''ممکن نہیں ہر خواب کا تعبیر ہو پانا''

جمعہ 19 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

خواب دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے یہ وہ حق ہے جو قدرت نے انسان کو دیا ہے اک ایسا حق جسے کوئی چھین نہیں سکتا خواب دو قسم کے ہوتے ہیں
ایک خواب وہ جو سوتے میں آتے ہیں اور دوسرے خواب جو ہم اپنے گول تک پہنچنے کے لئے یا کسی شے کو پانے کے لئے(حاصل کرنے کے لئے) جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں سوتے میں آنے والے خوابوں کی گر حقیقت مل جائے تو واہ بھلا اگر نہ بھی ملے تو کوئی بڑی بات نہیں انسان اسے بس خواب سمجھ کے بھولا دیتا ہے ایسے خوابوں کے ٹوٹنے پر نہ تو انسان کا دل ٹوٹتا ہے نہ ہی حوصلہ شکنی ہوتی ہے،لیکن وہ خواب جو انسان اپنے گول کو حاصل کرنے کے لئے جاگتی آنکھوں سے دیکھتا ہے خدانخواستہ اگر ایسے خواب چکنا چور ہو جائیں تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ایسے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سیدھا انسان کے دل میں چبھتی ہیں جو نہ صرف انسان کے حوصلوں کو پست کر دیتی ہیں بلکہ پھر سے گر کر اٹھنے کی ہمت بھی چھین لیتی ہیں۔

(جاری ہے)

مانتا ہوں ایک بار گر کر دوبارہ اٹھنا انسان کے لئے محال ہوتا ہے
لیکن ہمیں ہار کو خود پر حاوی کر کے جیت کو پیٹھ پیچھے نہیں پھینکنا چاہیے ہمیں جاگتی آنکھوں سے دیکھے خوابوں کو ادھورے خواب نہیں بننے دینا وگرنہ زندگی بھر کی زلالت اور شرمندگی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ ہمیں ہار کے سامنے ڈٹ کر اپنے پرعزم ارادوں سے اسے اپنے رستے سے ہٹھانا ہو گا اور خود کو اپنے من چاہے گول تک لے کر جانا ہو گا۔


پنجابی کا ایک مشہور قول ہے۔
''ہمت مرداں تے مدد خدا''

کبھی سنا ہے کہ کسی نے گھر بیٹھے بنا محنت کے کے ٹو یا ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا ہو؟ یا کبھی سنا ہو کسی نے بغیر پڑھے لکھے ڈی۔سی یا اے۔سی کی سیٹ حاصل کر لی؟ نہیں نا کیونکہ یہاں تک پہنچنے کے لئے ایک سفر طے کرنا پڑتا ہے اک ایسا سفر جسکے کئی مراحل ہیں اک ایسی راہ ہے جس پر کئی پڑاؤ ہیں جنہیں ہمیں سٹیپ بائی سٹیپ طے کرنا ہے بالکل اسی طرح خواب دیکھ تو ہر کوئی لیتا ہے لیکن انکی پایہ تکمیل کوئی کوئی ہی کر پاتا ہے اسکی ایک خاص وجہ پرعزم ارادہ و ہمت ہے جس بندے میں یہ دو خوبیاں ہوں گی کامیابی اسکا مقدر ہو گی۔

ضروری نہیں کہ ہر خواب دیکھنے والے کا خواب پورا بھی ہو جائے کیونکہ جہاں خواب کی تکمیل کے لئے انسان کی محنت درکار ہوتی ہے وہیں دوسری جانب انسان کی قسمت کا بھی اچھا خاصہ رول پایا جاتا ہے۔
ایک واقعہ سناتا ہوں
میرا ایک کلاس فیلو تھا وہ بہت ہی ذہین اور محنتی قسم کا لڑکا تھا ایف۔ایس۔سی کے بعد جناب نے ایز اے سیکنڈ لیفٹینینٹ پاک آرمی جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

پاک آرمی کو جوائن کرنے کا جو پروسیجر تھا پہلے اپلائی کرو پھر ابتدائی ٹیسٹ پھر فزیکل پھر میڈیکل نیز وہ ٹیسٹ پاس کرتے کرتے آئی۔ایس۔ایس بی کے ٹیسٹ تک پہنچ گیا لیکن یہاں پہنچ کر قسمت کی ٹانگ بیچ میں اٹک گئی اور آئی ایس ایس بی میں وہ ریکومنڈ نہ ہو سکا۔ بعد ازاں قسمت آزمائی کرتے ہوئے جناب نے تین مرتبہ ٹرائی کیا لیکن بدقسمتی سے تینوں چانس گوا دیے اور سلیکٹ نہ ہو سکے۔


میرے ایک دوسرا کلاس فیلو جو کہ پڑھائی میں متوسط تھا نہ ذیادہ لائق نہ ذیادہ نالائق اپنی قسمت آزمائی کے لئے جناب نے بھی پاک آرمی میں سیکنڈ لیفٹینینٹ کے لئے عرضی ڈال دی۔ لیکن ان متوسط جناب کی قسمت نے کچھ ایسی بازی پلٹی کہ انکی سلیکشن کنفرم ہو گئی اور اب وہ اپنی جاب کر رہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ کہ اگر ہم کوئی خواب دیکھیں لیکن ہماری انتھک محنت کرنے کے باوجود اسکی تعبیر نہ مل سکے تو یہ مان کر کہ خدا نے آپکو اس کام کے لئے منتخب نہیں کیا اس کے لئے آپکو نہیں بنایا گیا اس راہ سے ہٹ جانا چاہیے۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ اس ایک ادھورے خواب کو بیس بناتے ہوئے ہمت ہار کر گھر بیٹھ جائیں نہیں بلکہ دوبارہ سے اٹھ کھڑے ہو جائیں ایک نئے خواب کے ساتھ پہلے سے بھی ذیادہ پرعزم ہو کر ایک نئی راہ کو اپنا کر آگے بڑھیں۔ ضروری نہیں کہ ہر دیکھا خواب ادھورا رہ جائے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :