کالم نگاری کے چند اہم اصول

جمعہ 10 جولائی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

مجھ سے اکثر میرے دوست پوچھتے ہیں کہ تم آئے دن کالم لکھتے ہو اتنا مواد کہاں سے لاتے ہو اتنی گہری باتیں کہاں سے آتی ہیں تمہارے ذہن میں؟ یہ آئے دن نت نئے ٹاپک کہاں سے لاتے ہو؟ میں ہمیشہ یہی دو ٹوک جواب دیتا ہوں کہ پل بھر کو اپنی چاروں طرف نظر دوڑا کے دیکھو ٹاپک بھی مل جائے گا اور مواد تو اتنا ملے گا کہ ان کو لفظوں میں ڈھالنے کے لئے شاید لفظ کم پڑ جائیں
کالم نگاری کرنے کے لئے میں نے جو اصول خود کے بنائے ہوئے ہیں آج ضرور بتانا چاہوں گا شاید مجھ بندہ ناچیز کی اس کم عمری کی یہ ٹوٹی پھوٹی محنت اور ذیادہ نہ سہی تھوڑا بہت تجربہ کسی کی اصلاح کرنے میں کام آ جائے
اصول نمبر ایک( موضوع کا چناؤ)
سب سے پہلا کام جو ہر کالم نگار کو کالم شروع کرنے سے پہلے اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے وہ ہے موضوع کا چناؤ۔

(جاری ہے)

کالم نگار کی سب سے پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ایسے مسئلہ کو اپنے کالم کا موضوع بنائے جو لوگ پڑھنا پسند کرتے ہو جس مسئلہ کی طرف لوگوں کی اٹینشن ذیادہ ہو اگر موضوع چننے کے معاملے میں میں اپنی رائے پیش کروں تو کالم نگار کی حتی الامکان کوشش ہونی چاہیے کہ کسی سوشل اشو کو اپنے کالم کا موضوع بنائے اور اسے اجاگر کرے تا کہ وہ اشو اوپر کو اٹھ کر سب کی توجہ کا مرکز بنے اور لوگوں کی نگاہ کے نیچے سے گزرے تاکہ لوگ اس اشو کی طرف اپنی توجہ پہلے سے بھی ذیادہ بڑھا کر اس اشو کو ختم کریں
جیسا کہ آجکل کچھ کالم نگار سیاست کو بھی اپنے کالم کا موضوع بناتے ہیں لیکن میں نے آج تک سیاست پر بات نہیں کی اگر کی بھی ہے تو تھوڑی بہت اصلاح کے زمرے میں وگرنہ نہیں ایک دفعہ یوٹیوب پر انور مسعود صاحب کا ایک انٹرویو دیکھ رہا تھا انھوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بات کہی کہ
A common man has no right to discuss the politics.
ان کی یہ بات مجھے بہت بھلی لگی کیونکہ ہم آؤ دیکھا نہ تاؤ سیاست کا پہلو چھیڑ تو لیتے ہیں لیکن اسکا حاصل صرف اور صرف ہمارے ریلیشن کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ سیاست کی بحث ہمیشہ دو مخالف پارٹیز کے لوگوں کے بیچ ہوتی ہے اور ہر بندہ اپنی پارٹی کو ڈیفینڈ کرتا ہے اور کچھ بھی بولنے سے گریز نہیں کرتا جسکا نتیجہ دوسرے بندے کی دل آزاری اور بعض دفعہ لڑائی جھگڑا بھی ہو سکتا ہے
ہاں البتہ آپ سیاست پر بھی بات کر سکتے ہیں حکومت کے کسی بھی سٹیپ پر آپ اپنا مؤقف دے سکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ بنا کسی پارٹی کی طرف داری کیئے کیونکہ طرف داری انتشار پھیلانے کا باعث بنتی ہے پھر چاہے وہ سیاسی طرفداری ہو یا سماجی۔


ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ موضوع قاری کی پسند کا ہو پر مؤقف آپکا اپنا ہونا چاہیے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو لکھاری اور قاری کے درمیان ربط پیدا کرتی ہے
اصول نمبر دو(تجربات و مشاہدات)
میرے بنائے گئے کالم نگاری کے اصولوں میں سے اصول نمبر دو پہ آتا ہے تجربات و مشاہدات یعنی کہ جس مسئلہ کو آپ نے اپنا کالم لکھنے کے لئے منتخب کیا ہے آیا کہ کیا آپ کے پاس اس پر بحث کرنے کے لئے اتنا علم ہے؟ کیا آپ نے اس پر تحقیق کر رکھی ہے؟ کیا آپ کو اس کے تمام تر منفی و مثبت نتائج پتا ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس مسئلہ کو ایک کامیاب و کامران طریقہ سے تمام تر پیراگرافوں کا تمام تر باتوں کی آپس میں کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے قاری تک پہنچا پائیں گے؟ کیا آپ نے لوگوں سے اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کیا ہے ؟ آیا کہ لوگوں کا اس مسئلہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ لوگوں کا اس پر کیا تاثرات ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے اس مسئلہ کے بارے میں اتنا نالج اکھٹا کر لیا ہے کہ اگر آپ کے دیئے گئے مؤقف پر کسے نے کوئی سوال اٹھایا تو آپ اس سوال کا جواب دے پائیں گے؟کالم نگاری کے لئے دوسری بنیادی  اور ضروری چیز آپ کے پاس ان تمام اوپری تمام تر سوالوں کے جواب ہونے چاہیے تا کہ آپ اپنی من چاہی بات کو باآسانی دوسروں تک پہنچا سکیں اور صرف پہنچا نہ سکیں بلکہ دوسروں کو سمجھ بھی آ سکے۔


اصول نمبر تین(الفاظ کا چناؤ)
کالم نگاری کے اصول نمبر تین کے مطابق ایک بہت ہی اہم اور ضروری بات کالم نگار کے ذہن میں ذہن نشین ہونی چاہیے کہ کالم لکھتے وقت آپ کے استعمال کردہ الفاظ ہمیشہ سادہ اور عام فہم ہونے چاہیے تا کہ کالم نگار کی بات باآسانی قاری تک پہنچ سکے ذیادہ پچیدہ اور ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہ کریں جس کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا کرنا پڑے اور وہ آپ کی بات کو آدھ ادھورا پڑھ کر بنا سمجھے آگے بڑھ جائے اور آپ کی ساری محنت بے کاری چلی جائے
اصول نمبر چار(مختصر مگر جامع تحریر)
کالم کی کم وقت میں ذیادہ لوگوں میں،ذیادہ اخبارات میں،ذیادہ ویب سائٹس پر مقبولیت کا راز کالم نگاری کے چوتھے اور بنیادی اصول تحریر کی لینتھ پر منحصر ہوتا ہے آیا کہ آپ نے اپنی تحریر کو کتنے کم اور کتنے واضح الفاظ میں وائنڈ اپ کیا ہے تا کہ قاری کو آپ کی لکھی گئی تحریر کو پڑھنے کے لئے نہ تو ذیادہ وقت درکار ہو وہ جب چاہے جہاں چاہے با آسانی چلتے پھرتے بھی آپکے مؤقف کو پڑھ سکے کیونکہ عموما آپ جب بھی کوئی کالم کوئی تحریر پبلش ہونے کے لئے کسی ویب سائٹ یا کسی اخبار والے کو بھیجتے ہیں تو ویب سائٹ کے موڈریٹرز ہوں یا اخبار کے مدیر وہ ایک بار تو ضرور آپ کے لکھے ہوئے آرٹیکل کا جائزہ لیتے ہیں آیا کہ کسی قسم کی مذہبی انتشار پھیلانے کی وجہ تو نہیں بنے گا یا انھیں مستقبل میں کسی قسم کی تنقید کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا ایسے میں اگر آپکا آرٹیکل ذیادہ لمبا ہو گا تو موڈریٹرز ہوں یا مدیر وہ بنا پڑھے اپنا وقت بچانے کے لئے آپکے آرٹیکل کو ریجیکٹ کر دیں گے اور آپ کی ساری محنت بے کار چلی جائے گی اور دوسری جانب اگر آپکا مضمون مختصر مگر جامع ہو گا تو وہ خوشی خوشی آپ کی لکھیکھ کو اپنے پلیٹ فارم کی زینت بنائیں گے۔


اصول نمبر پانچ(غلطیوں سے پاک تحریر)
کوئی بھی ویب سائیٹ ہو یا چاہے کوئی اخبار کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے پلیٹ فارم سے ایسی کوئی بھی چیز پرنٹ آؤٹ ہو کر منظر عام پر آئے جس میں بے تحاشہ غلطیاں ہوں کیونکہ اس سے نہ صرف ادارے کی ریپوٹیشن بلکہ خود لکھاری کی ریپوٹیشن پر بہت ذیادہ حرف آتا ہے اس لئے اول تو کالم یا کوئی تحریر لکھتے وقت لکھاری کو اس بات کو خصوصا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی لکھیکھ تمام تر غلطیوں پھر چاہے وہ گرائمر کی ہوں یا رموز و اوقاف کی تمام تر سے پاک ہونا چاہیے تا کہ موڈریٹرز اور مدیر کوآپ کے کالم کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے بس نظر دوڑانی پڑے نہ کہ نظر لگانی پڑے لکھاری کا حق بنتا ہے کہ کالم لکھنے کے بعد ایک بار اوپر سے کر نیچے تک دو سے تین بار اپنے کالم جو بخوبی پڑھے تا کہ کسی قسم کی کوئی غلطی یا کمی کوتاہی نہ رہ جائے اس کے بعد بھی اگر کوئی ایک آدھ رہ بھی جاتی ہے تو اسکا کوئی اشو نہیں۔

۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :