عید قربان کی خوشیاں

منگل 7 جولائی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

آج سے تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے ماہ رمضان کی برکتیں و رحمتیں سمیٹنے،عیدالفطر کی خوشیاں جھولیوں میں بھرنے کے بعد آجکل ہر مسلمان اپنے آنے والے اسلامی تہوار عید قربان کی خوشیوں سے استفادہ ہونے کے لئے کوشاں ہے عیدالفطر پر جہاں سبھی روزے دار رمضان کے مہینے میں خداتعالی کا فرمان سمجھتے ہوئے خود کو ہر حلال چیز سے دور رکھتے ہوئے کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں وہیں عید قربان کے آتے ہی سبھی مسلمان اپنے دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت کو زندہ رکھتے ہوئے خدا تعالی کے جاری کردہ فرمان اور بتلائے گئے اصولوں کے مطابق مختلف قسم کے حلال جانور اللہ تعالی کی راہ میں قربان کرتے ہیں اور ثواب کماتے ہیں اور اس قربانی کا گوشت نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے غریب و غرباء کو بھی کھلاتے ہیں شاید تاریخ میں پہلی بار ایسی دو عدییں عیدالفطر اور عید قربان گزریں گی۔

(جاری ہے)

جب پہلی بار بازار پہلے سے قدرے سونے سونے دیکھائی دیں گے۔ کیونکہ کورونا کے باعث لاکھوں لاشیں گرنے کے سبب انسانیت کے ناطے تمام تر دل غم میں ڈوبیں پھر رہے ہیں۔ ایسے میں خوشیوں میں شراکت سے دل تھوڑا اچاٹ ہوتا نظر آتا ہے۔لیکن پنجابی میں کہتے ہیں نا۔
''مریاں اویاں دے نال مر نئی جائی دا ہندا''

یعنی اپنا دل چاہے لاکھ غمزدہ ہو۔

اپنے پیاروں کا دل رکھنے کے لیے لش پش نہ سہی کم سے کم ڈھنگ کے کپڑے تو پہننے ہی پڑتے ہیں۔ اپنے لئے نہ سہی کم سے کم خداتعالی کی رضا کے لئے بکرا منڈی کا رخ کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ اگر نارمل دیکھا جائے تو اگر ہمارے گھر میں کوئی فوتگی ہو جائے تو کم گوشت پکانے کو تھوڑا معیوب سمجھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ابھی ابھی جواں لاشہ گھر سے اٹھا ہے اور اب یہ بوٹیاں اڑا رہے ہیں۔

اسی گہما گہمی کے چکر میں اس دفعہ بھی بازار کھچا کھچ نہ سہی،بکرا منڈیاں زوروں پر نہ سہی پر اتنی ضرور بھری ہوئی ہیں،کہ چاروں طرف نظر دوڑانے سے ہنستے کھیلتے چہرے دیکھ کر خود کے غم بھول کر ان میں کھو جانے کا دل کرتا ہے۔ عید یوں تو ہر سال آتی ہے۔ ہم عید کی خوشیوں سے روح کو تروتازگی بھی خوب بخشتے ہیں۔پھر چاہے وہ عیدالفطر ہو یا چاہے عید قربان مگر ایک خاص حد تک۔

کیونکہ جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی ویسے ویسے کچھ نا کچھ انہونی ہونی ہی رہتی ہے۔ اور پھر اس انہونی سے کچھ انہونا بھی ضرور ہوتا ہے۔ جس میں بہت سے اپنے اپنے سے دور چلے جاتے ہیں۔ کہیں عید گاہ میں عید پڑھتے نمازیوں پر بم بلاسٹ کا سننے کو ملتا ہے۔ تو کہیں بارڈر پر کھڑے ہمارے دھرتی ماں کے سپوت عید کے دن اپنے دھرتی مان کی رکھوالی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔

ایسے میں زمانہ چاہے لاکھ کہے لاکھ نئے کپڑے پہن لیں۔ ہم بظاہر تو یہیں ان اپنوں کے پاس ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا دل اور روح ان اپنوں کے پاس ہوتی ہے۔ جن کے پاس ہم چاہ کر بھی نہیں جا سکتے۔ کیونکہ آجکل کے دور میں جہاں گاڑیاں ہیں بائیکس ہیں ہر سہولت میسر ہے۔ اگر ہمیں کسی اپنے کی یاد بہت سخت ستا رہی ہو تو ہم پل بھر کی دیری میں اس تک پہنچ سکتے ہیں۔

مگر جو چل ہی ایسے سفر پر دیئے ہوں جہاں تک نہ تو جانا ممکن ہو اور نہ وہاں سے آنا ممکن ہو۔ پھر ایسے میں عید گھر عید گھر کم اور ماتم کدہ ذیادہ لگتا ہے۔
ہماری جو سانسیں خود کی لکھی ہیں۔ وہ تو ہمیں ہر صورت لینی ہی لینی ہیں پھر چاہے وہ کسی کی دوری کو خداتعالی کی رضا مان کر لی جائیں۔ یا اس دوری کو اک جوگ سوگ بنا کر خود پر اوڑھ کر لی جائیں۔

ایسے میں پھر دل پر پتھر رکھ کر بھی چاند رات کو زمانے کو دکھانے کے لیے ہی کیوں نہ سہی چھت پر جانا ہی پڑتا ہے۔ اگر بات کی جائے عید قربان کی تو وہ سبھی کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہر سال اسلامی کیلینڈر کے خری مہینہ کی دس تاریخ کو ہی منائی جاتی ہے اس کے لئے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن آپ اسے رسم کہہ لیں یا ریت رواج لیکن ہمارے ہاں عید قربان کے چاند کی بھی مبارک عیدالفطر کے چاند کی طرح ہی دی اور لی جاتی ہے۔

بعد میں بیشک کمرے کا کواڑ بند کر کے آنسوؤں کی ندیاں بہائی جائیں۔ کسی کا دل رکھنے کے لیے آنسو بہتی آنکھوں سے تھرتھراتے لبوں اور کانپتے ہاتھوں سے عید کی خوشیاں مبارک کا ایس۔ایم۔ایس ٹائپ کر کے ان پیاروں کو بھیجنا ہی پڑتا ہے۔ جن کی سانسیں ہمارے دم سے چلتی ہیں۔ جو ہمیں دیکھ دیکھ کر زندہ رہتے ہیں۔
کس کھوئے ہوئے اپنے کی تصویر کا گلے سے لگا کر چاند رات آنکھوں میں کاٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

پھر ایسے میں صبح صادق اٹھ کر نماز عید کی تیاری میں جت جانا اور واپس آ کر جانور زبح کرنے اور اسے غریب و غرباء میں تقسیم کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا یہ سب کرنا گویا کہ ایسا ہے( گویا کہ محاذ جنگ پر کھڑے ہوں سینہ گولیوں سے چھلنی ہو لیکن پھر بھی دشمن کا مقابلہ بڑی بہادری سے کر رہے ہوں) اس کے موافق ہوتا ہے۔
لیکن ہمیں اپنا غم دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر کے ان کی خوشیوں کی خاطر ان کی خوشیوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔


جانتے ہو ضروری نہیں کہ عید ہو تبھی ہم عید کی خوشیوں سے لبریز ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم زندگی کے جھیل جھمیلوں سے نکل کر اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی سے مصروفیت پا کر باہر نکل کر دیکھیں یہی خوشیاں ہمیں ہر آئے دن اپنے ارد گرد دیکھنے کو ملیں گی۔ یہ ہنستے کھلکھلاتے چہرے روزمرہ یونہی کھلکھلاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ شاید ہم ہی اپنی الجھنوں میں اس قدر الجھ چکے ہیں۔

کہ ہمیں اپنا آپا کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
عید کے آداب و احکام
حدیث پاک میں آتا ہے۔ جسکا مفہوم ہے۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الفطر کے دن کچھ کھائے بنا عیدگاہ کا رخ نہیں فرماتے تھے۔اور عیدالضحی کے دن نماز عید سے پہلے کچھ تناول نہیں فرماتے تھے۔
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی اس بات کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنا چاہیے۔

اس بات کو اپنی زندگی کا شیوا بنانا چاہیے کہ چاہے چند نوالے میٹھے چاول ہی کیوں نہ ہوں۔ عیدالفطر ادا کرنے سے پہلے ضرور تناول کرنے چاہیے۔ اور آئندہ والے دنوں میں جب عید قربان ہماری دہلیز پر ہو گی تب یاد رکھیں کہ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے کچھ بھی تناول نہ کیا جائے۔
کیونکہ ایک حدیث کو زندہ کرنے کا ثواب سو شہیدوں کے برابر ہوتا ہے۔

اس لیے ہمیں اس دنیا فانی میں جتنا ہو سکے نیکیاں کما لینا چاہیے۔ نہیں تو روز قیامت خود کی بخشش کے لیے ایک نیکی بھی اگر کم پڑ گئی تو مانگنے سے بھی کوئی نہیں دے گا۔
اگر ہم بات کریں عیدالفطر کی تو چونکہ ہمارے ہاں جیسا کہ یہ مسئلہ بہت ہی عام ہے کہ ہم شرعی مسئلہ پوچھنے سے بہت کتراتے ہیں بے شک ہمیں اسکا علم ہو یا نہ ہو ہم اپنی توہین سمجھتے ہوئے کسی مولوی یا کسی عالم سے رجوع کرنا اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں لیکن یاد رکھیں ہمیں ہر مسئلہ کا علم ہونا چاہیے خاص طور پر ان شرعی مسئلوں کا جن کے بغیر ہمارا قطع گزارا نہیں اسی مسئلہ کے پیش نظر عیدین کے حوالے سے چند ایک اہم باتیں میں ضرور بتلانا چاہوں گا جسکا علم ہم سب کو ہونا چاہیے اگر ہم بات کریں عیدالفطر کی تو
حدیث میں آتا ہے۔

آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالفطر کی نماز سے پہلے چھوہارے تناول فرماتے تھے۔ یاد رہے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ طاق اعداد میں چھوہارے تناول فرماتے تھے۔
ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک عیدگاہ کا رخ نہیں فرماتے تھے۔ جب تک صدقہ عید(فطرانہ) سے اپنے صحابہ کو دے نہ لیتے تھے۔
ایک بات کا خاص خیال رکھا کریں۔

جب فطرانہ دینے کا سلسلہ شروع کریں۔ تو ضروری نہیں کہ جتنا کہا جائے اتنا ہی دیا جائے۔ آپ پر ہیڈ کے حساب سے جیسا شریعت میں طے ہے۔ اتنا دے کر اس کے علاوہ صدقہ کی نیت سے غریبوں کو دے کر انکی داد رسی کر دیا کریں۔ کیونکہ صدقہ موت کو ٹالتا ہے۔ کیونکہ سال بھر کی کمائی سے سال بھر کے خدا کے دیئے ہوئے مال میں سے اگر سال میں ایک آدھ بار خدا کی ہی راہ میں خرچ کرنا پڑ جائے تو کوئی موت نہیں آ جائے گی۔

اگر ہمارے دینے سے کسی کے گھر کا چولھا جل اٹھے تو میں سمجھتا ہوں اس سے بڑھ کر اور کوئی نیکی جہاں میں نہیں۔
اگر دوسری جانب بات کریں عیدالضحی کی یعنی عید قربان کی تو اس عید کے حوالے سے چند ایک معمولی مگر اہم باتیں اپنے ذہن نشین ضرور کر لیں
پہلی بات جیسا کہ میں نے اوپر حدیث بیان کی حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اگر عیدالضحی پڑھنے سے پہلے کچھ تناول نہ فرمائیں اس لئے اس بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس پر ضرور عمل کریں اور جب عید پڑھنے کے لئے عید گاہ کا رخ کریں تو جس رستہ سے عید گاہ کی طرف جائیں عید پڑھنے کے بعد اس رستے سے واپس نہ آئیں بلکہ کسی اور رستہ سے واپس گھر کو لوٹیں
عید گاہ روانہ ہوتے وقت اپنی زبان کو تکبیر سے معطر رکھیں
حتی الامکان کوشش کیا کریں کہ قربانی کے جانور کو خود اپنے ہاتھوں سے زبح کریں خود اپنے ہاتھوں سے اسکی کھال اتاریں اسکی بوٹیاں کریں اور خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسکے تین حصے کریں جیسا کہ عموما ہمارے ہاں رواج پایا جاتا ہے کہ ہم شہروں سے قصائی بلوا لیتے ہیں جو آؤ دیکھا نا تاؤ منٹوں سیکنڈوں میں ذبح کر کے اسکی بوٹیاں کر کے گوشت ہمارے حوالے کر کے چلے جاتے ہیں کیونکہ انھیں باقی گھروں کی قربانیاں کرنے کی جلدی ہوتی ہے ایسے میں دل مطئمن ہو پانا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے کوشش کیا کریں خود اپنے ہاتھوں سے زبح کریں تا کہ سارے کا سارا ثواب آپ کے حصے میں آئے
اگر کسی مجبوری کے تحت قصاب سے قربانی کروانی بھی پڑ جائے تو ایک کام ضرور کیا کریں قربانی کرواتے وقت جانور ذبح ہوتے وقت اپنے جانور کے پاس رہا کریں
قربانی کے عموما تین حصے ہوتے ہیں
پہلا حصہ اپنا
دوسرا حصہ رشتہ داروں کا
تیسرا حصہ غریب و غرباء کا
حصہ کرتے وقت ایک بات کا خصوصا خیال رکھیں کہ اگر آپ کے پاس ناپ تول کرنے والا آلہ موجود ہو تو حصے کرنے کے لئے اسکا استعمال کریں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہ جائے اور دلی تسکین مکمل ہو جائے
دوسری بات جو عموما ہمارے معاشرے میں ایک ناسور بن کر ابھر چکا ہے ہماری گھریلو خواتین حصے بناتے وقت ڈنڈی مار جاتی ہیں اعلی قسم کی بوٹیاں اپنے حصے میں اور کم تر قسم کی بوٹیاں غریب و غرباء کے حصے میّ ڈالنے سے ذرا بھی باز نہیں آتیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری قربانی بس پھر گوشت بن کر ہی رہ جاتی ہے اسکا ثواب ختم ہو جاتا ہے قربانی کے جانور کے گوشت کے سبھی حصے کاٹ کر انھیں آپس میں مکس اپ کر لیا کریں پھر حصے بنایا کریں تا کہ قربانی صحیح معنوں میں قربانی بن جائے۔


بچپن کی وہ عید نجانے کہاں کھو گئی۔
ہماری ایڈوانسمنٹ نے ہمیں ہماری اصلیت ہی بھلا دی۔ ہم کیا تھے کب تھے کیسے کیا ہو گئے کسی کو کچھ خبر نہیں کچھ فکر نہیں۔ یاد ہیں وہ دن جب پندرہ رمضان سے عیدی بھیجنے اور رسیو کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاتا تھا؟ یاد ہے وہ دن جب چاند رات کو نانا نانی داد دادی ماں باپ سے پیسے لے کر پٹاخے چلانے کی غرض سے ساری ساری رات گھر سے باہر رہا کرتے تھے؟ یاد ہیں وہ دن جب
ڈبے میں ڈبا ڈبے میں کیک
میرا یار لاکھوں میں ایک
ایسے شعر لکھ کر ساتھ ڈھیرو ڈھیر چھوٹے چھوٹے تحائف پیک کر کے دوستوں رشتہ داروں کو بھیجا کرتے تھے۔

جب عید کے دن مہمانوں سے کھچا کھچ بھری گاڑیوں کی گاڑیاں ہمارے گھروں کی دہلیزوں پر بریکس لگاتی تھیں؟ اور ہم دوڑے چلے آتے تھے انکا استقبال کرنے۔ اب اگر دیکھا جائے تو ایک طرف مہمان آیا نہیں کہ اسے نحوست سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہم اپنی قدریں کھو چکے ہیں۔
عید قربان کے لئے لائے گئے قربانی کے جانور کو عید سے پہلے کے دنوں میں گھمانے لے جایا کرتے تھے اسے اپنے ہاتھوں سے چارہ کھلایا کرتے تھے
عید قربان پر صبح صادق اس لئے جلدی اٹھ جایا کرتے تھے کہ قربانی کے جانور کو عید کے بعد پھر کبھی دیکھ نہیں پائیں گے اس لئے آج جی بھر کر دیکھ لیا جائے قربانی کے گوشت سے بنائے گئے رشتہ داروں اور غریب و غرباء کے حصوں کو نہایت ہی شوق اور خوش دلی سے پلیٹوں میں بھر کا انکے گھر تک پہنچا آتے آتے تھے تا کہ اپنے یاروں دوستوں سے مل سکیں اور پتا کر سکیں آیا کہ انھوں نے کیا ذبح کیا ہے اور کہاں تک پہنچے ہیں اور دل چاہا تو گوشت دینے گئے اور شام تک وہیں بیٹھے گپیں ہانکتے رہے
غرباء کی عید کو چار چاند کیسے لگائے جائیں؟
ذیادہ نہ سہی لیکن ہم سے جہاں تک ممکن ہو سکے ہم عید کو اپنی بساط و اوقات کےمطابق بہت اچھے سے اینجوائے کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ٹھہرا کہ ہم خود کی خوشیوں میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں۔ کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں ہمارے غریب پڑوسی نجانے کس حال میں ہوں گے۔ ایسے میں ان غریب بھائیوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ کیونکہ خداتعالی کا ارشاد ہے۔
میں حقوق اللہ تو معاف کر سکتا ہوں لیکن حقوق العباد نہیں۔
اگر کوئی ہمارے اڑوس پڑوس میں ہمارا کوئی غریب بھائی بھوک سے مر رہا ہو۔

