
بچوں کے ادب کا فروغ
جمعہ 13 نومبر 2020

سیف اللہ سیفی
شاید اسی بنیادی وجہ سے ہمارے ہاں معاشرتی اور اَخلاقی اَقدار کی گراوٹ تیزی سے ہو رہی ہے۔پھر صف ماتم بچھی ہے اور ہر طرف سے قوم کے بگڑنے کے نوحے زبان زد عام ہیں۔
(جاری ہے)
ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے بچوں کی معاشرتی، تہذیبی اور اَخلاقی تربیت کرنے اور اُنھیں اچھا انسان بنانے کی جدوجہد، جوہمارا پہلافرض ہے، اسے ترک کر دیا ہے۔
ہم اِس بات کی اہمیت جانے بغیر اُس تعلیم کی طرف سارا زور لگا رہے ہیں جس کا تعلق روزگار کا حُصُول ہے۔ جب کہ ہم اُن کی بنیادی تربیت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔اُس پر مُستَزاد یہ کہ کبھی تربیت کی کمی کے اثرات کو جاننے کی زَحمت ہی گوارا نہیں کی گئی۔کہا جاتا ہے کہ”بچے کا دل و دماغ پاکیزہ ہوتا ہے۔ بچہ وہ سادہ جوہر ہے جو ہر قسم کے نقش و نگار سے خالی ہوتا ہے ،اُس پر کچھ بھی نقش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم اُسے جس طرف مائل کریں گے وہ اُسی طرف ہو جائے گا۔ہمیں اُس کی اخلاقی، تہذیبی، لسانی اور معاشرتی ومعاشی تعلیم و تربیت کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے کی تربیت بھی کرنی چاہیے“۔
آپ کو ہمارے معاشرے میں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، قاضی، سیاست دان، حکمران، جرنیل، تاجر، استاد، کثیر تعداد میں نظر آئیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِن میں اعلیٰ پائے کے انسان بہت کم ہوں گے۔ کیوں کہ جب انسان کا واسطہ بطور انسان دوسروں سے پڑا تو ان میں پیشہ ورانہ صلاحیت تو بدرجہٴ اَتَم موجود تھی لیکن وہ انسانیت کے حوالے سے انتہائی نیچے درجے پر پائے گئے۔ ایسا کیوں؟کیو ں کہ ہم نے اُنھیں اپنے پیشے کے لحاظ سے تو ماہرترین بنا دیا لیکن جو سب سے ضروری جزو تھا؛ یعنی احساس، انسانیت کا درد، دل جُوئی، ہمدردی اور رواداری کا، وہ پیدا کرنے میں کوتاہی کردی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں نِت نئے انسانیت سوز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں ادب اپنا کردار خوب اچھی طرح نبھا سکتا ہے، کیوں کہ اس کے انسان کے اَخلاق اور کردارپر گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب کوبچوں میں اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اچھاانسان بنانے کے لیے بھی بخوبی استعما ل کیا جاسکتا ہے ۔ہمیں گھروں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں بھی پرائمری سطح سے ہی بچوں کو ادب کی جانب مائل کرنے کا کام شروع کردینا چاہیے۔
میں یہاں ہالینڈ میں بچوں کی، ادب کے ذریعے تربیت کا حوالہ دینا چاہوں گا۔یہاں اسکولوں میں ابتدائی جماعتوں میں ہی بنیادی تعلیم کے عِلاوہ ادب کی جاب راغب کرنے کے لیے؛ بچوں سے مختلف موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور یہ ان کی پڑھائی کا حصہ ہوتا۔بچوں کو تیسری چوتھی جماعت سے ہی کسی بھی موضوع پر تقریرکرنی ہوتی ہے بلکہ ایک طرح سے پریذنٹیشن ہوتی ہے،جس کی تیاری کے لیے انھیں دو یا تین ہفتے قبل کہہ دیا جاتا ہے۔اس پریذینٹیشن کے بعد بچوں کو نمبر زدئے جاتے ہیں۔یہ سلسلہ آگے کالجوں اور یونیورسٹیز تک چلتا ہے۔اس طرح ایک بچہ ابتدائی جماعت سے لے کر تعلیم کے اختتام کے بعد ،جب عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اُس میں زبردست خود اعتمادی آجاتی ہے۔اسی طرح اسکولوں میں ہفتئہ کُتب بھی منایا جاتا ہے۔بچوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنی پسند کی کوئی بھی کتاب پر تبصرہ پیش کریں۔ہالینڈ میں بچوں کو لائبریریز کا ممبر بنا کر انھیں اٹھارہ سال کی عمر تک لائبریرز سے مفت کتابیں مہیا کی جاتی ہیں۔
دور ِحاضر میں ایسے ادب کی شدید ضرورت ہے جس میں پڑھائی کی اہمیت، جدید علوم وفنون، سائنس اور ٹیکنالوجی، الیکٹرانک میڈیا کا حسب ضرورت استعمال وغیرہ جیسے مو ضوعات ہوں۔ بچپن ایک ایسا دور ہوتاہے جس میں ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کی بقیہ زندگی میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ہمارے خطے یعنی بر صغیرمیں بچوں کے ادب کو فروغ دینا، کاروبار نہیں،بلکہ خدمت ہے اور ایسی خدمت کرنے والوں کی خدمت کرنا؛ حکومتوں اور پورے معاشرے کی ذمے داری ہے۔ بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اُنھیں اعزازات سے نوازا جانا چاہیے۔ حکومت بچوں کے رسائل اور کتابیں خود شایع کرنے والے ادیبوں کو رعایتی قیمتوں پر کاغذ مہیا کرے۔ بچوں کے تمام رسالوں کا ماہانہ معقول وظیفہ مقرر ہونا چاہیے۔ رسائل کی ترسیل کے لیے ڈاک خرچ کی مفت فراہمی کے عِلاوہ بچوں کے رسائل کو بھی سرکاری اشتہارات دیئے جانے چاہئیں۔بچوں کا ادیب خو ش حال ہوگا تب ہی بچوں کا ادب خو ش حال ہوگا اور ترقی کرے گا۔ اگر بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں ہرگز کتاب دوست معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا اور جو معاشرہ کتاب دوست نہ ہو، وہ جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سیف اللہ سیفی کے کالمز
-
کراچی کی بیویاں!
منگل 4 جنوری 2022
-
اُصُولی فیصلہ!
پیر 13 دسمبر 2021
-
کھیلن کو مانگے چاند!
منگل 7 دسمبر 2021
-
قَلَم یا کمپیوٹر؟
بدھ 22 ستمبر 2021
-
ستم زدہ اُردو!
بدھ 23 دسمبر 2020
-
ثناء خوانی اور فلمی دھنیں
بدھ 2 دسمبر 2020
-
بیٹیاں اور والد!
منگل 24 نومبر 2020
-
’ ’قتلِ رحیم“ (Euthanasia)!
بدھ 18 نومبر 2020
سیف اللہ سیفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.