غلط چوائس

جمعہ 1 فروری 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

ہمار ے آدھے سے زیادہ مسائل اس وجہ سے بھی ہیں کہ ہم غلط چوائس کرتے ہیں کوئی بھی معاملہ ہوہم بغیر سوچے سمجھے چوائس کرلیتے ہیں اور پھر بعدمیں کہتے ہیں کہ ایسا نہ ہوتا تو ویسا ہوجاتا،ویسا نہ ہوتا تو ایسا ہوجاتا۔ان سب معاملات میں ہمار ی غلط چوائس کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ اب میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں ایک شخص دُکاندار کے پاس جاتا ہے اُسے کہتا ہے کہ مجھے کپڑ ا دکھاؤ جو کہ سستا بھی ہو اور اچھا بھی ہو دکاندار اس کی خواہش کے مطابق کپڑا دکھا دیتا ہے وہ بندہ کپڑے کے معیاراور بناوٹ کو دیکھے اور پرکھے بغیر پسند کرکے خرید کر لیتا ہے اور جب وہ سستی چیز کو استعمال کرتا ہے تو دو دن ہی گزرتے ہیں اُسے احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ کپڑا ٹھیک نہیں ہے مجھے یہ نہیں لینا تھا میں مہنگی چیز ہی لے لیتا تووہ اچھی ہوتی اور اس طرح دھوکا نہ دیتی یہ سارا معاملہ غلط چوائس ہے ۔

(جاری ہے)

اسی طرح اگر ہم تعلیم کے بارے میں بات کریں تو جب ایک طالب علم میٹرک کر لیتا ہے تو آگے طالب علم کی رہنمائی ٹھیک طرح سے نہیں ہوتی یا پھر اُسے کوئی بتانے والا نہیں ہوتا کہ اُس کے لئے کونسا کورس ٹھیک ہے ڈاکٹر اور انجینئر دو ہی کیریئر ہمار ے ذہنوں میں گول گول گھوم رہے ہوتے ہیں اور کسی کورس کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں یا شاید ہمیں بتایا ہی نہیں جاتا ،یہاں پر بھی بہت زیادہ غلط چوائس کی جاتی ہے۔

بچے کا ذہن ریاضی میں چلتا ہے لیکن اُسے بائیولوجی کے شعبے میں ڈال دیا جاتا ہے یا بچے کاذہن ٹیکنالوجی میں ہوتا ہے تواُسے زراعت کے شعبے میں ڈال دیا جاتا ہے تو غلط چوائس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ نہ ٹیکنالوجی سیکھی جاتی ہے نہ زراعت سمجھ میں آتی ہے ۔
اس لئے اگر غلط چوائس ہو تو پچھتاوا ہی ہوتا ہے اسکے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا آج ہم سیاست کے حوالے چوائس کی بات کریں تو یہاں بھی ہم غلط چوائس کرتے ہیں ہم جس نمائندہ یا لیڈر کو منتخب کرتے ہیں وہ امریکہ سے تو نہیں آتا ،لندن سے اُٹھ کر تو نہیں آتا وہ ہماری برادری ،ہمارے شہر اور ہمارے ملک کا ہی باشندہ ہوتا ہے تو ایسے شخص کو منتخب کرتے ہوئے دل و دماغ سے کیوں نہیں سوچا جاتا۔

وہ کونسلر،ناظم ،ایم پی اے ،ایم این اے ،وزیر اعلیٰ ،وزیر اعظم جو کبھی سکول ہی نہ گیا ہو وہ کیا جانے کے سکول کے طلباء کے مسائل کیا ہیں؟ تعلیم کے مسائل کیا ہیں ؟اساتذہ کے مسائل کیا ہیں؟
ایسا نمائندہ جو ہسپتال میں لائن لگ کر پرچی بنو ا کر ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر بھیڑ بکریوں کی طرح ذلیل نہ ہوا ہوجس نے اپنی باری آنے تک انتظار نہ کیا ہووہ کیا جانے کہ بیمار شخص کی سرکاری ہسپتال میں کتنی قدر ہوتی ہے ،کونسی دوائی اُسے ہسپتال سے ملتی ہے اور کونسی دوائی باہر سے لانے کا کہا جاتا ہے کونسے ٹیسٹ ہسپتال میں کیے جاتے ہیں اورکونسے ٹیسٹ بلا وجہ باہر والی لیبارٹری سے کروائے جاتے ہیں ۔

وہ نمائندہ جس نے کبھی لوکل بس میں سفر ہی نہ کیا ہووہ کیا جانے کہ کس طرح بسوں میں عوام دھکے کھاتی ہے اور کتنا کرایہ مناسب ہوتا ہے اور حقیقت میں کتنا وصول کیا جارہا ہوتا ہے ۔
وہ جس نے کبھی خود پٹرول پمپ سے پٹرول ہی نہ ڈلوایا ہو وہ کیا جانے کہ کس پیمانے کے پیچھے کیا راز ہے ۔جس نمائندے نے کبھی نوکری کیلئے اپلائی ہی نہ کیا ہو اور ٹیسٹنگ سروسز کے چارجز کی رقوم بنک میں لائنو ں میں لگ کر دھکے کھاتے ہوئے جمع نہ کروائی ہو اور پھر ٹیسٹ دینے کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر نہ کیا ہواور ٹیسٹ سنٹرکی لوکیشن ڈھونڈنے کیلئے ہر دوسرے شخص سے پاگلوں کی طرح سوال نہ کیا ہواُسے کیا خبر کس طرح بے روزگاری نوجوانوں کو ذہنی مریض بنا رہی ہے جس نمائندہ نے کبھی بازار جا کر آٹے دال کا بھاؤ نہ پوچھا ہو اُسے کیا خبر کہ کس طرح ذخیرہ اندوز بلیک میں چیزیں فروخت کرتے ہیں جس نے کبھی ڈومیسائل نہ بنوایا ہو اُسے کیا پتہ کہ کس طرح طلبہ ایک ڈومیسائل کیلئے ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور دفتروں کے دھکے کھاتے ہیں ۔

جس نے کبھی بجلی و گیس کا میٹر لگوانے کیلئے رشوت خوری اور ناجائز اعتراضات کے پہاڑوں کو عبور نہ کیا ہو اُسے کیا معلوم کس طرح غریب انسان اپنے گھر کا گیس اور بجلی کا میٹر لگواتا ہے ۔
جو کبھی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے کیلئے کبھی دفتر ہی نہ گیا ہو اُسے کیا معلوم کہ ایجنٹ کس طرح کی پھرتیاں دکھاتے ہیں اور پاکستان کا شہری اپنا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے کیلئے کتنے پیسوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

جس نے کبھی چوری ڈکیتی کی ایف آئی آر درج کرانے کیلئے تھانے کے چکر نہ لگائے ہوں اُسے کیا معلوم کس طرح پاکستان کی غریب عوام تھانوں کے چکر لگا لگا کر تھک کے چور ہوجاتی ہے اور اپنا ہی کیس واپس لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
کیوں ہم غلط چوائس کرتے ہیں ؟کیوں ایسے لوگوں کو چنتے ہیں کہ جنہیں احسا س ہی نہیں ہوتا کہ زندگی کیا ہے؟ زندگی کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے؟ ۔

اس لئے بعد میں اپنی عقل کو کوسنے کی بجائے غلط چوائس پر غور کریں اور صحیح چوائس کریں تاکہ ایسے انسان کو موقع ملے جو ان سب مسائل کوسمجھتا ہو ایسے حالات سے گزر چکا ہو یا پھراُس کے اندر ہمدردی اور انسانیت کا دکھ ہو ۔فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے تو پھر غلط چوائس کیوں؟بدلیں سوچ کو ،بدلیں چوائس کو ،بدلیں زندگی کو ،بدلیں پاکستان کو تاکہ پاکستان بھی غلط چوائس سے نکلے اور100فیصد درست چوائس کے ملکوں میں نمبرون بن جائے ۔

اس کام کیلئے ہمیں کوئی پتھر نہیں اٹھانے پڑیں گے کوئی پہاڑنہیں توڑنے پڑیں گے صرف اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے اپنی چوائس کو ٹھیک کرنا ہوگا۔چوائس ٹھیک ہوگئی تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے۔اللہ پاک ہمیں صحیح چوائس کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :