اپنی تاریخ بھی زندہ کریں

پیر 25 جنوری 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

چند دن پہلے وزیر اعظم پاکستان نے ترکی سے آئے معروف ڈرامہ ارطغرل غازی کے فنکاروں سے ملاقات کی جس میں وہ کافی پرجوش نظر آ ئے۔یہ ملاقات پہلے سے طے تھی یا اس کا انتظام فوری طور پر کیا گیا یہ معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیر اعظم  مسلم تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور میڈیا میں اس کے حوالے سے کام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس ملاقات میں انہوں نے’’ ترک لالہ‘‘ ڈرامہ بنانے کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔اپنے ایک ٹویٹ میں ایک درویش شاعر ’’یونس ایمری‘‘کی زندگی پربننےوالے ڈرامے  کو دیکھنے کی تاکید بھی کر چکے ہیں جسے اردو ترجمے کے ساتھ نیشنل چینل پر دکھایا جا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی وی پر اردو ترجمے کے ساتھ دکھائے جانے والے ڈرامے ارطغرل غازی نے مقبولیت کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے گو کہ ایک معروف فلم ڈائریکٹر سے جب ارطغرل غازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس میں کوئی خاص چیزنظر نہیں آئی۔

(جاری ہے)

بس چند گھوڑے ہیں جن کو بھگا کر کبھی ایک طرف لے جاتےہیں اور کبھی دوسری طرف۔گویا  جب ذہنوں پر عریانیت کی گرد جمی ہو،ذومعنی جملے کلچر کا حصہ سمجھ کر شامل کئے جانے لگیں اور فلم کی کہانی محض منہ زور معاشقےکو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے تک محدود ہو تو تاریخ کی سچائی واقعی گھوڑوں کی گرد اڑاتی ایک کہانی نظر آتی ہے۔اب تک ترکی کے بعد پاکستان میں یہ ڈرامہ دیکھنے والوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ  ریکارڈ کی گئی ۔

اس سے  دو بنیادی  باتیں تو بہت واضح ہو کر سامنے آتیں ہیں کہ بحیثیت مجموعی وطن عزیز میں دینی  شعائر اور اسلام سے محبت رکھنے والے افراد کی تعدادنام نہاد  لبرلز اور دین بیزار لوگوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے دوسرا طبقہ  اہم عہدوں اور شعبوں میں براجمان ہونے کی وجہ سے معاشرے میں ایسی چیزوں کو فروغ دینے  کے زبردستی درپے ہے جو کم از کم یہاں کےباسیوں کی کثیر تعداد کا تو تقاضا ہر گز نہیں اور دوسری بات اس سے بھی زیادہ چشم کشا ہے کہ آج بھی اگر تاریخی حقائق اور دینی و ملی جذبے کے امتزاج سے چیزوں کو میڈیا کےذریعے دکھایا جائے تو لوگ اس کی پذیرائی کھلے بازؤں سے کرتے ہیں۔

اس بات سے محنت سے جی چرانے والے ان عناصر کا نظریہ بھی باطل ہوتا ہےجوحقائق کے منافی کرداروں کو  مسلسل دکھائے جانے پر یہ پراپیگنڈہ  کرتے ہیں کہ لوگ یہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ہمارے ڈراموں کے موضوعات کے بارے میں ایک دانشور کا کہنا ہے کہ یہ فحاشی کے فروغ ، ناجائز تعلقات کو جائز سمجھ کر استوار کئے جانے  اور طلاق کی شرح کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ۔

لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اپنی قوت رکھتی ہے اور اس حوالے سے کیا جانے والا کام آپ کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے۔ترک تاریخ سے ماخوذ ڈرامے کی تحسین  اپنی جگہ لیکن ہمیں اس سے سیکھ کر اپنے ڈراموں اور کہانیوں کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ہماراقومی ادارہ جس کے سینٹرز تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں اس سلسلے میں بہت فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ڈرامے ہماری تہذیب، ثقافت اور طرز زندگی کے ترجمان بن کر ہمسایہ ملک میں بھی سراہے جاتے رہے ہیں۔ترک ہمارے بھائی ہیں اور یقینا ان کی کامیابیوں کی تاریخ سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اتنے بڑے ادارے کو فعال کرتے ہوئے اپنی تاریخ  کوزندہ کرنے کا بھی اہتمام کریں۔جناب احمد ندیم قاسمی  کہاکرتے تھے  ہمارے اردگرد موجودہر شخص کے ساتھ جڑی ہوئی کم و بیش دس کہانیاں ہوتیں ہیں جن کو لکھا اور فلمایا جا سکتا ہے۔

اس لئے نہ تو موضوعات کی کمی ہے ، نہ ہماری تاریخ کمزور ہے اور نہ ہی اس کو فلمائے جانے کے حوالے سے ہمارے پاس باصلاحیت لوگوں کی کوئی کمی ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم تاریخی موضوعات پر کام کریں تو ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بہت لازوال قربانیاں دیں اور اس کی ناکامی کے نتیجے میں بہت ساری سختیاں ، مصیبتیں اور کٹھن حالات کا استقامت اور ہمت سے مقابلہ کیا۔

اس کے نتیجے میں مسلمانوںکومعاشی اور سماجی  مظالم کا بھی سامنا کرنا پڑا  اور انہیں معاشرتی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لئے ہر طرح کے  حربے استعمال کئے گئے جوایک طویل اور قابل وجہ موضوع ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ جس کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور انگریز  کےدور رس اقدامات نے اس کی اہمیت کو لوگوں کی نظروں میں کم کر دیا وہ علماء کا ہے جو  اس مشکل وقت میں ظلم کے پہاڑ کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار  بن کر کھڑے رہے  ۔

علمائے کرام نے جرات و بہادری اور  صبر و استقلال کی نہ بھولنے والی  داستانیں رقم کیں۔کالے پانی کی سزاؤں کے مستحق ٹھہرے ، پھانسی  کے پھندے گلے میں ڈالے گئے ،لیکن آزادی کے اس سفر میں انہوں  نے  اپنے آپ کو نہیں بیچا اورتختۂ دار تک رسول اللہ کے دین کا علم تھام کر مسکراتےہوئے گئے۔کرامت علی شہیدی ،مولاناغلام امام شہید ،مولانا لطف بریلوی جیسے لازوال کردار تاریخ کی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں۔

مولانا کفایت علی کافی کی یہ نعت اور اس کے پس منظر سے اپنی نسل کوضرور  آگاہ کرنا چاہئے جو پھانسی گھاٹ تک جاتے ہوئے یہ اشعار گنگنا رہے تھے ،’’کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا۔پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا‘‘۔اسی تناظرمیں دوسری طرف ان کرداروں کی نقاب کشائی بھی کی جائے جنہوں نے انگریز حکومت کے سائے تلے پناہ لے کر غداری  کے تمغے سینوں پر سجا کر اس کے عوض جاگیریں اور عہدے وصول کئے۔

یہ کردار کسی  نہ کسی شکل  میں آج تک انگریز کی نشانی کے طور پر  حکومتی ایوانوں اور دیگر مراعات یافتہ عہدوں پر براجمان دکھائی دیتے ہیں اور دینی و ملی  غیرت  کا سودا نہ کرنے والے آج بھی بالواسطہ انگریز ی استعمار سے فیض یافتہ طبقے کے زیر دست ہیں۔یہ سب کردار ہمارے ڈراموں کے موضوعات کا ایک وسیع حوالہ بن سکتے ہیں۔۱۹۴۷ میں قیام پاکستان  اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی سیاسی جد و جہد  اور دی جانے والی قربانیوں کا سفر بھی بہت دلگداز اور ہوشربا ہے ۔

اسے نوجوانوں کو دکھائیں کہ آزاد وطن میں سانس لینے کے لئے ہمارے آباؤاجداد کا کتنا خون بہایا گیا، کتنے ہنستے بستے رشتوں نے اس کی قیمت چکائی ، کتنی عصمتیں  اس آزادی کی بھینٹ چڑھیں۔جس جس گوشےپہ نظر کریں گے موضوعات کا ایک جہان  آبادنظر آئے گا۔پھر اگر صوفی ازم پہ کام کرنے کی خواہش ہو تو تصوف و روحانیت کے کیسے کیسے روشن مینار یہاں جلوہ گر ہیں ۔

سید علی بن عثمان ہجویریؒ، بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، شیخ بہاؤالدین ذکریا ملتانی ؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کہاں تک گنتے چلے جائیں۔صوفی شعراء کی بات ہو تو سید وارث شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، میاں محمد بخشؒ، شاہ حسینؒ ،بلھے شاہ قصوریؒ جیسی شخصیات کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔اور تو اور ہم ابھی تک اپنے قومی شاعر حضرت اقبالؒ پر بھی میڈیا کے حوالے سے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کر پائے۔

پھرموجودہ حالات کے تناظر میں پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کی گراں قدر  خدمات اور ان کی قربانیوں پر درجنوں موضوعات  اہل قلم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔گزارش صرف اتنی ہے کہ ’’ترک لالہ‘‘ بھی بنائیں، ارطغرل اور عثمان بھی اردو ترجمے کے ساتھ ضرورپیش کریں لیکن ہماری اپنی تاریخ  کی ترجمانی اور اس کو زندہ کرنے کی طرف بھی ہمارے لکھاریوں اور میڈیا کے اداروں کی توجہ دلائیں یعنی  اگر خود تاریخ کے روشن اوراق میں زندہ رہنے چاہتے تو اپنی تاریخ بھی زندہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :