قمری کیلنڈر یا روئیت ہلال کمیٹی

پیر 3 جون 2019

Saad Iftikhar

سعد افتخار

ہم اپنے روز مرہ کے کام کاج کیلئے انگریزی کیلنڈراستعمال کرتے ہیں ،مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک مسلم قوم ہیں اور ایک اسلامی ریاست کے باشندے ہیں اس لئے ہم اپنی زندگی میں اسلامی کیلنڈر کا استعمال بھی کرتے ہیں ،خاص اسلامی ماہ میں عبادت و ریاضت معمول سے زیادہ کرتے ہیں ،کسی مہینے روزے رکھتے ہیں تو کسی مہینے صدقہ و خیرات کرتے ہیں ۔ کسی مہینے عید کی خوشیاں مناتے ہیں اور کسی مہینے اپنے بڑوں کے غم میں محافل بھی سجھاتے ہیں ۔

الغرض سارے کا سارا اسلامی سال ہی ہمارے لئے خاص ہے،ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے انگریزی کیلنڈر سے بڑھ کر اسلامی کیلنڈر اہمیت رکھتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی کیلنڈر بنایا کس بنیاد پر جاتا ہے ؟اسلامی کیلنڈر چاند کی نقل و حرکت دیکھ کر بنایا جاتا ہے ،جسے ہم قمری کیلنڈر بھی کہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اسلامی سال میں بھی بارہ ماہ ہی ہوتے ہیں ،سال محرم سے شروع ہوتا ہے اور ذوالحج پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔

قمری ماہ کبھی 29دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30دن کا ،چاند اگر زمین کے گرد اپنا چکر 29دن میں پورا کر لے تو قمری ماہ 29دن کا اور اگر 30دن میں پورا کرے تو مہینہ 30دن کا ہوگا ۔
علمِ فلکیات کے ماہر سائنسدان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ چاند کب 29دن میں اپنا چکر پورا کرتا ہے اور کب 30دن میں ۔اس حساب سے وہ قمری کیلنڈر تشکیل دیتے ہیں۔اور اس میں سائنسی بنیادوں پر کمی کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ چاند ، سورج ، تارے یہ سب کے سب مظاہر قدرت ہیں اور اپنی نقل و حرکت میں اپنے بنانے والے کے پابند ہیں نہ کہ اپنی مرضی کے۔

اور اللہ رب العزت نے جسکا جو مدار مقرر کر دیا وہ اسی مدار میں اسی رفتار کے ساتھ گردش کرے گا ،غلطی کا سوچنا بھی کفر تک لے جا تا ہے ۔
ایک چھوٹی سی مثال سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کبھی کسی نے دیکھا کہ سورج یا چاند کبھی اپنے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے طلوع ہوئے ہوں یا کبھی ایک گھنٹے کی تاخیر سے غروب ہوئے ہوں ؟اس کائنات میں کئی سیارے ہیں جو اپنے اپنے خاص مدار میں گردش کر رہے ہیں کبھی سنا ہو یا دیکھا ہو کہ آج ایک سیارہ دوسرے سیارے سے ٹکرا گیا یا ٹکراتے ٹکراتے بچا ہو ؟ایسا کبھی بھی نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ہو گا کیونکہ یہ اجرام فلکی مظاہرِ قدرت ہیں جہاں پر غلطی نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

کسی کو خالق کی نافرمانی کی جرات تک نہیں ۔
اسی طرح چاند کی گردش کو سمجھ کر قمری کیلنڈر بنایا جاتا ہے ، اور یوں پھر یہ کیلنڈر آنے والے کئی سالوں تک چاند کا پتہ بتاتا رہتا ہے ،سائنسدانوں کے نزدیک علم فلکیات کی مدد سے اگلے 100سالوں کا کیلنڈر بنایا جا سکتا ہے ۔آج سے تقریبا 25سے30سال پہلے مشہور عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس وقت کی حکومت کو آفر کی کہ اگر حکومت اجازت دے تو میں اگلے سو سال کا کیلنڈر بنا کر دے سکتا ہوں ۔

اب یہاں پر ایک سائنسدان اور عالم دین جو علم فلکیات کو جاننے والا ہے دونوں کا اتفاق ہو گیا ،سائنسدان بھی کہتا ہے کہ میں سو سال کا کیلنڈر بنا سکتاہوں اور دوسری طرف ایک دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی کہتا ہے کہ میں سو سال کا کیلنڈر بنا سکتا ہوں ۔تو اگر سو سال کا کیلنڈر بنایا جا سکتا ہے تو پھر 5سال کے کیلنڈر میں مضحکہ کیوں؟؟
پاکستان میں روئیت ہلال کمیٹی کے نام سے ایک ادارہ چاند دیکھنے کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے ،یہ ادارہ ریاست کے ماتحت ہی کام کرتا ہے ،ایک چیئرمین اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر چاند دیکھتے ہیں اس میں محکمہ موسمیات سے مدد لی جاتی ہے ،دوربین کا استعمال کیا جاتاہے ،شہادتوں کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے اس کے علاوہ دیگر کئی ذرائع استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔

اس سرکاری ادارے کے علاوہ ایک اور پرائیویٹ ادارہ بھی چاند دیکھتا ہے اور وہ ہر دفعہ ایک دن پہلے ہی چاندنظر آنے کا علان کر دیتا ہے ، جی ہاں جناب شہاب الدین پوپلزئی صاحب پشاور میں ایک دن پہلے عید کا اعلان کرتے ہیں اور ایک دن پہلے ہی رمضان کا اعلان کرتے ہیں ،یوں ہمارے دیس میں چاند دیکھنے پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور ایک کی بجائے 2عیدیں منائی جاتی ہیں ۔

اب خیر سے ایک تیسرا گروہ بھی سامنے آگیا ہے ۔اس دفعہ رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب نے اعلان کر دیا کہ وہ سائنس کی مدد سے اگلے 5سال کا کیلنڈر بنوائیں گے ،ملک میں دو کی بجائے ایک عید ہوا کرے گی ،اور کچھ دنوں بعد وہ کیلنڈر بن کر ایپ کی شکل میں عوام کے سامنے بھی آ گیا ۔
 فواد چوہدری کی بات تو ٹھیک تھی لیکن شاید طریقہ ٹھیک نہیں تھا ۔

چوہدری صاحب نے سیدھا ہیہلال کمیٹی پر نشتر چلانا شروع کر دئیے کہ یہ ادارہ کام تو کر نہیں رہا اوپر سے ملکی خزانے پر بوجھ بھی بنا ہوا ہے ،چیئرمین صاحب کو سامنے بیٹھا بندہ تو نظر آتا نہیں اور وہ چاند دیکھتے ہیں ۔یوں چوہدری صاحب (وزیر سائنس و ٹیکنالوجی)اور مفتی صاحب (چیئرمینہلال کمیٹی)کے درمیان لفظی گولہ باری شروع ہو گئی ۔مفتی صاحب نے اعلان کر دیا کہ،، ہم سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں،، اور چاند کو دیکھ کر ہی عید منائیں گے ۔

اب یہاں طریقہ فواد چوہدری کا بھی غلط تھا اور بات مفتی صاحب کی بھی ٹھیک نہیں تھی ۔چوہدری صاحب اگر مفتی صاحب کو ادب سے بلاتے ساری بات آرام سے سمجھاتے کہ ہم چاند کو سائنسی بنیادوں پر دیکھ کر ایک کیلنڈر بنا رہے ہیں ، اگر آپ کو کوئی شبہ ہے تو آپ اپنی تحقیق کر لیں ،یوں مفتی صاحب تحقیق کے بعد اپنا فیصلہ سناتے اور شاید مفتی صاحب کو سائنس کی بات سمجھ بھی آ جاتی لیکن چوہدری صاحب کے رویے نے مفتی صاحب کو ناراض کر دیا ۔

اب مفتی صاحب کے چاہنے والے سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اس حدیث کا حوالہ دے کر اس بات پر پکے ہیں کہ عیدمنائیں گے تو مفتی صاحب کے چاند دیکھنے پر ہی ۔سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنے والا گروپ ا س حدیث کا حوالہ دیتا ہے کہ جس میں نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا کہ،، جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو (یعنی رمضان کی ابتدا کرو)اور جب چاند نہ دیکھو تو روزہ افطار کر لو (عید کر لو)اور اگر بادل ہوں تو 30روزے پورے کرو ،،۔

یہ گروپ حدیث کوتو ماننے والا ہے کہ چاند دیکھ کر ہی اپنے معملات کریں گے لیکن دوسری ہی طر ف رمضان ہی کے مطلق قرآن پاک کی آیت کی نافرمانی بھی کر رہے ہیں ۔سورة بقرہ آیت نمبر 187میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ،، کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ سفید ڈورا ،رات کے سیاہ ڈورے پر نمایاں ہو جائے اور پھر رات(شام)تک روزہ پورا کرو ،،اب آپ کوئی ایک بندہ ایسا دیکھا دیں جو صبح سفید ڈورے کو دیکھ کر روزہ رکھتاہو؟ہم تو گھڑی کو دیکھتے ہیں (جو سائنس ہی کی ایجاد ہے)اور نہ صرف گھڑی بلکہ کیلنڈر کا استعمال بھی کرتے ہیں اور پورے رمضان کے سحر و افطار کا اہتمام اسی کیلنڈر سے ہی کرتے ہیں یہ کیلنڈر کسی حدیث سے تو نہیں ملا بلکہ حدیث کے روشنی میں اس ٹائم کو خاص کر دیا گیا جو سے ہمیں مطلوب ہے ۔

جس طرح سائنس کی ایجاد کردہ ایک گھڑی آپکے روزے پر اثر انداز نہیں ہو سکتی اس طرح سائنس کا بنایا ہوا کیلنڈر بھی آپکے روزوں پر اثر انداز نہیں ہو گا ،ویسے ہم ہے کمال کے لوگ چاہیں توایک حدیث پر اَکڑجائیں اور چاہیں تو نسِ قرآن سے ہی صرف نظر کر دیں ۔
سائنس اسلام سے نہ تو کبھی جدا تھی اور نہ ہی ہو گی کیونکہ سائنس اسلام کا ہی ایک جز ہے اسلام کل ہے اور سائنس اس کا جز ہے ،سائنس خدا کو تلاش کرنے کا ایک راستہ ہے ،اس لئے اسے جوتے کی نوک پر رکھنا نامناسب ہے ۔

وزارت سائنس کو چاہیے کہ مفتی صاحب اور پوپلزئی صاحب کو پیار سے بات سمجھائیں اور قومی اتحاد کا سبب بنیں ،یہ قوم تو پہلے ہی کئی ٹکڑوں میں بٹی ہے کبھی سیاسی پارٹیاں اس کے اتحاد کو توڑتی ہیں اور کبھی مذہبی تفرقہ بازی کی ہوا دی جاتی ہے ۔ملک میں ایک عید ہی ہونی چاہیے اور اس پر سب کا اتفاق ہونا بھی ضروری ہے ۔میرے ناقص فہم کے مطابق ہمیں سائنس سے مدد لینی چاہیئے آپ کا اس بارے کیا خیال ہے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :