نواز شریف کی ضمانت پر رہائی ۔۔۔۔۔۔مقتدر حلقوں کا کردار

جمعہ 29 مارچ 2019

Sahibzada Mian Muhammad Ashraf Asmi

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

سپریم کورٹ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو 6ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے 50لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے ۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ نواز شریف 6ہفتے بعد رضاکارانہ طور پر خود کو سرنڈرکریں گے اور اگر ضمانت میں توسیع درکار ہوئی تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرسکیں گے۔

 
چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو خواجہ حارث نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت کیس میں غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ کاپی سپریم کورٹ میں پیش کی جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت بگڑنے کے معاملے پر غور کر رہے ہیں مگر اس کے لیے ثبوت کے طور پر صرف ایک ڈاکٹر لارنس کا خط پیش کیا گیا ہے کیا فوجداری مقدمے میں صرف ایک ڈاکٹر کے خط پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟۔

(جاری ہے)

خط کا جائزہ لیتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ اس کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں، یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا سارا انحصار صرف ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے۔

ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ڈاکٹر لارنس زندہ بھی ہے یا نہیں ڈاکٹر لارنس کا وجود بھی ہمارے سامنے نہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا میڈیکل بورڈ نے ڈاکٹر لارنس کے خط کا جائزہ لیا تو خواجہ حارث نے بتایا کہ بورڈز کو تمام دستاویزات فراہم کی تھیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے کہاکہ وہ خط سے زیادہ میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر فوکس کریں خط سے زیادہ اہمیت میڈیکل بورڈز کی سفارشات کی ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا ڈاکٹر عدنان نے کوئی سفارش یا علاج کی تفصیل دی۔ فوجداری کیس میں خط پر انحصار نہیں کیا جاتا عدالت کی توجہ صحت کی موجودہ صورتحال پر ہے۔ جو باتیں وکیل کر رہے ہیں وہ میڈیکل ہسٹری ہے۔
 خواجہ حارث نے کہا کہ اوپن ہارٹ سرجری کے بعد بھی دوبار شریانیں بلاک ہوئیں۔ انجائنہ کی تکلیف کے باعث نواز شریف کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

نواز شریف کی صحت آج پہلے سے زیادہ خراب ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ اپیل پر جلد بازی میں سماعت نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے ہائیکورٹ تمام ریفرنسز میں اپیل ایک ساتھ سنے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سوال یہی ہے کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے۔ یا نہیں۔ کیا ہم یہ کہہ دیں کہ ہائیکورٹ نے بلاوجہ اپیل مقرر کر دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ضمانت اپیل پر فیصلے تک ہی ہوتی ہے۔اپیل مقرر ہو جائے تو ضمانت کی درخواست نہیں سنی جاتی۔ عدالت ہائیکورٹ کوجلد فیصلے کی ہدایت کر سکتی ہے۔آپ کا پہلا نکتہ ہے نواز شریف کو گھر بھجوایا جائے۔آپ کہتے ہیں ذہنی دباؤ سے باہر آ کر نواز شریف علاج کرائیں گے۔ کیا نواز شریف کا علاج پاکستان میں ہو گا یا بیرون ملک؟۔اپنی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کروانا عجیب بات نہیں۔

بتائیں کیا عدالت نواز شریف کا علاج کرانے میں مدد کر سکتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت کئی مقدمات میں علاج کے لیے ضمانت دے چکی ہے۔ڈاکٹر عاصم کو بھی طبی بنیادوں پر ضمانت دی گئی۔ نواز شریف کو کسی ڈاکٹر نے بیرون ملک علاج کی سفارش نہیں کی۔ نا گزیر ہوا تو نواز شریف علاج کے لیے باہر جائیں گے۔ تمام میڈیکل رپورٹس میں انجیو گرافی کی سفارش کی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل ہسٹری ضمانت کیلئے موزوں وجہ نہیں ہوتی، آپ کو قائل کرنا ہوگا کہ جیل میں نواز شریف کا علاج ممکن نہیں، انجیو گرافی کے وقت میڈیکل ہسٹری کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، کیا پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج ممکن نہیں، کیا پاکستان کے ڈاکٹرز کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف نے علاج کرانا ہے تو کسی بھی ہسپتال کو حکم دے سکتے ہیں، خواجہ حارث نے کہاکہ علاج کرانے کیلئے نواز شریف کو ضمانت دی جائے،ذہنی دباو سے نکل کر ہی علاج ممکن ہو گا،چیف جسٹس نے کہاکہ ذہنی دباو دو ہفتے میں ختم ہو سکتا ہے،نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل ہائیکورٹ میں مقرر ہو جائے گی۔

 چیف جسٹس نے کہاکہ اپیل سماعت کے قریب ہے تو کیا ضمانت کی درخواست پر سماعت درست ہو گی،خواجہ حارث نے کہاکہ ضمانت کی درخواست پر سماعت ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اپیل مقرر ہو چکی ہے تو ہائیکورٹ کو سماعت کا حکم دیتے ہیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل پر دو ہفتے میں بھی فیصلہ ممکن نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف علاج کی ہرپیشکش سے انکار کر رہے ہیں۔

نواز شریف کا بہترین علاج کروایا جائے گا۔شرط یہ ہے کہ نواز شریف علاج کے لیے راضی ہو جائیں۔میڈیکل ہسٹری کے مطابق نواز شریف مکمل فٹ نہیں ہو سکتے۔اس عمر میں بیماری میں صرف صحت خطرے سے باہر ہو سکتی ہے، خواجہ حارث نواز شریف نے ہمیشہ بیرون ملک علاج کروایا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ جو تجویز دی ہے کہ علاج تک ضمانت کروا لیں اسی پر غور کریں۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوئے تو نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے ضمانت کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہو جاتے ہیں۔ نیب ریکوری کے پیسے سے اچھا سا ہسپتال بنائے کیونکہ نیب کے ہر کیس میں طبی مسائل آ جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے نام لئے بغیربریگیڈیئرریٹائرڈاسد منیر کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ نیب کے دبا وسے لوگ خودکشیاں بھی کر رہے ہیں۔

خودکشی کے معاملے کو بھی عدالت دیکھ رہی ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کی صحت تیزی سے گر رہی ہے۔نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت نارمل ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ کیا دل کے مریض کے لیے انجیو گرافی لازمی ہے۔ میڈیکل بورڈ نے انجیو گرافی کی سفارش کسی وجہ سے ہی کی ہو گی۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ میڈیکل بورڈ نے بوقت ضرورت انجیوگرافی کی سفارش کی ہے اور انجیو گرافی پاکستان میں با آسانی ہو جاتی ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کسی رپورٹ میں نہیں لکھا کہ نواز شریف نے علاج سے انکار کیا۔ نیب نواز شریف کو ایک سے دوسرے ہسپتال گھماتی رہی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نواز شریف نیب کی قید میں نہیں جیل میں تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بیماری کے پیش نظر چھ ہفتے کی ضمانت بہت بڑا ریلیف ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے ضمانت دئیے جانے کا فیصلہ اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عدلیہ نے نواز شریف کے ساتھ یکطرفہ رویہ روا نہیں رکھا ہے۔

بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا کہ عدالتِ عظمیٰ نے بہت زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کو کچھ تو ریلیف دیا ہے۔ نواز شریف کی اپیلیں ابھی زیر سماعت ہیں اور دیکھیں اُسکا کیا فیصلہ آتا ہے۔ لیکن یہ بات اٹل ہے کہ جب تک طاقتور حلقے نہیں چاہیں گے نواز شریف کی جان کی خلاصی نہیں ہوگی۔ شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے لاہور ہائی کورٹ نے نکالنے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔ یوں حالات کا دھارا بتا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :