تمسخرِ دین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط نمبر 1

بدھ 25 نومبر 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

آج سے تین سال پہلے ہریانہ کا پہلو خاں اپنی ڈیری فارم کیلئے راجھستان سے مویشی خریدنے جاتا ہے ،واپسی پر ایک انتہا پسند ہندوگروہ پہلو خاں کے ٹرک پر حملہ کر دیتا ہے،اس اندیشے کی وجہ سے کہ یہ گائے ذبح کرنے کیلئے لے کر جا رہا ہے۔200ہندو انتہا پسندوں نے پہلو خاں پر درد ناک تشددشروع کر دیا ،پہلو خاں کا بیٹا ارشاد جو اسوقت اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ بتاتا ہے کہ ہم نے انھیں رسیدیں دیکھائیں کہ ہم جانوروں کی خریدوفروخت کا کاروبارکرتے ہیں لیکن وہ سننے کے موڈ میں تھے ہی نہیں ،کاغذات پھاڑ دئے اور میری آنکھوں کے سامنے لوہے کے راڈزاورڈنڈوں سے میرے باپ پر وحشیانہ تشدد کیا ۔


پہلو خاں کے بیٹے سمیت اس کے ساتھ پانچ سے چھے لوگ اور بھی تھے سب کے سب اس تشدد کا نشانہ بنے۔

(جاری ہے)

پہلو خاں کو اس قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا گیاکہ وہ ہسپتال جانے کے بعد دم توڑ گیا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں اس کی پسلیوں سمیت کئی ہڈیاں ٹوٹی تھیں۔
ایک مسلم جس کو صرف اس الزام کی بنا پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا کہ وہ یہ مویشی ذبح کرنے کیلئے لے کر جا رہا ہے ،عوام کے دباو اور سوشل میڈیا پر کمپین کی وجہ سے قاتلین پر مقدمہ تو درج ہو گیا لیکن کچھ عرصہ پہلے ہی پہلو خاں کیس کے ملزم بری ہوگئے۔


اب پہلو خاں کا سارا واقعہ پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں جو ہندو یاوتہ کے خلاف غصہ اور ہندوازم کے خلاف جو مضحکہ خیز یا تمسخرانہ سوچ پیدا ہوئی اس کو تھوڑی دیر کیلئے سنبھال کر رکھیں کیونکہ اس کو کسی اور جگہ تقابل کرنا ہے۔
اپریل 2014قصور کے شہر کوٹ رادھا کشن میں شہزاد نامی شخص اپنی فیملی کے ساتھ زندگی گزار رہاتھا ، مسیحی مذہب ہونے کی وجہ سے شہزاد اور اس کی فیملی پر الزام لگا کہ گھر کے فضلے کے ساتھ انھوں نے قرآن حکیم کے اوراق بھی جلائے ہیں۔

بس الزام لگنے کی دیر تھی کہ سارے سچے پکے مومن اکٹھے ہو گے اور اس جوڑے پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے شہزاد اور اس کی بیوی شمع کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا ۔
متعلقہ تھانے میں خبر ہونے کے بعد سب انسپکٹر محمد علی اپنی ٹیم کے ساتھ یوسف گجر کے بھٹہ پر پہنچے جہاں وہ مسیحی جوڑا اپنے اور اپنے چار بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے مزدوری کرتا تھا آگے کی رپورٹ اب پولیس کی بیان کردہ ہے ۔

پولیس جب وہاں پہنچی تو ڈیڑھ سو سے دو سو کے قریب ایک ہجوم بھٹہ میں اینٹیں پکانے والے کمرے کی چھت کو توڑ رہاہے اور مسیحی جوڑا تشدد کی وجہ سے بے ہوش پڑا ہے ،پولیس کے روکنے کے باوجود پولیس کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس اینٹیں پکانے والے دوزخ نما کمرے میں اُس جوڑے کو ڈال دیا گیا ۔
پولیس کی موجودگی میں اس بے چارے جوڑے کو دھکتی آگ میں ڈال دیا گیا اور بعد میں پوسٹ مار ٹم رپورٹ سے یہ واضح ہوا کہ آگ میں ڈالنے تک وہ جوڑا خدا کی عطا کردہ زندگی کی سانسیں لے رہا تھا یعنی زندہ جلا دیا گیا ۔

مرنے والے اپنے پیچھے چار معصوم بچے اور ہمارے منہ پر سیاہ دھبہ چھوڑتے ہیں، اور جو الزام ان پر لگایا گیاوہ بعد میں جھوٹا ثابت ہوا۔اس سارے کیس میں 5لوگوں کو سزائے موت ہوئی جن میں اشتیاق ، مہدی خان، ریاض کمبوہ، عبد الشکور اور حنیف تھے ،ان پانچ میں سے 2بری ہو گئے اور 3باقی ہیں اُن کی بریت میں پتہ نہیں کونسی چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔
اب پہلو خاں کا کیس پڑھنے سے جو نفرت ، غصہ اور تمسخر آپ کے ذہن میں ہندو مذہب یا ہندوانتہا ء پسندوں کے خلاف پیدا ہوا تھا کیا یہی نفرت ،غصہ اور تمسخر عیسائیوں کے ذہن میں اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف پیدا نہیں ہوا ہو گا ؟؟؟ اگر ہوا ہے تو اس تمسخرِ دین کی وجہ کون بنا ؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ انتہاء پسند ،لیکن اس انتہاء پسندی کو روکنا کس کا کام ہے کیا اس کیلئے بھی ہم امام مہدی رحمتہ اللہ علیہ کا انتظار کریں گے؟؟؟ یا پھر ہم بھی کہیں اس انتہاء پسندی کی وجہ تو نہیں بن رہے ؟؟؟ہم تو وہ ہیں جو تحفظ ِناموس رسالت ﷺکیلئے جان دینے کو تیار ہیں لیکن تحفظ دین رسالت کیلئے کس کو تلاش کریں ؟؟؟ آج جب پورے عالمِ کفر میں اسلام کوانتہاء پسندی اور دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور زندگی کی ہر دوڑ میں مسلمان سب سے پیچھے کھڑا نظر آتا ہے تو کون ہے جو اسلام کا سہارا بنے گا؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :