لاہور سے کمراٹ

پیر 21 ستمبر 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

کرونا میں 6ماہ گھر گزارنے کے بعد دماغ جیسے ماؤف سا ہو گیا ہو،جیسے ہی حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کیا تو ہم نے پہاڑوں پر جانے کافیصلہ کیا ، اس دفعہ ہمارا ٹوور پاکستان کی خوبصورت وادی کمراٹ کی جانب تھا جسے حسن کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے ،کمراٹ حال ہی میں لوگوں کی توجہ کا مرکزبنا ہے لیکن اب ناران ، سوات کے بعد سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کمراٹ کا رخ کر رہی ہے ۔


ہمارے ٹوور میں 8دوست تیار ہوئے ،رات ساڑھے بارہ ہم نے لاہور سے پنڈی کا سفر ٹرین سے شروع کیا ،پاکستانی ٹرینز اب پہلے کی نسبت کافی حد تک بہتر ہیں ، صفائی،ٹائم کی پابندی اور عملے کا رویہ سب پہلے سے قدرے بہتر ہے ،صبح پنڈی پہنچے تو یہ ممکن نہ تھا کہ ھم کوئٹہ کراچی والوں کے پراٹھے کھائے بغیر گزر جاتے ،مری روڈ پر لیاقت باغ سے تقریبا آدھ کلو میٹر صدر والی سائیڈ پر بائیں ہاتھ پر کوئٹہ کراچی والوں کاہوٹل ہے،ہماری طرح ایک بار کھانے والا دوسری بار بھی کھانے کی تمنا ضرور کرے گا ۔

(جاری ہے)

آلو چیز پراٹھا ، بلوں والا پراٹھا ،آملیٹ اور سپیشل چائے کیساتھ ناشتہ کرنے کے بعد پنڈی سے مردان براستہ موٹروے نکل گے ،مردان سے آگے بھی ہمارا 8سے10گھنٹے کا سفر تھا تو ہم نے مردان میں کچھ دیر وقفہ لینے کا فیصلہ کیا ،3گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم مردان گردی کرنے نکل گے ،جہاں ہم نے اسپیشل مینگو شیک پیا جو مینگو شیک کم اور پروٹین شیک زیادہ تھا ، خالص کھوئے اور ڈرائی فوڈ کی اضافت کیساتھ یہ کوئی خاص چیز تھی ،اس کے بعد ٹھیلے سے چاول کھائے ، کچالو کھائے اور سرخ لوبیا کھانے تک ہمارے پیٹ میں گنجائش نہ تھی اس لئے لوبیا کو اگلی بار پر ڈال دیا ۔

اس کے ساتھ مردان سے سفید کھیڑی خریدی جو کافی عرصے سے میں چاہ رہا تھا ۔رات کا کھانا بھی مردان سے کھایا جس میں چکن کڑاہی اور چپلی کباب تھے ۔اور پھر رات 8بجے مردان سے تھل کی گاڑی بیٹھ گے ،تھل کمراٹ کا گاؤں ہے جہاں تک لوکل ٹرانسپورٹ چلتی ہے ، ساری رات کے سفر کے بعد ہم صبح تھل پہنچ گے ، تھل سے سرخ لوبیا ، پراٹھے اور چائے سے ناشتہ کرنے کے بعدہم تھل سے جیپ لے کر ہم کمراٹ جنگل کی طرف نکل گے اور وہاں دریا کنارے دو کیمپ بُک کروائے ۔

کمراٹ کی خوبصورتی کی بڑی وجہ کمراٹ کا بل کھاتا نیلے اور سبز رنگ کا دریا ہے جسے پنجکورہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، دریا کی خوبصورتی پھر دریا کنارے صنوبر کے درختوں کا جنگل اور پھر اس جنگل میں کیمپنگ کرنا یہی تو کمراٹ کا مزہ ہے ،دریا کنارے آپ ٹھٹھرتے کمبل لئے کیمپ میں دریا کے شور سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں ،اگر سردی زیادہ لگے تو آپ کیمپ سے نکل کر دیار کے بنے ہٹس میں بھی آ سکتے ہیں اور ہم نے بھی ایسا ہی کیا کیونکہ ٹھنڈ بہت تھی ۔


رات کھانے کے بعد ہوٹل والوں نے بون فائر کا اہتمام کیا ،ٹھنڈی رات میں آگ کے گردبیٹھے ہم رات 1بجے تک گپ شپ کرتے رہے ۔ اگلے دن ہم نے کمراٹ آبشار پر جانا تھا لہذا ناشتہ کے فورا بعد ہم نے کمراٹ آبشا رکی طرف ٹریکنگ شروع کر دی ،پنجکورہ کنارے جنگل میں بل کھاتے ٹریک نے ہمارا سفر کافی خوبصورت بنا دیا ،اڑھائی سے تین گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہم کمراٹ آبشا ر پر پہنچے جہاں سیاحوں کا ایک رش سالگا ہوا تھا ،کمراٹ آبشار پہاڑ کی بلند چوٹی سے ہلکا سا بل کھاتے ہوئے گرتی ہے ،پانی اس قدر یخ ہوتا ہے کہ نہانا بے وقوفی ہوتاہے،کمراٹ آبشار پر تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی ،موسم اور جگہ کی خوبصورتی کا تقاضہ تھا کہ فرائز یا پکوڑے کھائے جائیں تو ہم نے فرائز کھانے کا ارادہ کیا ،کمراٹ آبشار کے سب سے قریب بھائی سے ہم نے فرائز لئے تو وہ 800روپے کلو تھے یہ میری زندگی کے سب سے مہنگے چپس تھے ،چپس کھائے ،چائے پی ،بارش کا لطف اٹھایا اور پھر آخر میں سلیمانی قہوہ پی کر ہم نے کیمپوں کی طرف واپسی کی۔

کمراٹ آبشار تک جیپ آسانی سے چلی جاتی ہے لیکن ہم نے ٹریکنگ کو ترجیع دی اور مزا بھی اسی میں ہے۔
اگلی صبح کمراٹ کو الوداع کہنے کے بعد ہم تھل گاؤں سے جہاز بانڈا کی اور نکل پڑے،ٹکی بانڈا تک جیپ ٹریک تھا لہذا ہم نے آگے ہائیکنگ شروع کی ،دو دوستوں نے اپنی جسامت کو مد نظر رکھتے ہوئے خچر پر جانے کا فیصلہ کیا لیکن ہم نے ایڈوانچر کرنا تھے تو نکل پڑے ،جہازبانڈا کی ہائیکنگ اتنی آسان تھی نہیں جتنی میں نے سمجھ رکھی تھی ،راستے میں وقفے وقفے سے سانس لیتے گے کسی جگہ پر چشمے سے پانی پیا اور کسی جگہ پر کمراٹ کے تازہ سیب کھانے کو ملے۔

جہاز بانڈا پہنچتے ہی بارش نے سردی کو مزید بڑھاوا دیا اب کمبل کے بغیر بیٹھنا ممکن نہ تھا ،جہاز بانڈا بلند پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے یا آپ اسے میڈو بھی کہہ سکتے ہیں ،رات کے کھانے میں ہم نے دال ماش اور انڈے کھائے ۔جہاز بانڈا کی ہائیکنگ کے بعد سب نے کٹورا کی طرف جانے سے ہاتھ کھڑے کر دئے صبح 6بجے ہم تین دوستوں نے کٹوراکیلئے تیاری شروع کی تو دیکھا دیکھی سب تیار ہو گے لیکن صرف آدھ گھنٹے کی چڑھائی کے بعد تین دوست دل ہار بیٹھے اور وہاں سے ہی طبیعت کا بہانہ کر کے واپس ہو لئے ،بس اب ہم کٹورا کیلئے تین ہی تھے پانچ جوان نہ جاسکے،کٹورا کا ٹریک کافی مشکل تھا اور چونکہ ہم صبح جلدی نکلے تھے تو تھوڑا سا سنسان بھی تھا ۔

کٹورا کا راستہ جہاز بانڈا سے بھی مشکل تھا ،راستے میں وقفہ کرتے کرتے ہم اڑھائی گھنٹوں میں کٹورا پہنچ ہی گے ، میں پہلا ٹورسٹ تھا جو اس دن کٹورا پہنچا ہمارے بعد پھر سوات کے پٹھان آئے اور پھر آہستہ آہستہ رش بڑھنے لگا ،کٹورا پہنچ کے ہماری تھکاوٹ اتر گئی اتنی خوبصورت جھیل ،،سبحان اللہ،، پہاڑوں کے دامن میں ایک بڑا سا ہول جس میں سبز رنگ کا پانی خاموش لہروں کیساتھ کھڑا ہے اور سائیڈ کے پہاڑوں پر پڑی برف نے کٹورا کی خوبصورتی کو مزید کر دیا ،کٹورا نہ صرف خوبصورت بلکہ سحر انگیز حد تک خوبصورت جھیل ہے ،اپنی کٹورا کی اس پوری ٹریکنگ میں ،میں نے صرف 3لڑکیوں کو کٹورا جاتے ہوئے دیکھا جو ہمت کرتے بڑھتے جا رہی تھیں باقی اس کے علاوہ لڑکے ہی تھے اور ہمارے دوستوں کی طرح کئی جوان راستے سے بھی واپس ہوتے ہیں ،کٹورا کیلئے آپ فیملی کیساتھ نہ ہی جائیں تو اچھا ہے ایک تو راستہ مشکل اور پھر بارش بھی دن میں کم از کم ایک چکر ضرور لگاتی ہے ۔


کٹورا سے واپس جہازبانڈا پہنچے اور پھر وہاں سے ٹکی بانڈا کو نکل پڑے،پہلے کٹورا کی ہائیکنگ پھر کٹورا سے جہاز بانڈا پھر جہاز بانڈا سے ٹکی بانڈا ،اس دن تقریبا 7گھنٹے کی ٹریکنگ نے جسم کے سارے جوڑوں کی سروس کر دی ،ٹکی بانڈا سے واپسی پر راستے میں حبیب بھائی (جیپ ڈرائیور)نے گاڑی روک کر درخت سے توڑ کر تازہ سیب کھلائے بلکہ ہم نے خود توڑ کر کھائے اسکے علاوہ اخروٹ بھی توڑے جو تھوڑے سے کچے تھے ،میں نے حبیب بھائی سے کمراٹ میں ساگ نہ ملنے پرہلکا سا شکوہ کیا تو حبیب بھائی نے کمال محبت کا اظہار کرتے ہوئے راستے میں گاڑی روک کر اپنے عزیز کے گھر بچہ بھیج کر ساگ بھیجنے کا کہا،20منٹ بعد بچہ روٹی اور آملیٹ لے کر آ گیا اور معذرت کی کہ گھر میں ساگ نہیں ،ہمارے گھر ایسے کوئی چیز لینے آئے تو ہم فورا کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے گھر تو یہ چیز نہیں لیکن کیا خوبصورت مہمان نوازی تھی کہ گھر میں ساگ نہیں تو منع نہیں کیا بلکہ 10منٹ کا ٹائم لے کر ساگ کا متبادل بھیج دیا ۔

اللہ اُن کو اس مہمان نوازی کا اجر دیں ۔تھل سے ہم نے گھر والوں کیلئے اخروٹ لیے اور نان سٹاپ مردان سے ہوتے ہوئے پنڈی پہنچے ،پنڈی سے لاھور والے لاھور کو ، گجرات والے گجرات کو اور ملتان والے ملتان کو چل دئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :