مولانا عبدالقوی اور چند معاشرتی المیے

جمعہ 29 جنوری 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

مولانا عبدالقوی ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار ہے جس کے پنپنے اوراسے اس نہج تک پہنچانے میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں جو کسی نہ کسی حد تک اپنی اپنی سطح پہ اس کے ذمے دار ہیں۔چند دن پہلے ان کے خاندان کی طرف سے ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں ان سے مفتی کا عہدہ واپس لینے، موبائل فون ضبط کرنے اور قید تنہائی ڈال کر ان کا نفسیاتی علاج کرانے کی بات کی گئی ۔

اس کانفرنس میں ان کے چچا اور امراض قلب  کے معالج بھی جو ان کے عزیز ہیں ان کی ذہنی حالت کا  کو ہی فوکس کر رہے تھے۔ اگر غور کیا جائےتو حالات کو اس حد تک لیجانے میں  خاندان کے لوگ سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔اگر ان میں اتنی قوت اوراس منہ زوری کو روکنے کی صلاحیت تھی  تو یہ قدم آج سے بہت پہلے  اٹھا لینا چاہئے تھا ۔

(جاری ہے)

اس کانفرنس میں بھی ان کا  زیادہ زور اس بات پر تھا کہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کی بہت سبکی ہو رہی ہے جو ایک مذہبی شناخت کا حامل ہے۔

حیرت ہے کہ دینی شعائر کے ساتھ کیا جانے والا کھلواڑ، مذہبی لبادے میں کی جانے والی  لامذہبیت، شریعت کے بھیس میں ہونے والے غیر شرعی کام اور دین کا درد  رکھنے والوں  کی شرمندگی ،کچھ بھی اتنا  اہم نہیں تھا جس کی وجہ سے  یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا ۔ان کی گفتگو کا زور  نفسیاتی صحت  کے خراب ہونے پر زیادہ تھا جس کے سبب یہ بیماری عذر معصومیت  زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔

علمائے کرام کی طرف سےکسی قابل ذکر اور موثر آواز نہ اٹھایا جانا بھی حیرت انگیز امر ہے۔عرصہ دراز سے ہونے والی غیر شرعی حرکات  اور دینی احکامات کے ساتھ ہونےوالی بے اعتدالی پر اس حلقے کی خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ہمارے بیشتر مفتیان کرام اور خطبا نعت خوانوں کی خبر لینے میں اتنے مصروف رہے کہ ان کو  اپنے ناک تلے ہونے والی گھناؤنی سازش  دیکھنے کا موقع ہی میسر نہیں آیا جو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس ساری صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی  بہت گھناؤنا  ہے  جس کے ذریعے  اس شخص کی پہچان خطرناک حد تک آگے بڑھی اور وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر تیر پھینکتا چلا گیا۔بحیثیت  مجموعی معاشرے میں  چیزوں کے بگڑنے کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے میڈیا کا بنیادی  ہاتھ نظر آتا ہے ۔ہر اچھی شہرت نہ رکھنے والاغیر موزوں شخص  میڈیا کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے اور ایسا شخص  اگر مذہب کو مذاق بنا لینے کا حوصلہ رکھتا ہو تو یہ ان کی مزید ضرورت بن جاتا ہے۔

وہ تمام اینکرز جو اپنا شو بیچنے کے لئے اس کو بطور مہرہ استعمال کرتے ہوئے اپنے شوز کا حصہ بناتے رہے وہ بھی  ان جرائم کو اس مقام تک لانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔اسی طرح شہرت کے رسیا  اس شخص کو اخبارات میں نمایاں خبریں دینے والے صحافی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔کوئی بھی دینی علمی ادبی خبر کو ایک کالم چھپوانے کے لئے کون کون سا واسطہ ڈھونڈھنا پڑتا ہے مگر ایسی مکروہ خبریں جن سے معاشرے کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچنےکا اندیشہ ہوتا ہے اخبارات کی تین چار کالم جگہ آسانی سے حاصل کر لیتی ہیں۔

مقام حیرت  ہے کہ حضرت ببانگ دہل  موجودہ حکمران سیاسی جماعت سے اپنی  وابستگی کا دم  بھی بھرتے رہے اور اس کی کوئی واضح تردید بھی سامنے نہیں آئی  ۔یہ حقیقت ہے سیاسی جماعتوں کے مذہبی ونگ میں  کوئی صاحب علم اور سنجیدہ فکر شخص کم ہی جگہ بنا پاتا ہے لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے اس کا ادراک شاید کسی کو نہیں تھا۔سول سوسائٹی نے بھی  اس صورتحال پہ خاموشی اختیار کئے رکھی جس میں ہم سب لوگ شامل ہیں جو بذات خود ایک المیہ ہے۔

افسوس کہ وہ چند لوگ جنہیں ہم لبرلز یا موم بتی مافیا کہتے ہیں اپنے مفادات کے منافی ہونے والے ہر معاملے میں کہیں نہ کہیں باہر نکل آتے ہیں لیکن ہم کثرت میں ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ایک نیا طبقہ جس نے بہت تیزی سے ہمارے معاشرے میں جگہ بنائی ہے وہ سیلفی کے شوقین حضرات کا ہے۔ان صاحب کو بارہا اپنی مقبولیت اور پسندیدگی  کے لئے یہ دلیل دیتے سنا گیا کہ میں جس جگہ بھی جاتا ہوں لوگ میرے ساتھ سیلفی بنانے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔

فلاں تقریب میں گیا تو ۲ گھنٹے لوگ میرے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ ایسا چیلنج  بھی سننے میں آیا کہ باہر کھڑے ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ لوگ کس کے ساتھ زیادہ سیلفیاں بناتے ہیں۔اگر دین سے تعلق رکھنے والے شخص کی مقبولیت اور اس کی حیثیت ماپنے کا یہ معیار قائم کر لیاجائے تو ایسے لوگوں کی ذہنی سطح کا بخوبی اندا دہ لگایا جا سکتا ہے ۔اور سب سے آخر میں وہ عقیدت مند جو اس سب کے باوجود بھی ان حضرت سے  عقیدت کا دم بھرتے ہیں ان کے حوالے سے تو ایک لطیفہ یادآ گیا کہ ایک نام نہاد  صاحب مسند حضرت کسی خاتون کو لے کر فرار ہو گئے اور پولیس ان کو پکڑنے کیلئے چھاپے مار رہی تھی۔

مریدین مل کے بیٹھے پریشان تھے کہ اگرکہیں بھی  حضرت پکڑے گئے تو  بنی بنائی عزت کا جنازہ نکل جائے گا ۔ ان میں سے ایک سرغنہ عقیدت مند نے فوراً انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا   آپ  بالکل فکر نہ کریں کیونکہ حضرت کے روحانی مقامات اور مدارج  اس قدر بلند ہیں کہ پولیس سامنے آ کربھی کھڑی ہوجائے  تو اس کی بینائی جاتی رہے گی اور وہ  انہیں  دیکھ ہی  نہیں پائے گی پکڑنا تو بہت دور کی بات ہے۔حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ جب تک ہم اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئےایسے منفی عناصر کی روک تھام کے لئے قدم نہیں بڑھاتے یہ کردار معاشرے  کو کھوکھلا کرتے رہیں گے ۔چونچ میں لیا گیا پانی چھڑکنے سے بھڑکتے شعلے تو بجھائے نہیں جا سکتے لیکن ضمیر کا اطمینان  ضرور حاصل ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :