
شادی یا بربادی؟ فیصلہ آپکا
جمعہ 26 جون 2020

سلیم ساقی
شادی کا مطلب اک ایسا رشتہ اک ایسا بندھن ہوتا ہے جس بندھن میں بیوی کی ہر خوشی غمی اسکے میاں کے ساتھ اور میاں کی ہر خوشی غمی اسکی بیوی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے اک ایسا ازدواجی رشتہ جس میں میاں تکلیف میں ہونے پر بیوی کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اک ایسا مخمل کی طرح ملائم رشتہ جس میں شوہر کی ناراضگی بیوی کی ایک مسکراہٹ سے غائب ہو جاتی ہے ایسا رشتہ جس میں بندھنے کے بعد لڑکے کی ہر پسند لڑکی کی اور لڑکی کی ہر پسند لڑکے کی پسند بن جاتی ہے شوہر کی ناپسند اور بیوی کی پسند کا ڈھونگ تو تب پیٹا جائے گا نا جب شوہر اور بیوی پسند کے ہوں گے ہمارے ہاں ذیادہ تر شادی شادی نہیں بلکہ لڑکیوں کی بربادی ہوتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہمارے ہاں کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ٹھہرا کہ ہم لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں پھر چاہے وہ گھریلو پہلو ہو یا سماجی پہلو ہو گھر بسانے کی بات ہو یا گھر گرانے کی کیونکہ اگر گھر بسانے کی بات کی جائے تو یہاں لڑکوں کو اپنی پسند ناپسند بتانے کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے وہ جہاں چاہیں جب چاہیں جیسا چاہیں اپنا بیاہ کر سکتے ہیں اپنی من پسند کی لڑکی کے ساتھ شادی رچا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف اگر لڑکیوں کی بات کی جائے تو جیسے ہی ہمارا ہاتھ لڑکوں کے معاملے میں فراخ ہوتا ہے لڑکیوں کی بات آتے ہی اتنا ہی سکڑ جاتا ہے اتنا ہی تنگ پڑ جاتا ہے ''وہ لڑکی ہے'' کہہ کر اسکے ارمانوں کا جنازہ ڈولی میں بٹھا کر نکال دیا جاتا ہے اور اگر کوئی لڑکی ہمت کر کے اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھ بھی دے تو خاندان والے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کل کو کوئی نیا گل نہ کھلا دے راتوں رات اسکی شادی کسی بھی نشئی نشیڑی چرسی سے کر دیتے ہیں بغیر یہ جانے بغیر جانچ پڑتال کئے کہ آیا کہ یہ لڑکا اس کے لئے اچھا شوہر ثابت ہو گا بھی یا نہیں اسے وداع کر دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
دوسری طرف اگر بات کریں گھر گرانے کی یعنی کہ شادی کے بعد اگر لڑکی اور لڑکے میں نہیں بنتی تو وہ علیحدہ ہو جاتے ہیں اب اگر یہاں بھی دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ یہاں بھی لڑکی کو تنگ نظری کی چکی میں پیس کے رکھ دیتا ہے اگر علحیدگی کا خواہش مند لڑکا ہو تب بھی قصور وار لڑکی ہی گردانی جائے گی اور اگر کسی صورت میں کسی وجہ سے لڑکی خلع کا کیس دائر کر دے تب بھی لڑکی کی ہی عزت بیچ بازار نیلام کر دی جاتی ہے ہمارے معاشرے میں کنواری لڑکی کی شادی ایک شادی شدہ مرد سے ہنسی خوشی کر دی جاتی ہے چاہے اس مرد کی تین تین شادیاں ہو چکی ہوں لیکن طلاق یافتہ عورت کو کوئی اپنانا نہیں چاہتا کیونکہ اس کے ماتھے پر طلاق کا ٹیگ لگ چکا ہے افسوس صد افسوس کہ ہم نے ہندؤں کی جاہلانہ رسومات کو اپنا شیوا بنا لیا ہوا ہے جو کہ آئے دن ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں سولی پر چڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ پمارے بوڑھے ہمارے بزرگ اپنی عزت کی لاج رکھنے کے لئے اپنا سر اونچا رکھنے کے لئے اپنی پوتی پوتیوں کے رشتے بغیر کسی سے صلاح مشورہ کئے بغیر لڑکی اور لڑکے کی مرضی جانے اپنے رشتہ داروں میں طے کر دیتے ہیں اب چونکہ وہ بزرگ ہوتے ہیں اور ہمیں بچپن سے یہی سکھایا جاتا ہے کہ بزرگوں کا احترام کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے پھر اسی فرض فرض نہیں بلکہ اسے اگر جاہلانہ قدم یا ہٹ دھرمی کہا جائے تو بہتر رہے گا کیونکہ لڑکی اور لڑکے کی مرضی کے بغیر انکا رشتہ طے کرنا شریعت کے منافی آتا ہے لیکن ہم اپنے بزرگوں کی بات کا مان رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو زبردستی شادی کرنے پر اکسا کر انھیں اس گٹھ بندھن میں باندھ دیتے ہیں یہ سرا سر جاہلانہ پن ہے اور کچھ نہیں کیوں نہ وہ دور اب چلے گئے جب لڑکی اور لڑکے کی شادی مرضیوں سے نہیں بلکہ خانداں کے بزرگ اور وچولے کیا کرتے تھے جب لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کو پہلی بار صرف اور صرف شادی کی رات ہی دیکھا کرتے تھے اب زمانہ بدل چکا ہے کیونکہ جوں جوں سائنس نے ترقی کی ہے توں توں انسان کی سوچ بھی ایڈوانس ہوئی ہے اب بزرگوں کی بات کا مان رکھو یا نہ رکھو یہ میٹر نہیں کرتا بلکہ یہ میٹر کرتا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی سوچ کس قدر آپس میں میل ملاپ کھاتی ہے کس قدر آپس میں ملتی ہے آیا کہ وہ آنے والی زندگی میں ایک دوجے کے ساتھ ایڈجسٹ کر پائیں گے؟ اب یہ سب باتیں دیکھی جاتی ہیں اب کنڈلیاں نہیں ملائی جاتی بلکہ نظریں ملائی جاتی ہیں۔
ایک قصہ سنانا چاہوں گا ہمارے علاقے میں یوں ہی ایک بزرگ نے اپنی ہوتی کا رشتہ اپنے رشتہ داروں میں طے کر دیا بغیر کسی سے پوچھے بغیر کسی کو بتائے لیکن جب بعد میں پتہ چلا تو لڑکی نے اپنا سر پیٹ لیا کہ یہ کیا غضب ہو گیا وہ لڑکا تو سگریٹس پیتا ہے مجھے تو اس سے شادی نہیں کرنی لیکن بزرگ صاحب اپنی بات پر بضد اٹے رہے اور اس ضد میں اللہ میاں کو پیارے ہو گئے اب چونکہ ہمارے ہاں مرنے والے کی آخری خواہش کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور پھر جب مرنے والا ہو ہی بزرگ تو اس خواہش کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ اسے ہر صورت پورا کیا جاتا ہے بس اسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انھوں نے زبردستی لڑکی کا لڑکے سے نکاح پڑھوا دیا اور رخصتی بعد میں کریں گے کا کہہ کر لڑکے والوں سے تھوڑا وقت ادھار مانگ لیا
اب آپ پل بھر کو سوچیں کہ چلو مان لیتے ہیں کہ وہ لڑکی اپنی ماں باپ کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے ان کے آنسوؤں کے سامنے اپنی انا ڈھیر کر کے اپنے ارمانوں کا خون کر کے اس لڑکے کے ساتھ وداع ہو کر چلی جاتی ہے اک ایسے لڑکے کے ساتھ جسے وہ اپنانا تو دور کی بات دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تو کیا آپ کو لگتا ہے وہ اس لڑکے کے ساتھ نباہ کر پائے گی؟ کیا آپ کو لگتا ہے انکا نباہ ہو پائے گا؟ مجھے تو نہیں لگتا کیوں کہ شادی صرف بچے پیدا کرنے کا نام نہیں ہے شادی صرف نکاح کا نام نہیں ہے بلکہ شادی نام ہے ایک خوبصورت بندھن کا اک ایسا بندھن جس میں لڑکے اور لڑکا(میاں اور بیوی) اک دوجے پر جان چھڑکیں اک دوجے کے ساتھ ہنسی خوشی مل کر رہیں تب جا کر یہ بندھن ایک کامیاب بندھن کہلائے گا تب جا کر اسے شادی کا نام دیا جاسکتا ہے وگرنہ یہ ایک گٹھ بندھن ہی رہے گا اس سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔
شادی صرف اور صرف ساتھ رہنے زندگی گزارنے اور آخر میں مر جانے کا نام بھی نہیں ہے دراصل ماں باپ کے بعد لڑکی کے لئے اسکا شوہر وہ واحد بندہ ہوتا ہے جو اسکا درد سمجھ سکتا ہے اسے جان سکتا ہے بشرطیکہ شادی حقیقی معنوں میں شادی ہوئی ہو اگر شادی شادی کم اور ''باجھا'' پنجابی کا لفظ جسکا مطلب ہے کہ زور زبردستی بنا رضامندی کے شادی طے پائی ہو پھر ایسے میں لڑکی نہ تو شوہر کے ساتھ کوئی ایڈجسمنٹ کرے گی نہ ہی انکی آپس میں بن پائے گی بلکہ یہ شادی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک بوجھ سمجھی جائے گی جسے زندگی بھر طعنوں اور کبھی کبھار سلاوتیں سنا کر ہلکا کیا جائے گا
شادی ہونے کے بعد آپ نے ہم نے اکثر دیکھا ہو گا کچھ جوڑے موٹے ہو جاتے ہیں مطلب کہ صحت مند ہو جاتے ہیں پہلے سے ذیادہ پھل پھول جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر سبھی کہتے ہیں انھیں شادی لگ گئی ہے یعنی راس آ گئی ہے اور کچھ شادی ہونے کے بعد کہیں کے بھی نہیں رہتے سبھی نہ سہی لیکن ذیادہ تر جوڑے آپس میں گھل مل جانے کی وجہ سے آپس میں اچھی انڈرسٹینڈنگ ہونے کی وجہ سے نئی زندگی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور کچھ آپس میں اک دوجے کی نیچر پسند نہ آنے کی وجہ سے ان بن بننے کی وجہ سے کچھ جوڑے ٹینشن میں رہنے لگ جاتے ہیں اور ٹینشن کے بارے میں جیسا کہ مشہور ہے کہ یہ تمام تر بیماریوں کی جڑ ہوتی ہے اور یہی ٹینشن بعد میں پھلتی پھولتی ایک اچھے خاصے رشتے کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے
جو بات اب تک میں نے اپنے تجربات و مشاہدات سے اخذ کی ہے وہ یہ ہے کہ شادی میاں اور بیوی کے درمیاں ایک بہت ہی کچی تند کی مانند ہوتی ہے جسے ٹرسٹ اعتماد نامی ایلفی آپس میں جوڑ کر رکھتی ہے اور اعتماد تبھی پیدا ہوتا ہے جب رشتے میں الفت ہو پیار ہو انس ہو اگر رشتے میں پیار ہی نہ ہو گا تو اعتمادی کہاں سے آئے گی اور جب اعتمادی ہی نہ ہو گی تب ایسی شادیاں ٹوٹنے میں ذرا سی دیری بھی نہیں لگتی دل چاہے تو آج نکاح ہوا کل لڑکی ناراض ہو کر میکے آ جائے کہ مجھے اس شخص کے ساتھ نباہ نہیں کرنا میں یہ نہیں کہتا کہ لڑکے اور لڑکیوں کو کھلے عام گھر کے رسموں رواجوں اور بڑوں کی عزتوں سے کھیلنے کی اجازت دے دی جائے نہیں میں یہ بھی نہیں کہتا کہ سبھی لڑکے لڑکیوں کے کردہ فیصلے ٹھیک ہوتے ہیں اور نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ماں باپ کے فیصلے غلط ہوتے ہیں کیونکہ ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کا بھلا ہی سوچتے ہیں کوئی بھی ماں یا باپ یہ نہیں چاہے گا کہ اسکی اولاد کا گھر بسنے سے پہلے اجڑ جائے لیکن کم سے کم انھیں اتنی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اس شخص کو اپنے لئے چن سکیں جس کے ساتھ انھوں نے اپنی ساری زندگی گزارنی ہے کیونکہ شادی کوئی پل دو پل کی بات نہیں ہے بلکہ شادی نام ہے اپنی زندگی کو ہمیشہ ہمشیہ کے لئے اک ایسے شخص کے نام کر دینا جسے شاید کبھی دیکھا بھی نہ ہو اس لئے کم سے کم وہ شخص ان اشخاص کی فہرست میں سے ہونا چاہیے جس کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ بنانے میں ذیادہ وقت نہ لگے جانتے ہو ہمارے ہاں ذیادہ تر ماں باپ ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے ڈپریشن دل اور نجانے کتنی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اگر اوور آل پرسنٹیج نکالی جائے تو کم سے کم چالیس فیصد ایسے کیس ملیں گے جہاں ماں باپ کی آدھی عمر اولاد کے طعنے اس لئے سننے میں بیت جاتی ہے کہ انھوں نے ماں باپ کی مرضی سے شادی کی ہمارے ہاں کی ایک دلخراش یہ ہے کہ جب بیٹا چھوٹا ہوتا ہے تب ماں باپ بولتے ہیں اور بیٹا سنتا ہے لیکن آجکل ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تب وہ بولتا ہے اور ماں باپ سنتے ہیں اس لئے اس مسلہ کا اور خود کو ان سلاوتوں اور طعنوں سے بچانے کا ایک آسان حل ہے لائف پارٹنر چننے کا ٹھیکہ آپ اولاد کو دیں تا کہ کل کوئی آپ کو یہ کہہ کر کوسنے والا نہ ہو کہ انھوں نے آپ کے کہنے پر اس سے شادی کی
اس لئے ہمیں فیصلہ خود کرنا ہو گا کہ آیا کہ ہم نے اپنی شادیوں کو شادی بنانا ہے یا کہ بربادی میری مانیں تو شادی کو شادی بنائیں نہ کہ بربادی۔۔۔۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.