذہنی امراض کے علاج کے لئے فنڈز اور سہولیات دینا چاہے۔ ساتھ ہی ساتھ مہنگائی کے سیلاب کو بھی روکنا چاہے ۔

جس سے معاشرے میں فرسٹریشن پھیل رہی ہے۔پاکسستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان میں خودکشی کے رحجانات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔انکی خوشحالی او ر ترقی کیلئے ا جتماعی کوششوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ مشترکہ خاندانی نظام کو تقویت اور ررواج دیں کیوں کہ خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور ہو تا ہے جو ہر ایک کی بات سنتا ہے اور مسائل کا حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔

دین اسلام میں بہت سکون او ر اطمینان ہے۔ٹوٹے ہوئے دلوں والے اللہ کا ذکر کیا کریں ۔ مساجد کو آباد کریں ۔ اللہ کریم آپ کے دلوں کو آبا د کرے گا۔یقین کامل رکھیں کے اللہ ہی سب سے بڑا سہارا ہے۔زندگی انمول ہے اسے ضائع نہ کریں۔ فی زمانہ ابلاغ عامہ کمیونی کیشن کا سب بڑ ا ذریعہ ہے جس میں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا استعمال زورشور سے جاری ہے۔

استدعا ہے کہ اگر کوئی آدمی خودکشی کر لے تو اس کو ہیرو بنا کر مت پیش کریں ۔خودکشی کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کریں۔اللہ پاک گلوبل ویلج میں بسنے والے تمام انسانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔وہ لوگ جو خود کشی کرنے کا سوچ رہے ہیں یا خودکشی کرکے بچ گے ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ ایک لمحہ کے لئے یہ ضرور سوچیں کہ آپ نے تو اپنی حالت قابل ر حم بنا لی ہے مگر جو آپ کے رحم و کرم پر ہیں انکا کیا بنے گا ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :