مہاتیر محمد: پاکستان وفلسطین کا بے مثال دوست

جمعہ 5 اپریل 2019

Sabir Abu Maryam

صابر ابو مریم

گزشتہ دنوں ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس دورہ میں مہمان وزیر اعظم کو ملک میں شایان شان پروٹوکول دیا گیا یقیناًوہ اسی کے مستحق تھے۔مہاتیر محمد بظاہر بہت ضعیف العمر شخص نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ توانا اور طاقت ور دکھنے والے مسلمان رہنماؤں سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور انسان ہیں۔

مہاتیر محمد کی پاکستان سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔جب وہ پاکستان کے دورے پر تشریف آور ہوئے تو اس وقت خبریں گردش کر رہی تھیں کہ بھارت نے سفارتی ذرائع سے مہاتیر محمد کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیں یا کم سے کم ملتوی ہی کر دیں لیکن جواب میں مہاتیر محمد نے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا کہ بھارت سے ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا نہیں، انہوں نے پاکستان سے اپنی والہانہ محبت اور اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کا اصولی موقف اپنائے رکھا اور بھارتی دشن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)


مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا کہ جب قرار داد پاکستان کی یاد گار منانے کے دن یعنی 23مارچ کی رسومات کیا دائیگی ہونا تھی اور یہ بھی طے تھا کہ مہمان وزیر اعظم افواج پاکستان کی پریڈ کا معائنہ بھی کریں گے اور اس تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے جبکہ دوسری طرف بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کے اس قومی دن کو خراب کیا جائے جس کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں نے کاروائیاں کر کے اس دن کی اہمیت کو سبو تاژ کرنے کی کوشش بھی کی اور دوسری طرف یہ تاثر بھی عام تھا کہ شاید بھارت یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد یا کسی اور شہر کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود مہاتیر محمد کی پاکستان سے بے مثل دوستی میں کوئی دراڑ قائم نہیں ہوئی ۔

انہوں نے قوم دن کی تقریبات میں شرکت بھی کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے عنوان سے سرگرمیوں کا حصہ بھی بنے۔
پاکستان اور ملائیشیا میں جہاں اور کئی باتیں مشترک پائی جاتی ہیں وہاں ایک اہم ترین بات فلسطین سے دونوں ممالک کی نظریاتی وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کی تحریک کے اوائل میں ہی فلسطینیوں کی زمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کی امریکی و برطانوی کوششوں کی کھل کر مخالفت اور مذمت کی تھی اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مغرب کو لگتا ہے کہ صہیونیوں کے لئے الگ ریاست قائم ہونی چاہئیے تو پھر یہ فلسطین میں کیوں ؟ امریکہ یا برطانیہ کیوں اپنی زمین پر قائم نہیں کر لیتے؟ قائد اعظم نے کہا تھا کہ مسلمانان ہند فلسطین کے ساتھ ہونیو الی ناانصافی اور فلسطین کی سرزمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام پر خاموش نہیں بیٹھے رہیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے جس قدر ہو گا جد وجہد کریں گے۔


مہاتیر محمد کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک ایسے وقت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد کو زندہ کیا ہے کہ جب پاکستان کی حکومت پر عرب ممالک کے بادشاہوں کی جانب سے امریکی دباؤ ڈالا جا رہاہے کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے راستے کھولے جائیں یا کم سے کم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں۔ اس کام کے لئے حکومت پر اندرونی اور بیرونی ذرائع سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا ۔

سابق صدر پرویز مشرف کی نام نہاد قومی سلامتی پریس کانفرنس میں بھی حکومت پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے احوال میں بھی آیا ہے کہ عمران خان نے عادل الجبیر کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر سعودی عرب پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے تو بس کرے لیکن اسرائیل پاکستان تعلقات پر کوئی بات نہیں ہو گی۔


مہاتیر محمد نے سرمایہ کاری کے عنوان سے بلائی جانے والی کانفرنس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کیا کہ ملائیشیا کا کوئی دشمن نہین سوائے اسرائیل کے۔ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیاہے۔دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہے ۔ہمارا اسرائیل کے سوا کوئی دشمن نہیں، باقی تمام ممالک سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

اسرائیل سے ہم نے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں مگر دوسروں کے ملک پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہوتا ہے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے یہ کلمات یقیناًپوری ملائیشین قوم کی ترجمانی کر رہے تھے۔کیونکہ اگر مہاتیر محمد کی ملائیشیا کے حوالے سے جد وجہد کی بات کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

انہوں نے بھی عمران خان کی طرح اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کئے ہیں۔
دراصل مہاتیر محمد کے ان جملوں میں بڑی تاثیر موجود تھی جو بیک وقت فلسطینی اور پاکستانی قوم کے لئے ایک سنگ میل کی حیچیت رکھتی ہے تو دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کے لئے بھی سنگین پیغام رکھتی ہے۔مہاتیر محمد اپنے دورہ پاکستان سے قبل پاکستان بھارت کشیدگی اور فلسطین سے متعلق پاکستان پر عرب حکمرانوں کے دباؤ سے بخوبی آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرمایہ کاری کانفرنس میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنا پیغام ہی نہین بلکہ پاکستان کا پیغام بھی پہنچا دیا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا فلسطین کے بے مثال دوست ہیں اور اسرائیل ایک جعلی اور ڈاکوؤں کی ریاست ہے۔

دراصل مہاتیر محمد کے اس خطاب نے پاکستان کی اصل روح کو زندہ کیا کہ جس روح کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں دیکھا گیا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بھی مہاتیر محمد کی طرح تحسین کے حق دار ہیں ۔کیونکہ مہاتیر محمد کی زبان سے ادا ہونیوالے تمام الفاظ کہ جن میں اسرائیل کی جعلی ریاست کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت پنہاں تھی نہ صرف مہاتیر محمد کے الفاظ تھے بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور عوام پاکستان کی ترجمانی بھی تھی۔

اسی کانفرنس میں عمران خان نے مہمان وزیر اعظم کی خصوصیات بیان کی تھیں جن میں ایک خصوصیت یہ بھی بیان ہوئی تھی کہ مہاتیر محمد ایک ایسے بے باک اور بہادر لیڈر ہیں جو حق بات کہہ دیتے ہیں جبکہ بہت سے مسلمان ممالک کے حکمران ایسا کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔یقیناًمہاتیر محمد نے فلسطین کے حق میں بات کر کے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست کی حقیقت کو آشنا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :