
خواجہ سرا بھی انسان ہوتے ہیں
جمعہ 8 مئی 2020

سلیم ساقی
خواجہ سرا تو ساری زندگی در در کی ٹھوکریں اک ایسے جرم کی سزا میں کھاتے ہیں۔ جو جرم انھوں نے کیا بھی نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)
کیا یہ اذیت کم سمجھتے ہو، کہ تمھیں تمہاری جنم دینے والی ماں کی کوک ہی تمہیں دنیا کے سامنے قبول نہ کرے۔
بلکہ در در رولنے کیلیئے خود اپنے ہی ہاتھوں سے تمہیں غیروں کے حوالے کردے۔ جو تمہارے جسم کو مافق کتوں کے نوچ نوچ کھائیں۔ کیا یہ دکھ کم ہے تم جہاں سے گزرو چاروں طرف سے لعن طعن ہونے لگ جائے۔ چاروں طرف سے تم پر آوازیں کسی جائیں۔ چاروں طرف سے سیٹیاں بجائی جائیں۔ اور تم چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکو۔جہاں تمہیں صرف اور صرف چند پیسے دے کر دل بہلانے کیلیئے محفل موسیقی کی زینت بنایا جائے۔ تمہاری اپنی آزادانہ زندگی ہوتے ہوئے بھی تم سے رکھیل یا لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے۔ جہاں دوسرے کہیں،جیسا دوسرے چاہیں تمہارے پاؤں کی ایڑی رقص کی غرض سے وہاں جا لگے۔
پل بھر کو سوچو کیا تم جینا چاہو گے ایسی زندگی؟ میرے خیال سے تو کوئی بھی نہیں چاہے گا۔
پھر تم اس تخلیق خدا کے ساتھ یوں تیکھا رویہ کیوں رواں رکھتے ہو؟ کیا تمہارا لڑکی یا لڑکا پیدا ہونا تمہارے خود کا کمال ہے؟
ہمارے ہاں کئی معذور بچے بھی پیدا ہوتے لنگڑے،لولے اور گونگے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کیا اسکا مطلب ہم انھیں پھینک دیں ؟ خیر خواجہ سرا کا کیا رونا رونا یہاں تو بوڑھے ماں باپ کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ہاؤس میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ تو پھر خواجہ سرا ٹھہرے۔
لیکن خواجہ سرا ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم اس سے جینے کا حق چھین کر اسے مرنے کیلیئے چھوڑ دیں؟
ہم خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ایک اچھا مقام دلوا سکتے ہیں۔ انھیں جینے کا حق دلوا سکتے ہیں۔ مگر اس کیلیئے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ ہمیں منفی سوچ کو اپنے دل و دماغ سے نکال کر مثبت سوچ سوچنا ہو گی۔ کیونکہ منفی راہ(الٹ راہ) شیطان کی ہوتی ہے۔ اور شیطان روز ازل سے ہمارا دشمن ٹھہرا۔ وہ کبھی نہیں چاہے گا ہم مثبت راہ(سیدھی راہ) اپنائیں۔ مگر ہمیں شیطان کو شکست دے کر رحمان کے رستے چلنا ہو گا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں۔ خواجہ سرا دنگے کرتے ہیں۔ فساد برپا کرتے ہیں۔ اگر کوئی پولیس والا یا قوم لوط سے بچا ہوا گھٹیا امیر کبیر آدمی کسی خواجہ سرا کو زبردستی پکڑ کر اس سے زبردستی حوس پوری کر کے اسے چھوڑ دے گا۔ تو ایسے میں دنگے تو ہوں گے۔ فساد تو برپا ہو گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ناچتے ہیں گاتے پھرتے ہیں۔ اگر انھیں انکی سگی ماں ہی کوک سے نکال باہر پھینکے گی۔ ایسے میں پیٹ بھرنے کیلیئے چند نوالے تو انھیں بھی چاہیے۔
جب زمانے میں چاروں طرف سے تنقید ہو گی۔ کوئی جینے تک نہ دے گا۔ جہاں انھیں صرف ناچنے گانے کیلیئے مخصوص سمجھا جائے۔ پھر ایسے معاشرے میں وہ ناچیں گے ہی گائیں گے ہی۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے کیسز بھی نظر آئیں گے۔ جہاں خواجہ سرا کا کسی گھر میں ہوتے ہوئے بھی کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئیں گے۔ کچھ ایسے خواجہ سرا بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ جو اس گندگی کی لت میں لت پت نہیں ہیں۔ کیونکہ انکا بھار انکے والدین نے اٹھا رکھا ہے۔ بظاہر انھیں حکومت کے خوف سے معاشرے کی لعن طعن کو مدنظر رکھتے ہوئے خود سے جسمانی طور پر دور کر رکھا ہے۔ لیکن روحانی طور پر ان کے پاس ہیں۔ ماہانہ خرچہ ان تک پہنچا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں۔ انکے خواجہ سرا ہونے میں انکا کوئی دوش نہیں۔
اگر ایسا سلوک ہر ایک والدین رواں رکھیں تو میں نہیں مانتا کہ ایک بھی خواجہ سرا کسی محفل کی زینت بنے گا۔ یا ہمیں راہ چلتا نظر آئے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.