
میری بے چین روح
جمعرات 18 نومبر 2021

ریاض مرزا
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
(جاری ہے)
گزشتہ دنوں ایک شادی کی تقریب میں مجھ ناچیز کو مدعو کیا گیا۔شادی ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔مگر پھر بھی کچھ خاص مہمانوں کی آمد کا انتظار تھا۔ہمارے ٹیبل کیساتھ کم وبیش 12 کرسیاں لگی تھیں۔میرے ساتھ کچھ دور سے آئے ہوئے مہمان اور دیگر عزیزواقارب تشریف فرما تھے۔میرے بالکل پہلو میں پاکستان آرمی کے ایک ریٹائرڈ ملازم چودھری اکبر علی بیٹھے ہوئے تھے جو کہ آجکل جنرل سٹور کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ غوطہ خوری کی آرگنائزیشن بھی چلارہے ہیں۔نہر او ر دریا میں ڈوب جانے والے لوگوں کی لاشیں اور دیگر اشیاء نکالتے ہیں۔ان کے ساتھ کچھ اور پرائیویٹ لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ نیز آرگنائزیشن کے یہ گروپ لیڈر بھی ہیں۔نہایت درویش صفت اور ہمدرد انسان ہیں۔میرا انکے ساتھ ایک روحانی رشتہ بھی ہے۔میرج ہال میں ابھی کھانے میں دیر تھی۔ایسے میں ہم سب باہم دلچسپی کے امور پر بات چیت کرتے رہے۔ چودھری علی اکبر غوطہ خوری کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے۔انھوں نے ایک ایسے واقعہ کا تذکرہ کیا جس نے میری بے چین روح کو اور بھی گھائل کردیا۔ کہنے لگے کہ مقامی علاقے میں دریا کے کنارے ایک عورت کپڑے دھو ررہی تھی اس کے ساتھ ایک تین چار سال کا بیٹا تھا جو کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے کھیل کود میں مشغول تھا۔کھیلتے کھیلتے وہ دریا کیطرف گیا اور دریا کی طغیانی کی وجہ سے ڈوب گیا۔پانی کے بہاؤ کی شدت کی وجہ سے پلک جھپکتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔چودھری اکبر علی کو اطلاع دی گئی کہ ایک بچہ ڈوب گیا ہے۔کہتے ہیں کہ بچے کو ڈوبے 17 گھنٹے ہو چکے تھے۔کوئی آدمی بھی دریا کے منہ زور تھپیڑوں اور طغیانی کی وجہ سے پانی میں اترنے کے لئے تیار نہیں تھا۔علی اکبر کے ہمراہ اسکا ایک ساتھی بھی تھا جو کہ اس ریسکیو ٹاسک کا حصہ تھا۔انھوں نے غوطہ خوری کا مخصوص لباس اور دیگر آلات کو زیب تن کرکے سب سے پہلے اپنے ساتھی کو دریا میں اتارا مگر دریا کے ایک بے رحم ریلے نے چند سیکنڈز میں اس کو بہت دور دھکیل دیا۔جس سے خوف و خطرے کے دبیز بادل منڈلانے لگے۔ ساتھی کی کافی سرچ کے باوجود بچے کا سراغ نہ ملا۔پھر گروپ لیڈر علی اکبرخود اس خونی دریا میں اترا۔جس جگہ بچہ ڈوبا تھا اسکے چند گز کے فاصلے پر ایک بہت بڑا چٹان نما پتھر تھا۔پتھر کے دونو ں اطراف سے پانی گزرتا تھا۔علی اکبر بار بار اس پتھر کے پاس جانے کی کوشش کرتا رہا مگر ہر بار لہروں کی شدت کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھتا رہا پھر کافی پیش ورانہ مہارتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پتھر کے پیچھے جانے میں کامیاب ہو گیا۔وہاں جاکر پتہ چلا کہ پتھرکے عقب میں پانی قدرے ساکن تھا۔غور سے دیکھا توبچہ اسی ساکن پانی میں موجود تھا جبکہ بھپری ہوئی لہریں پتھر کے ساتھ ٹکرا کہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی اور پھر بہت دور جاکر مدغم ہو جاتیں۔وہ کہتے ہیں کہ” جیسے ہی بچے کو اٹھایا تو بچہ میرے ساتھ لپٹ گیا۔مجھے ایسے لگا جیسے وہ زندہ ہو۔پھر فوری طور پر میرے دماغ میں خیال آیا کہ بچے کو ڈوبے تو 17 گھنٹے ہو گے ہیں۔یہ کیسے ہو گیا؟کہ ایک فوت شدہ معصوم بچہ دونو ں بازوں کے ساتھ میرے ساتھ بغلگیر ہو گیا لیکن یہ اللہ کی قدرت کا رنگ تھا کہ اللہ نے یہ عجیب و غریب ناقابل فہم و یقین منظر دیکھایا۔میں آج بھی وہ منظر سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایک فوت شدہ بچہ میرے ساتھ کیسے لپٹ گیا۔ میں نے سینکڑوں ڈوبے ہوئے لوگوں کی لاشیں نکالی ہیں مگر اس نوعیت کا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا“ میں نے جب یہ واقعہ سنا تو فرط جذبات مجھ پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئیں۔اللہ کریم اس معصوم بچے کے طفیل اسکے والدین کو سلامتی اور دائمی صبر سے نوازے۔
کائنات پر غور و فکر سے بات کی شروعات ہوئی تھی۔اس کائنات کے مظاہر،مناظر اور جزائے فطرت میں ہم انسانوں کے لئے حکمت عملی اور ہدایت پوشیدہ ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ انسان قرآن کی تاریخی ،سائنسی اور روحانی جہات پر غور وفکر جاری رکھے۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے مزارات سے روحانی سکون اور فیضان کرم ملتا ہے۔اولیاء کرام کے فیض و کرم کے پھول ہر سو خوشبو بکھیر رہے ہیں۔مختلف مقامات پر اولیاء کرام جہاں پر مراقبہ اور چلہ کشی کرتے رہے ہیں ان مقدس مقامات کو عقیدت مند ”بیٹھک“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔یہ بیٹھکیں جنگل بیابانوں اور اونچے پہاڑوں پر واقع ہیں۔ایسی ہی ایک بیٹھک میرپور آزادکشمیر کے خوبصورت علاقہ پیر پلاک میں واقع ہے۔یہ ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ایک اللہ کے ولی کی چلہ کشی کی جگہ ہے جو کے ایک گہری غار پر مشتمل ہے۔ اس پہاڑ پر پہنچنے کے لئے آبادی سے آدھے گھنٹے کی مسافت پیدل طے کرنی پڑتی ہے۔عقیدت مندوں نے غار کے ساتھ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی ہوئی ہے۔اس غار میں دو آدمی کے لیے جائے نماز ہے۔یہ ایک پختہ غار ہے۔زائرین اور مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ جن والدین کو بچوں کے کسی اچھی جگہ رشتوں کے مسائل درپیش ہوں تو وہ یہاں باوضو عقیدت اور محبت سے آتے ہیں مسجد میں نوافل ادا کرتے ہیں پھر غار میں جا کر نوافل ادا کرتے ہیں۔ اللہ پاک سے اس ولی کامل کے وسیلہ جمیلہ سے دعائیں کرتے ہیں اور منت پوری ہونے پر ادھر آکر لنگر تقسیم کرتے ہیں۔اس ولی اللہ کے بارے میں مقامی لوگوں سے استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ اس غار میں چلہ کشی کے لئے گے تھے اور وہی سے غائب ہو گے ہیں۔آدمی اس جگہ جاکر عشق مستی اور روحانی دنیا میں مستغرق ہو جاتا ہے۔اس پہاڑ پر پہنچنے پر اگر دائیں طرف دیکھا جائے تو پورا منگلا ڈیم پاوں میں نظر آتا ہے اور آدمی قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ریاض مرزا کے کالمز
-
انفارمیشن ٹیکنالوجی تعلیم کا فروغ اور تحقیقی میدان
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
پروفیشنل گرومنگ وقت کی اہم ضرورت
جمعرات 9 دسمبر 2021
-
میری بے چین روح
جمعرات 18 نومبر 2021
-
نئی سرد جنگ کا امکان اور امن عالم پر طائرانہ نظر
جمعرات 24 جون 2021
-
ویلڈن رورل ہیلتھ سنٹر چکسواری
بدھ 16 جون 2021
-
انسداد خودکشی اور ذرائع ابلاغ کا کردار
ہفتہ 10 اپریل 2021
-
سوشل میڈیا کے قیدی
پیر 22 مارچ 2021
-
دعوت فکر و نظر
جمعہ 12 مارچ 2021
ریاض مرزا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.