فاقے سے مر رہا ہو۔ اور ہم خوشیاں منانے میں لگیں ہوں گے۔ تو اسکی پوچھ پکڑ ہم سے ہو گی۔ اس لیے آئیے کچھ اچھا کرنے کا عزم لیتے ہیں۔
ہم آج بھی عیدالفطر پر میٹھے چاولوں کی ایک پلیٹ لیے ساتھ میں چند سو عیدی لیے کسے غریب کے در دستک دے سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اس غریب کی عید کا مزہ دوبالا ہو گا۔بلکہ آپ سینہ بھی ایمان سے منور ہو گا۔ مگر شاید ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔

کیونکہ بچپن میں ہم ''ایگو''نامی لفظ سے واقف نہ تھے اب تو خیر ہم ''میں'' لفظ سے بھی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ سب ہماری بربادی کا سامان جو ٹھہرے۔ جنہوں نے بڑاوے کی اک ایسی کلی ہماری گردن میں اٹکا رکھی ہے۔ جو ہمیں کسی کے اگے سرنگوں ہونے نہیں دیتی۔ سوائے موت کے اس کلی کو توڑ پانا اس جہاں میں تو شاید ایسا ہو پانا ممکن نہ ٹھہرا
رمضان گزرتے ہی چاند رات کو جہاں سب لوگ عید آنے کے شادیانے بجا رہے ہوتے ہیں۔

وہیں ایک غریب میاں بیوی اس سوچ میں مگن ہوتے ہیں۔ کل کو اگر ہمارے گھر سے کچھ میٹھا پک کر اڑوس پڑوس رشتہ داروں کے ہاں نہ گیا تو وہ کیا سوچیں گے؟ کہ سال میں ایک دو بار تو عید آتی ہے۔ یہ کنجوس اللہ کے نام پر میٹھی چیز کا نیاز بھی نہیں دلوا سکتے؟ ایسے میں اس غریب کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے۔ اور وہ ہوتا ہے قرضے کی پوٹلی سر پہ اٹھانے کا۔
اور ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوتا یہ ہر دن ہر ہفتہ ہر ماہ اور سال میں نجانے کتنی دفعہ ہوتا ہے۔

جب پیٹ پالنے کیلئے غریب اپنی عزت نفس کا سودہ چند نوٹوں سے کرتا ہے۔ کیا تم آسان سمجھتے ہو کسی کے آگے جھولی پھیلانا؟
ایسے میں امراء طبقے کا حق تو یوں بنتا ہے، کہ ان غریبوں کی جھولی پھیلنے سے پہلے ہی ان میں حسب توفیق کچھ ڈال دیا جاوے۔ مگر  گردن کی کلی کا بھی تو بھرم رکھنا پڑتا ہے نا۔ ایک گاؤں کا وڈ وڈیرا چند پیسے دینے کیلئے ایک غریب کے در پر دستک دیتا اچھا تھوڑی نا لگے گا۔

لیکن یہ سب اکڑ ہے اور کچھ نہیں۔ ایسا سوچنا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور آخر میں لوگ یہی کہتے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
خدارا غریب بھی انسان ہوتے ہیں۔ یہ زات سٹینڈرڈ اور پیسوں کی اوچ نیچ یہ سب میٹر نہیں کرتے۔ اس دنیا سے آج تلک کوئی بھی کچھ بھی لے کر نہیں گیا۔ سکندر جیسے عظیم بادشاہوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ جن کی حکومت پوری دنیا پر ہوتے ہوئے بھی جب انھیں قبر میں اتارا گیا تب ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔


عید قربان کے معاملے میں بھی ہمارا طرز عمل کچھ یوں ہی ہونا چاہیے خیال رکھا کریں قربانی سے ایک دن پہلے اپنے گلی محلے کے غریب غرباء کی لسٹ بنا لیا کریں اور جب آپ قربانی کے حصے بنانے سے فارغ ہو جائیں تو چند ایک شاپر لے کر ان میں حسب توفیق گوشت ڈال کر اس لسٹ میں درج کردہ لوگوں کے گھر وہ شاپر پہنچایا کریں اور ہو سکے تو ساتھ میں کچھ پیسے بھی دے دیا کریں ضروری نہیں کہ آپ نے عیدالفطر پر فطرانہ دے دیا تو یہ ہی کافی نہیں بلکہ ہر دن ہر مہینہ ہر سال صدقہ کے طور پر ان غرباء کے گھر حسب توفیق پیسے پہنچا دیا کریں تا کہ انکا چولھا جل سکے
کوشش کیا کریں عید کی خوشیوں سے کوئی بھی محروم نہ رہ جائے صرف اس بیس پر کہ اسکی جیب میں ان خوشیوں میں شرکت کیلئے پیسے نہیں ہیں وہ گھر کی دہلیز کے اندر ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا رہ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :