
دوپٹہ عورت پہ ظلم ہے
منگل 9 مارچ 2021

رومانہ گوندل
(جاری ہے)
اتنا زور دینے کی وجہ شاید یہی ہے کہ اس معا ملے میں ذیادتی ہو جانے کے امکانات بہت ذیادہ ہوتے ہیں۔مرد کو جسمانی طور پہ مضبوط بنایا گیا اور انسانی فطرت ہے کہ طاقتور کمزور پہ ظلم کر لیتا ہے۔
پاکستانیوں نے بر صیغر میں ایک لمبا عرصہ ہندوؤں کے ساتھ گزرا جس کی وجہ سے ہمارے کلچر کی کئی چیزیں اور رسومات ان کے کلچر سے شامل ہو گئی ۔ اس کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو وہ حقوق اور تحفظ نہیں مل سکا جو اسلام دیتا ہے اس لیے آئے روز عورتوں پہ تشدد، زندہ جلا دینے کی، سڑکوں پہ ہراس کیے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایسے میں عورتوں کے حقوق پہ بات کی جانی چاہیے اور صرف بات نہیں اس پہ مضبوط قوانین بننے چاہیے۔ یہ عورت مارچ بھی اسی سلسلے میں ہوتا ہے لیکن اس عورت مارچ اور اس پہ لگنے والے نعرے سمجھ سے باہر ہیں کہ یہ معاشرہ بچانے کی کوشش ہے یا تباہ کرنے کی۔ کیونکہ اگر ان پہ عمل ہونے لگے تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ میرا جسم میری مرضی پہ تو یہ جواز دیا گیا کہ ہر بندہ اپنے دماغ سے سوچتا ہے اس لیے اس کو غلط سمجھا گیا۔ لیکن ایک اسلامی معاشرے میں اس بات کا کیا جواز بنتا ہے کہ اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پہ باندھ لو ۔ نظریں اپنی گندی ہیں اور پردہ مجھے کرواتے ہو۔ مرد کو نظر جھکا کے چلنا چاہیے اس میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی لیکن کیا مرد کا نظر جھکا نے کے حکم پہ عمل کر لینا عورت کو دوپٹے سے آزادی دے دیتا ہے۔ ایک افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ آج کل فیشن کے نام پہ دوپٹے اتر گئے ہیں لیکن اس طرح کے نعرے لے کے سڑکوں پہ نکل پڑنا ایک اسلامی معاشرے اور اس کی اقدار کے قتل کے برابر ہے۔
لیکن میذیا کے اس دور میں باہر سے فنڈ لے کے عجیب و غریب نعرے لے کے خواتین سڑک پہ آ جاتی ہیں پھر اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایک غلط نعرے کے جواب میں گالی دے دی جاتی ہے اور عوام اگلے کئی ماہ اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ انہیں کس کو سپورٹ کر نا ہے۔ اس ساری بحث میں وہ پستی ہوئی خواتین کے حقوق اور ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کہیں گم ہو گئی ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی اصل مظلوم عورت تو وہ ہے جس کو معلوم ہی نہیں کہ اس کے کو ئی حقوق ہیں یا اسے آواز اٹھانی کیسے ہے ؟ جو خواتین عورت مارچ میں نکلتی ہیں ان کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ دوپٹہ اس وقت عورت پہ ہونے والا سب سے بڑا ظلم ہے ۔ اس لیے عورت کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ مکمل طور پہ مغرب کے کلچر میں ڈھل جائے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم ہندو کلچر کے داغ کو مغربی کلچر کے سے پینٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے یہ کہ ہمارے معاشرے کو لیڈ کرنے والے لوگ اپنے کلچر سے ہی بیزار ہیں وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ ہمیں دنیا میں سر اٹھا کے چلنا ہے تو اپنی اقدار کو بچانا پڑے گا۔
خواب ہو جاؤ گئے افسانوں میں ڈھل جاؤ گئے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گئے تو پھسل جاؤ گئے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رومانہ گوندل کے کالمز
-
عورت محفوظ نہیں
بدھ 25 اگست 2021
-
یہ صرف ایک خبر نہیں تھی
پیر 16 اگست 2021
-
فرعونیت غرق کر دیتی ہے
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
خواب زندہ رہتے ہیں
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
ہم غیر جانبدار ہیں
جمعرات 8 جولائی 2021
-
اختتامِ رمضان
پیر 10 مئی 2021
-
روزے چھوڑیں، ثواب کمائیں
جمعہ 7 مئی 2021
-
بس تھوڑی سی برداشت
منگل 4 مئی 2021
رومانہ گوندل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.