میری بے چین روح

جمعرات 18 نومبر 2021

Riaz Mirza

ریاض مرزا

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
دماغ کے نہاں گوشوں میں ایک بات اٹک کے رہ گئی ہے کہ کائنات پر غورو فکر کرنے سے کیا مراد ہے؟ جنگل، پہاڑ،میدان،آبشاریں،جھرنے،باغات اور آسمان کی وسعتوں پرنظر دوڑائی، اطمینان قلب میں ٹھہراؤ نہ آیا۔طلاطم خیز موجوں کے شور وشدت میں کمی نہ آئی۔

اچانک ایک لطیف نقطے نے قلبی اضطراب کو سکون قلب میں تبدیل کر دیا۔ماحول میں بلند و بانگ عمارتیں اور ان میں خوش و خرم باسی دیکھے۔خوشحالی اور سہولیات ان کے دروبام سے آشکارہ تھیں۔اب غور و فکر کے در کھلنا شروع ہو گئے۔سوچ کا فقیر سبز لباس پہنے بیدار ہوگیا اور لب کشا ہوا کہ ” اے مادہ پرستی میں گردن تک دھنسے ہوئے انسان ان عمارات ،پلازوں،مارکیٹس اور اونچے ٹاورز کو غور سے دیکھ کہ یہ سب اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

(جاری ہے)

یہ اللہ کریم کی رضا اور منشا کا مظہر ہیں۔ان کا زمین پر قائم رہنا اللہ پاک کے اذن سے ہی تو ہے“ مجھے ہر طرف اللہ جلاشانہ کی نشانیاں نظر آنے لگی ۔بیشک اللہ پاک لائق تعریف و عبادت ہے اور زمین و آسمان میں موجود ساری چیزیں اسکی تسبیح و پاکی بیان کرتی ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک شادی کی تقریب میں مجھ ناچیز کو مدعو کیا گیا۔شادی ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

مگر پھر بھی کچھ خاص مہمانوں کی آمد کا انتظار تھا۔ہمارے ٹیبل کیساتھ کم وبیش 12 کرسیاں لگی تھیں۔میرے ساتھ کچھ دور سے آئے ہوئے مہمان اور دیگر عزیزواقارب تشریف فرما تھے۔میرے بالکل پہلو میں پاکستان آرمی کے ایک ریٹائرڈ ملازم چودھری اکبر علی بیٹھے ہوئے تھے جو کہ آجکل جنرل سٹور کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ غوطہ خوری کی آرگنائزیشن بھی چلارہے ہیں۔

نہر او ر دریا میں ڈوب جانے والے لوگوں کی لاشیں اور دیگر اشیاء نکالتے ہیں۔ان کے ساتھ کچھ اور پرائیویٹ لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ نیز آرگنائزیشن کے یہ گروپ لیڈر بھی ہیں۔نہایت درویش صفت اور ہمدرد انسان ہیں۔میرا انکے ساتھ ایک روحانی رشتہ بھی ہے۔میرج ہال میں ابھی کھانے میں دیر تھی۔ایسے میں ہم سب باہم دلچسپی کے امور پر بات چیت کرتے رہے۔ چودھری علی اکبر غوطہ خوری کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے۔

انھوں نے ایک ایسے واقعہ کا تذکرہ کیا جس نے میری بے چین روح کو اور بھی گھائل کردیا۔ کہنے لگے کہ مقامی علاقے میں دریا کے کنارے ایک عورت کپڑے دھو ررہی تھی اس کے ساتھ ایک تین چار سال کا بیٹا تھا جو کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے کھیل کود میں مشغول تھا۔کھیلتے کھیلتے وہ دریا کیطرف گیا اور دریا کی طغیانی کی وجہ سے ڈوب گیا۔پانی کے بہاؤ کی شدت کی وجہ سے پلک جھپکتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

چودھری اکبر علی کو اطلاع دی گئی کہ ایک بچہ ڈوب گیا ہے۔کہتے ہیں کہ بچے کو ڈوبے 17 گھنٹے ہو چکے تھے۔کوئی آدمی بھی دریا کے منہ زور تھپیڑوں اور طغیانی کی وجہ سے پانی میں اترنے کے لئے تیار نہیں تھا۔علی اکبر کے ہمراہ اسکا ایک ساتھی بھی تھا جو کہ اس ریسکیو ٹاسک کا حصہ تھا۔انھوں نے غوطہ خوری کا مخصوص لباس اور دیگر آلات کو زیب تن کرکے سب سے پہلے اپنے ساتھی کو دریا میں اتارا مگر دریا کے ایک بے رحم ریلے نے چند سیکنڈز میں اس کو بہت دور دھکیل دیا۔

جس سے خوف و خطرے کے دبیز بادل منڈلانے لگے۔ ساتھی کی کافی سرچ کے باوجود بچے کا سراغ نہ ملا۔پھر گروپ لیڈر علی اکبرخود اس خونی دریا میں اترا۔جس جگہ بچہ ڈوبا تھا اسکے چند گز کے فاصلے پر ایک بہت بڑا چٹان نما پتھر تھا۔پتھر کے دونو ں اطراف سے پانی گزرتا تھا۔علی اکبر بار بار اس پتھر کے پاس جانے کی کوشش کرتا رہا مگر ہر بار لہروں کی شدت کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھتا رہا پھر کافی پیش ورانہ مہارتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پتھر کے پیچھے جانے میں کامیاب ہو گیا۔

وہاں جاکر پتہ چلا کہ پتھرکے عقب میں پانی قدرے ساکن تھا۔غور سے دیکھا توبچہ اسی ساکن پانی میں موجود تھا جبکہ بھپری ہوئی لہریں پتھر کے ساتھ ٹکرا کہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی اور پھر بہت دور جاکر مدغم ہو جاتیں۔وہ کہتے ہیں کہ” جیسے ہی بچے کو اٹھایا تو بچہ میرے ساتھ لپٹ گیا۔مجھے ایسے لگا جیسے وہ زندہ ہو۔پھر فوری طور پر میرے دماغ میں خیال آیا کہ بچے کو ڈوبے تو 17 گھنٹے ہو گے ہیں۔

یہ کیسے ہو گیا؟کہ ایک فوت شدہ معصوم بچہ دونو ں بازوں کے ساتھ میرے ساتھ بغلگیر ہو گیا لیکن یہ اللہ کی قدرت کا رنگ تھا کہ اللہ نے یہ عجیب و غریب ناقابل فہم و یقین منظر دیکھایا۔میں آج بھی وہ منظر سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایک فوت شدہ بچہ میرے ساتھ کیسے لپٹ گیا۔ میں نے سینکڑوں ڈوبے ہوئے لوگوں کی لاشیں نکالی ہیں مگر اس نوعیت کا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا“ میں نے جب یہ واقعہ سنا تو فرط جذبات مجھ پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئیں۔

اللہ کریم اس معصوم بچے کے طفیل اسکے والدین کو سلامتی اور دائمی صبر سے نوازے۔
کائنات پر غور و فکر سے بات کی شروعات ہوئی تھی۔اس کائنات کے مظاہر،مناظر اور جزائے فطرت میں ہم انسانوں کے لئے حکمت عملی اور ہدایت پوشیدہ ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ انسان قرآن کی تاریخی ،سائنسی اور روحانی جہات پر غور وفکر جاری رکھے۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے مزارات سے روحانی سکون اور فیضان کرم ملتا ہے۔

اولیاء کرام کے فیض و کرم کے پھول ہر سو خوشبو بکھیر رہے ہیں۔مختلف مقامات پر اولیاء کرام جہاں پر مراقبہ اور چلہ کشی کرتے رہے ہیں ان مقدس مقامات کو عقیدت مند ”بیٹھک“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔یہ بیٹھکیں جنگل بیابانوں اور اونچے پہاڑوں پر واقع ہیں۔ایسی ہی ایک بیٹھک میرپور آزادکشمیر کے خوبصورت علاقہ پیر پلاک میں واقع ہے۔یہ ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ایک اللہ کے ولی کی چلہ کشی کی جگہ ہے جو کے ایک گہری غار پر مشتمل ہے۔

اس پہاڑ پر پہنچنے کے لئے آبادی سے آدھے گھنٹے کی مسافت پیدل طے کرنی پڑتی ہے۔عقیدت مندوں نے غار کے ساتھ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی ہوئی ہے۔اس غار میں دو آدمی کے لیے جائے نماز ہے۔یہ ایک پختہ غار ہے۔زائرین اور مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ جن والدین کو بچوں کے کسی اچھی جگہ رشتوں کے مسائل درپیش ہوں تو وہ یہاں باوضو عقیدت اور محبت سے آتے ہیں مسجد میں نوافل ادا کرتے ہیں پھر غار میں جا کر نوافل ادا کرتے ہیں۔

اللہ پاک سے اس ولی کامل کے وسیلہ جمیلہ سے دعائیں کرتے ہیں اور منت پوری ہونے پر ادھر آکر لنگر تقسیم کرتے ہیں۔اس ولی اللہ کے بارے میں مقامی لوگوں سے استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ اس غار میں چلہ کشی کے لئے گے تھے اور وہی سے غائب ہو گے ہیں۔آدمی اس جگہ جاکر عشق مستی اور روحانی دنیا میں مستغرق ہو جاتا ہے۔اس پہاڑ پر پہنچنے پر اگر دائیں طرف دیکھا جائے تو پورا منگلا ڈیم پاوں میں نظر آتا ہے اور آدمی قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :