عید غریباں

اتوار 10 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ہم مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدین جو کہ ہر سال بڑے ہی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ پھر چاہے وہ چھوٹی عید(عید الفطر) ہو یا بڑی عید(بکرا عید) ہو۔ اگر بات کریں عید الفطر کی تو جیسے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوتا ہے،جہاں امراء لوگ بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز اور مالز کا رخ کرتے ہیں۔ وہیں ہمارے غریب و غرباء برادری کی چاند رات اس فکر میں کٹتی ہے۔

صبح عید کے دن نیند سے اٹھ کر اگر ہمارے بچوں نے پہننے کیلیئے نئے کپڑے مانگے تو ہم کیا جواب دیں گے؟
جہاں امراء لوگوں کے گھر رنگ برنگے کھانے ڈھیرو ڈھیر ڈشیں پکتی ہیں۔ وہیں غریب طبقے کے گھر کا چولھا بھی بمشکل جل پاتا ہے۔ جہاں امراء طبقہ سج دھج کے نماز عید ادا کرنے کا رخ کرتا ہے۔ وہیں غریب طبقے کے سربراہ اس ڈر سے عید نہیں پڑھنے جاتے۔

(جاری ہے)

اگر لوگوں نے ہمارے پھٹے پرانے کپڑوں میں لگے پیوند دیکھ لیئے تو کیا سوچیں گے؟ نجانے کیا کچھ کہیں گے۔
ایک طرف رمضان آتے ہی ہمارے نام نہاد تاجر مسلمان بھائی چیزوں کے نرخ اس قدر بڑھا دیتے ہیں،کہ غریب طبقے کے پاس روزہ افطار کرنے کے واسطے سوائے چند گھونٹ پانی اور نمک کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ روزہ رکھ کے دیہاڑی کرنا بھی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔

اس صورت میں چند دن دیہاڑی کی چند دن آرام کر لیا۔ اس کے سوا ایک غریب کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسے جیتے جی رمضان گزارنے میں ہی ایک غریب کی ساری جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے۔
رمضان گزرتے ہی چاند رات کو جہاں سب لوگ عید آنے کے شادیانے بجا رہے ہوتے ہیں۔ وہیں ایک غریب میاں بیوی اس سوچ میں مگن ہوتے ہیں۔ کل کو اگر ہمارے گھر سے کچھ میٹھا پک کر اڑوس پڑوس رشتہ داروں کے ہاں نہ گیا تو وہ کیا سوچیں گے؟ کہ سال میں ایک دو بار تو عید آتی ہے۔

یہ کنجوس اللہ کے نام پر میٹھی چیز کا نیاز بھی نہیں دلوا سکتے؟ ایسے میں اس غریب کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے۔ اور وہ ہوتا ہے قرضے کی پوٹلی سر پہ اٹھانے کا۔
اور ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوتا یہ ہر دن ہر ہفتہ ہر ماہ اور سال میں نجانے کتنی دفعہ ہوتا ہے۔ جب پیٹ پالنے کیلئے غریب اپنی عزت نفس کا سودہ چند نوٹوں سے کرتا ہے۔ کیا تم آسان سمجھتے ہو کسی کے آگے جھولی پھیلانا؟
ایسے میں امراء طبقے کا حق تو یوں بنتا ہے، کہ ان غریبوں کی جھولی پھیلنے سے پہلے ہی ان میں حسب توفیق کچھ ڈال دیا جاوے۔

مگر  گردن کی کلی کا بھی تو بھرم رکھنا پڑتا ہے نا۔ ایک گاؤں کا وڈ وڈیرا چند پیسے دینے کیلئے ایک غریب کے در پر دستک دیتا اچھا تھوڑی نا لگے گا۔ لیکن یہ سب اکڑ ہے اور کچھ نہیں۔ ایسا سوچنا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور آخر میں لوگ یہی کہتے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
خدارا غریب بھی انسان ہوتے ہیں۔ یہ زات سٹینڈرڈ اور پیسوں کی اوچ نیچ یہ سب میٹر نہیں کرتے۔

اس دنیا سے آج تلک کوئی بھی کچھ بھی لے کر نہیں گیا۔ سکندر جیسے عظیم بادشاہوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ جن کی حکومت پوری دنیا پر ہوتے ہوئے بھی جب انھیں قبر میں اتارا گیا تب ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
کوشش کیا کریں عید کی خوشیوں سے کوئی بھی محروم نہ رہ جائے صرف اس بیس پر کہ اسکی جیب میں ان خوشیوں میں شرکت کیلئے پیسے نہیں ہیں وہ گھر کی دہلیز کے اندر ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا رہ جائے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :