والدین بھی ذمہ دار ہیں

ہفتہ 13 مارچ 2021

Romana Gondal

رومانہ گوندل

آج سے کچھ سال پہلے ملک میں کافی حد تک سکون تھا لیکن جب سے پرائیویٹ چینل کے ساتھ میڈیا کی آزادی کا نعرہ لگا ہے خاص کار جب سے لوگوں کو یو ٹیوب چینل سے پیسے کمانے کا ہنر آیا ہے۔ عجیب سی افرا تفری پھیل گئی ہے ۔ کو ئی واقعہ ہو جائے ایک طوفان آجاتا ہے ہر کوئی اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے مرچ مصالحہ لگا کے پیش کرتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کسی کی عزت، کسی کی زندگی پہ کیا اثرات آئیں گئے ۔

اس پیسے کمانے کے چکر میں با حیثیت معاشرہ ہم اخلاقی طور پہ دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ موٹر وے کیس ہو یا ایک لڑکی کی لاش ہسپتال سے ملے۔ میڈیا والے اسے اس حد تک اچھالتے ہیں کہ انصاف مانگنے والا ہاتھ جوڑ کے معافی مانگنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انصاف تو نہیں ملتا البتہ مانگنے والے کی باقی زندگی مشکل ضرور ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

جس ملک میں بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر سر عام قتل ہوتی ہیں اور ان کی پارٹی کے پا نچ سالہ دورہ حکومت میں ان کے قاتل پکڑے نہیں جاتے تو وہاں ایک عام شہر ی کو انصاف نہ ملنا حیرت کی بات نہیں۔

مظلوم پولیس اسٹیشن سے عدالت اور میڈیا تک ذلیل ہونے کے بعد خاموشی اختیار کرنے پہ ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ ایسے میں یہ امید کہ قانون کی گرفت مجرم کو روک سکتی ہے ایک خوبصورت خواب سے ذیادہ کچھ نہیں لگتا ۔
حالیہ واقعہ کے بعد کو ایجو کیشن کو سوشل میڈیا پہ بہت نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک اسلامی ملک میں کو ایجوکیشن نہ ہو تو بہت ا چھی بات ہے ۔

لیکن الگ الگ یونیورسٹیز بنانے کے لیے جو وسائل چاہیے بد قسمتی سے ہمارے پاس نہیں ہے اس لیے مجبورا کو ایجو کیشن میں جانا پڑے گا لیکن ایک واقعہ ایسا ہو جانے کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ بالکل اندھیر نگری ہے۔ یو نیورسٹیز سے نکلنے والے لاکھوں طلبہ و طالبات بہت با عزت طریقے سے فارغ التحیصل ہوتے ہیں ۔ لیکن حالیہ واقعہ کے بعد یونیورسٹی اور ہاسٹل کو اس حد تک نشانہ بنا یا گیا ہے کہ اور کوئی اثر ہوا یا نہیں بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں ضرور آ نے لگیں گی جو کہ ایسے مسائل کا حل نہیں ہے۔


 ایسے واقعات کی ذمہ داری صرف تعلیمی ادارے اور معاشر ے پہ نہیں ہے ۔ والدین کی لا پرواہی بھی شامل ہے۔ بلکہ اس دور میں کئی مسئلوں کی جڑ ہی والدین اور بچوں میں دوری ہے۔ بچے آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پہ کہاں نکل جاتے ہیں والدین کو اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ والدین حد اور مصروفیت کے نام پہ ایک ایسی دیوار بنا لیتے ہیں کہ انہیں خبر تب ہوتی ہے جب بچے کی خون میں لت پت لاش گھر کی دہلیز پہ پڑی ہوتی ہے ۔

اپنے بچوں اور معاشرے کو بچانے کے لیے والدین کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔ بچے کو وقت دیں اس سے بات کریں اسے اجازت دیں کہ وہ اپنے خیالات دوستوں کی طرح بتائے۔ آپ کو اندازہ ہو کے بچے کی سوچ کس طرف جا رہی ہے تا کہ اس کی رہنمائی کی جا سکے کیونکہ کوئی بھی انسان ایک لمحے میں غلطی نہیں کرتا اس کے پیچھے ایک لمبی بغاوت ہوتی ہے لیکن والدین کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ بچہ خاموشی سے سوچ کی کتنی حدیں پار کر گیا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ بچے کو اتنا اعتماد دیں کہ اگر کوئی غلطی ہو بھی جاتی ہے تو کہیں اور جانے کے بجائے والدین سے بات کر سکیں اس سے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گئے۔ ان کی عزت کی دھجیاں اڑا کے یو ٹیوبر ز کو پیسے کمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ جن اعمال کے بعد آپ کو تکلیف اٹھانی ہے بہتر ہے کہ پہلے ہی اپنی ذمہ داری کو محسوس کر یں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :