28 مئی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان

پیر 1 جون 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

28 مئی کی رات اس امید سے بالاہتمام خبریں سننے بیٹھا کہ آج یوم تکبیر کے حوالے سے حکومت کی طرف سے خصوصی تقریب کا اہتمام اور اس باوقار دن کو شایان شان طریقے سے منایا گیا ہو گا ۔حیرت اس وقت ہوئی جب بنیادی خبروں میں اس کا کہیں بھی ذکر نہ آیا۔آخر کار ن لیگ کی ایک چھوٹی سی تقریب کی خبر آئی اور اس میں بھی حکومتی اقدامات پر تنقید کا عنصر نمایاں تھا۔


اس کے بعد حکومتی عہدیداران کا مسخرہ پن شروع ہو گیا تو مایوس ہو کر اٹھ گیا۔اگلے دن کے اخبارات پر نظر ڈالی تو ایک دوسرے پر الزامات سے بھری ہوئی مکروہ خبریں ۔ن لیگ کے دھماکے کئے جانے کے اعزاز کو اپنے نام کرنے پر کسی کا تبصرہ پڑھا کہ”ن لیگ کی قیادت کا دھماکے کرنے کے اقدام کو اپنا اعزاز قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی دائی بچے کی پیدائش کے وقت آ کر اس پر اپنا حق جتانے لگے“۔

(جاری ہے)

بس پھر اخبار بھی رکھ دیا۔میں سوچنے لگا کہ ہم کیسی عجیب و غریب قوم ہیں۔ہم قومی دن اور قومی ہیروز کو بھی اپنے مفادات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ہم کامیابی صرف اسے سمجھتے ہیں جس کے ساتھ صرف ہمارے نام کی تختی پیوست ہو، ہم سچ صرف اسے جانتے ہیں جو ہماری عینک کے عدسے سے نظر آئے، اور ہمارے لئے اہمیت صرف اسی دن کی رہ گئی ہے جس کے سورج کی کرنیں صرف ہمارے آنگن میں سویرا کریں۔

ستاون اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت بننے کا دن کسی بھی مصلحت کے سبب نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہے۔یوم آزادی اگر تعمیر پاکستان کا دن ہے تو اس کی سرحدوں کو محفوظ اور ناقابل تسخیر بنانے والا دن تکمیل پاکستان کا ہے۔اس کی توقیر اور عظمت کسی بھی طوران دنوں سے کم نہیں ہے جن کو ہم قومی دنوں کے طور پہ مناتے ہیں ۔یہ بات حقیقت ہے کہ یہ کسی ایک شخص کا کارنامہ نہیں بلکہ وطن کی محبت اور اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے مسلسل عمل اور عزم کا شاخسانہ ہے۔

حکومتیں آتی اور جاتی رہیں لیکن کام جاری رہا۔ہمیں اس حوالے سے حکومتی سطح پر باقاعدہ ایک تحقیقاتی مواد شائع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلوں کو بتا سکیں کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے اور اس کام کو اللہ نے ان ان لوگوں کے ذریعے پایہء تکمیل تک پہنچایا۔لیکن یہ تو تب ہو گا جب ہم تعصب،نفرت،عداوت اور مقابلے بازی کی فضا سے بلند ہو کر سوچنا شروع کریں گے۔

سیاسی اور دیگر قیادتوں کا کردار اپنی جگہ لیکن اگر اس معاملے میں کسی شخص کی بنیادی حیثیت مسلم ہے تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جنہوں نے اس فن میں مہارت کاذکر کر کے سب سے پہلے اپنی خدمات کو ملک و قوم کیلئے پیش کیا، ایک پرکشش اور مراعات سے بھرپور نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے اورپھر دن رات اس خواب کی تکمیل کیلئے جت گئے۔وسائل اور اختیار دینا حکومتوں کا کام تھا اور اس کو بروئے کار لا کر ایک عمدہ ٹیم تشکیل دینا اور اس سے بھرپور کام لینا ان کا کارنامہ تھا۔

آخر کار انہوں نے دیگر ایٹمی قوتوں کے مقابلے میں محدود وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود یہ انہونی کر دکھائی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہاتھوں کے لمس سے شخصیت اور کردار کو جانا جا سکتا ہے ۔میں نے اس پیمانے پر سینکڑوں لوگوں کو جانچا اور پرکھا اور درست پایا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ہاتھ ملانے کا لمحہ میری زندگی کے خوبصورت ترین لمحوں میں سے ہے۔

میں آج تک اس لمس کی تاثیر اپنی روح تک محسوس کرتا ہوں۔ان کے دل کی سچائی، باطن کی روشنی اور کردار کی عظمت اب بھی میرے ہاتھوں میں پیوست ہے۔28 مئی کو ان کا ایک پیغام کسی نے اپنے موبائل میں ریکارڈ کیا جس میں وہ مختصرا ساری تاریخ بتا تے ہوئے آخر میں کہہ رہے تھے کہ دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا اس لئے میں اب فلاحی کاموں پر توجہ کر رہا ہوں۔ ہم نے اپنی اس قوم کے عظیم محسن کے ساتھ جو کیا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے ۔

اگر کسی نے ان کا فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے انٹرویو نہیں سنا تو میرے کہنے پر ایک بار ضرور سنیں اگر آپ کے ضمیر میں زندگی کی رمق موجود ہے تو اپنے آپ اور اس نظام سے گھن آنے لگے گی ۔
ہم تو آج تک قائد اعظم کی طبیعت بگڑنے پر تاخیر سے آنے والی ایمبولینس اور پھر رستے میں اس کی خرابی کی وجوہات اور اس کے پیچھے کرداروں کو نہیں جان سکے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پیش آنے والے المیے کی خبر کہاں سامنے آ سکے گی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے سانس آزاد فضا میں لے رہے ہیں ورنہ ہمارے پاس ہیروز کو پابند سلاسل کرنے اور نشان عبرت بنانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔اس میں حیران ہونے والی بھی کوئی بات نہیں کہ عوام کے جذبات کی ڈگڈگی بجانے والے میڈیا چینلزاور محبت وطن اینکرز میں سے کسی کو دھرتی کے محسن کی یاد نہیں آئی۔ہم کتنے بے حس ہیں کہ اپنے محسنوں کو مجرم بنا کے پیش کر دینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ،ہم کتنے موقع پرست ہیں کہ اپنی جان بچانے والوں کی بھی جان کے درپے ہو جاتے ہیں اور ہم کتنے مجبور ہیں کہ سچ کو سامنے دیکھ کر بھی اسے جھوٹ ثابت کرنے میں اپنا زور لگا دیتے ہیں۔

یاد رکھئے قومیں اپنی اقدار کے تحفظ، اپنی روایات کی پاسداری اور اپنے محسنوں کی قدر سے رفعت پذیر ہوتی ہیں۔اور ہم نہ اپنی اخلاقی قدروں کی حفاظت کر سکے نہ اپنی تابندہ روایات کے امین بن سکے اور نہ اپنے احسان کرنے والوں کو عزت دے سکے اور حیرت ہے کہ پھر بھی اس خوش فہمی میں خود کو مبتلا رکھتے ہیں کہ ہم ایک عظیم قوم بن کر ابھریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :