''حکومت دسدی نہی پئی''

اتوار 3 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ہماری پنجابی کے بھی کئی سو رنگ ہیں۔ ایک جملے میں سے کئی سو مطلب نکلتے ہیں۔ پھر اس سے ہم اپنی مرضی کا جو چاہیں مطلب نکال لیں یہ ہم پہ ڈیپینڈ کرتا ہے۔
بالکل ایسا ہی کچھ سانحہ ندیم افضل چن کی اپنی ایک خیر خواہ سے کی گئی بات کے ساتھ بھی ہوا۔ بظاہر انکے منہ سے نکلتی گالی ہے۔ مگر اس گالی میں اک پیار بھرا ہے۔ اک شفقت بھری ہے۔

اک ہمدردی بھری ہے۔ اک خیر خواہی بھری ہے۔
''ہزاراں بندے مردے پئے نے حکومت دسدی نہی پئی''
اس جملے کو اگر غور سے دیکھیں۔ تو اس میں ایک نصیحت،ایک سبق اور ایک حقیقت کو بہت اچھے سے سادہ سے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا کے میمرز نے اسے کیسے ریپریزینٹ کیا وہ ہم سبھی جانتے ہیں۔
 جملہ ''دسدی نہی پئی'' اسکا ایک پازیٹو پہلو ہے۔

(جاری ہے)

اور ایک نیگیٹو۔ اگر ہم ایک اچھے انسان کی رو سے اسے پازیٹو وے میں دیکھیں۔ تو ہمیں نظر آتا ہے۔ ہزاروں بندے مر رہے ہیں حکومت بتا رہی ہے۔ ایک پنجابی کی ہی مثال دیتا ہوں۔ میری بات آپکے پلے اچھے سے پڑ جائے گی۔
''او وار و وار دسدی نہی پئی تن فر وی سمجھ نہی آ رئی''
یعنی ہمارے ملک میں آئے دن ہزارواں بندے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ حکومت آئے دن بتا رہی ہے ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی۔

ہم ہیں کہ ہٹ دھرمی پہ ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جاری کی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی شاید ہم نے قسم کھا رکھی ہو جیسے۔
کورونا جیسی وبائی مرض سے کون آشنا نہیں ہے۔ اک ایسی مرض جسکا ابھی تک سوائے احتیاط و تدابیر کے کوئی علاج بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم آئے دن نیوز چینلز پر سنتے آ رہے ہیں۔ فلاں جگہ اتنے لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا۔ فلاں جگہ آدمی کو بن نہلائے و کفنائے دفنا دیا گیا۔

کیونکہ اس کو چھونے سے کورونا پھیلنے کا خطرہ تھا۔ایسی صورتحال میں بھی ہم نے اتنے مہینے گزر گئے۔ نہ تو کسی حکومتی آرڈر کو مانا۔ نہ لاک ڈاؤن کو صحیح معنوں میں لاک ڈاؤن سمجھا۔ نہ گھروں تک ٹک کر بیٹھے۔ یعنی ہم نے خود کو بچانے کیلئے کوئی احتیاطی راہ نہیں اپنائی۔
بس جب بھی کسی نے احتیاط برتنے کا کہا۔ ہم نے کہہ دیا ''جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہے'' مانتا ہوں ایسا ہی ہے۔

سبھی مانتے ہیں سبھی جانتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرمی پر اڑے رہ کر خود کو موت کے منہ میں دھکیلنا یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟
ہماری سوچ کا معیار تو اتنا ہی ٹھہرا کہ پہلے خود مصیبت کو گلے لگاتے ہیں۔ پھر بیٹھ جاتے ہیں قسمت کو کوسنے۔ پھر بیٹھ جاتے ہیں کہ جی حکومت کچھ کر نہیں رہی بس آئے دن لاک ڈاؤن میں توسیع کر رہی ہے۔ اب میری بھولی بھالی جنتا اگر تم یوں سر عام سڑکوں ہر بھونڈیاں کرو گے تو خطرہ کم تو نہ ہو گا نا۔

بلکہ آئے دن بڑھے گا ہی۔ ایسے میں حکومت کا تو کوئی قصور نہ ہوا سب اپنا ہی کیا کرایا ہوا۔
ایک چھوٹے سے نصیحت آمیز جملے کو جو میں سمجھتا ہوں صرف مختارے کیلئے نہ تھا۔ بلکہ پوری قوم کیلئے تھا ہمارے سوشل میڈیا کے کیڑوں نے اسے میمز بنا کر ٹک ٹاک بنا کر اسکی یوں مت ماری،کہ نصیحت کا ٹنوں وزن رکھنے والا وہ جملہ اپنا بھار گنوا بیٹھا۔
نجانے ہمیں کب عقل آئے گی۔

ہم کب سدھریں گے۔ یا شاید کبھی سدھریں گے ہی نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایک طرف موت اگلتا کورونا ہے۔ تو دوسری طرف ہماری ہٹ دھرمی۔ شاید ہم نے کورونا سے شرط لگا رکھی ہے دیکھتے ہیں جیت کس کی ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہمارے وزیراعظم خان نے کہا تھا۔ یہ جنگ صرف اور صرف متحد ہو کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ یعنی ہمیں ایک جُٹ ہونا پڑے گا۔ متحد ہونا پڑے گا۔

اب یہاں متحد ہونے کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ تم گروپ بنا کر باہر سڑکوں پر کھڑے ہو جاؤ۔ کہ جی ہم تو حکومتی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ نہیں بلکہ انکا مطلب یہ تھا۔ عوام کو حکومت کو ساتھ دینا ہو گا۔ جیسے حکومت کہتی ہے۔ ویسا کرنا ہو گا۔ اگر لاک ڈاؤن لاگو کیا گیا ہے۔ تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ تم بائیکس لے کر سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے پھرو۔

اگر صبح نو سے شام پانچ تو دکانیں بند کرنے کا حکم ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم باہر سے شٹرز بند کر کے اندر گاہکوں کو سودا دیتے رہو۔ بلکہ اسکا مطلب یہ تھا۔ خود کو چند دن چند ہفتے یا چند مہینے گھر کی دہلیز تک قید و بند رکھو۔ تا کہ میل ملاپ کم ہو۔ کورونا کا خطرہ کم ہو، کورونا کے کیسز میں آئے دن کمی واقع ہو۔ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی برتنے پہ اترے۔

تاکہ سب لوگ بہت جلد اپنی نارمل لائفس میں با آسانی لوٹ  سکیں۔
اگر یوں ہی چلتا رہا تو ہمارا ملک بہت جلد چین بن جائے گا ہمارا ملک بہت جلد اٹلی بن جائے گا۔ جہاں آئے دن اتنی لاشیں گری کہ دفنانے کو جگہ کم پڑ گئی۔ خدارا باز آ جاؤ اس ہٹ دھرمی سے۔
اب اگر ہم حکومت دسدی نہی پئی کو نیگیٹو وے میں سوچیں۔ جیسا کہ میں نے چند ایک کو باتیں کرتے سنا۔

کہ نجانے کتنے کیسز ہیں۔ جو ہمیں حکومت بتا نہیں رہی ہم سے چھپا رہی ہے۔ پتہ نہیں کتنی خطرناک مرض ہے یہ۔ ہمارا نجانے کیا بنے گا۔
تو ان سے میں کہنا چاہوں گا۔ بھئی آجکل تو سوشل میڈیا کا دور ہے ایسے میں بھلا کوئی بات چھپی رہ سکتی ہے بھلا؟ جو کچھ ہے سب کے سامنے ہے کچھ بھی چھپا نہیں ہے۔ ہمیشہ پازیٹو سوچا کرو یار نیگیٹو میں کیا رکھا ہے؟
چند دن مان لیں حکومت کی بات گھروں تک محدود ہو کر رہ جائیں۔
مختارا مت بنیں گھر ٹک کے بیٹھ جائیں۔ انشاءاللہ بہت جلد ہم اس جنگ کو جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :