ناموس رسالت پر غامدی صاحب کا موقف۔چند گزارشات

جمعرات 29 اپریل 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

اہل علم و دانش کے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک قابل احترام شخصیت نے مجھے بھی شامل کر رکھا ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نابغۂ روز گار شخصیات موجود ہیں۔میں اس گروپ میں سب سے کم عمر ہونے کی بنا پر خاموشی سے بزرگوں کی گفتگو سنتا رہتا ہوں اور احتراما لب کشائی سے گریز کرتا ہوں۔گزشتہ روز اسی گروپ میں ناموس رسالت اور مغرب میں توہین رسالت کے حوالے سے بننے والے کارٹونز پر ایک علمی نشست میں غامدی صاحب  کا ایک کلپ شیئر کیا گیا جس میں  سوال کیا گیا کہ بطور مسلمان رسول اللہ کی توہین اور ان کے مذموم خاکے بنائے جانے ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟یہ مختصر کلپ سننے کے بعد میں نے چاہا کہ اس پر اپنی رائے گروپ میں پیش کروں لیکن پھر یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ان نکات کی روشنی میں اپنی رائے میں قارئین کو بھی شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

غامدی صاحب بلاشبہ ایک زیرک، صاحب علم اور بات کو منطق اور دلیل سے کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ان کے حلقۂ ارادت میں پڑھے لکھے لوگ  اور خصوصا نوجوان طبقہ ان کی کی فکر سے متاثر ہے۔ا س سوال کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ کچھ  یوں ہے "ایسی چیزوں کوبالکل نظر انداز کر دیجئے  اور ایسے موقعوں پر بہت شائستگی کا مظاہرہ کیجئے،آپؐ کی اخلاقی شخصیت کو اجاگر کیجئے، لوگوں کو بتایئے کہ آپ کس قدر محبت کرنےو الے تھے۔

ایسے موقعوں پر آپ کی سیرت کا  تعارف لوگوں سے کروائیے ۔جو آپ کی شان کی گستاخی کرتا ہے اس کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی وہ دور کرنی چاہئے، ہمیں احتجاج کر کے دوسروں سے پیغمبر کو عزت   دینے کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔شائستگی، تہذیب،صبر اور حکمت سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ ہم نے ایسے لوگ جن کی تحریروں کو کوئی پڑھنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا  ہیرو بنا دیا ہے اور حاصل کیا کیا ہے کچھ بھی نہیں؟اس روئیے کو بالکل نظر انداز کر دیجئے۔

رسول اللہ نے اپنی زندگی میں لوگوں کی گالیاں  کھائی ہیں۔آپ کا نام بگاڑا گیا تو آپ نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ جو کچھ اس حوالے سے آپ کو بتایا جاتا ہےوہ سب بے بنیاد باتیں ہیں۔صبر اور حکمت کے ساتھ اپنے پیغمبر کے اخلاقی وجود کا تعارف کروائیے۔یہی آپ کی ذمہ داری ہے"۔اس پیرا گراف  کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بہت سی باتیں وضاحت طلب ہیں جو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کی گئی ہیں۔

حضور کی حلیمی ، بردباری، تحمل برداشت اور حسن سلوک پہ کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن کیا یہ بات تاریخ کے اوراق میں موجود نہیں ہے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کر دیا گیا اور سخت ترین تکلیف دینے والوں کو بھی معاف کر دیا گیا  لیکن کعب بن اشرف جو توہین رسالت کا مرتکب تھا اس کے بارے میں حکم دیا گیا تھا کہ اگر کعبے کے غلاف میں بھی چھپا ہو تو اسے زندہ نہ چھوڑ ا جائے۔

بات جب توہین رسالت کی آئے گی توہمیں لوگوں کو سمجھاتے ہوئے اسی نوعیت کے واقعات کو سیرت سے لے کر لوگوں کو سمجھانا ہو گا کہ آپ کا رد عمل اس موقع پر کیا تھا۔آپ کو ایزا رسانی اور بدکلامی، سنگ زنی کے واقعات اسلام کے اوائل مکی  دور کے ہیں جبکہ ہجرت مدینہ کے بعد  جب ریاست کا قیام  عمل میں آیا تو تب اس کی آپ اور اصحاب کی طرف سے کہیں اجازت نہیں دی گئی۔

آپ  کے چچا نے  ایک موقع پر بات کرتے ہوئے اپنا ہاتھ آپ کی داڑھی مبارک کی طرف بڑھایا  تو صحابہ نے فورا ہاتھ کو جھٹک دیا اور تنبیہ کی کہ اگر اب رسول خدا کی طرف ایسے ہاتھ بڑھایا تو اسے توہین سمجھتے ہوئے ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔یہ بات کیا سیرت کے واقعات میں موجود نہیں ہے کہ  کفار کے شعراء نے جب آپ کی ہجو کی تو باقاعدہ اصحاب کو جمع کر کے ان سے تقاضا کیا کہ تم اللہ کے نبی کے لئے اپنی تلواریں تو لے کر نکلتے ہو لیکن یہاں اس توہین پر کیوں خاموش ہو جس پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالک، عبداللہ بن رواحہ کو کفار کے حسب نسب اور شخصی خرابیوں کا  اسی طرح  ان کی زبان میں جواب دینے کا حکم دیا گیا ۔

جب ابو لہب نے گستاخانہ الفاظ کہے تو خود باری تعالیٰ نے سورہ نازل فرمائی جس میں کہا کہ ابو لہب تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں۔کیا حضور نے وصال سے قبل جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی طرف لشکر روانہ کرنے کا حکم صادر نہیں فرمایا جسے خلیفۃ الرسول حضرت صدیق اکبرؓ نے آپ کے وصال کے بعد بھی روانہ کیا جس میں کثیر تعداد میں حفاظ اصحاب رسول  کی شہادت ہوئی ۔

ایک بات بہت حیران کن انداز میں کی گئی کہ ہمیں رسول کی زبردستی عزت کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہم میں سے کون مغرب سے حضور کی عزت کرنے کی بھیک مانگ رہا ہے؟ان پر کون اس معاملے میں جبر مسلط کر رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انہیں توہین  رسالت کی  کھلی اجازت دے دی جائے  ۔قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہے جن قوموں پر عذاب الہٰی نازل ہوا شرک کے بعد ان بڑا گناہ توہین رسالت ہی تھی۔

کون نہیں جانتا کہ ایسے حربے  کوئی اتفاقی نہیں بلکہ محض اہل ایمان کے دلوں میں متاع عشق رسولؐ کی لو کی حدت جانچنے کے لئے کئے جاتے ہیں جس کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ۔   عالم کفر کو معلوم ہے کہ مسلمان ہر تکلیف برداشت کر سکتا ہے  لیکن جس دن اس نے توہین رسالت پہ خاموشی اختیار کر لی اس دن اس کا وجود مٹانا آسان ہو جائے گا۔ایک صاحب بہت اچھی بات کی کہ اگر عافیت چاہئے تو عام مسلمان بن کر زندگی گزار دیجئے لیکن اگر دعویٔ عشق رسول  کرنا ہے  تو اس کے تقاضے پورے کرنا بہت مشکل ہیں۔

کوئی ہمارے ماں باپ کو جانتے بوجھتے ہوئے گالی دے، ان کی تصویروں بگاڑ کر چوراہوں پر لٹکائے تو واقعی اس موقع پر ضبط کرکے اپنے بڑوں کے اخلاق و اوصاف بیان کرنا  عام انسان کے بس کی بات تو نہیں۔  جنگ احد سے واپسی پر ایک صحابیہ کو بتایا گیا کہ اس کے والد، شوہر اوربھائی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں تو انہوں نے  اس پر غم کی بجائے  رسول خدا کی خیرت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

عشق رسول  دراصل سیدھے سادھے اہل محبت کا مسئلہ ہے جو اسے ہی متاع دنیا و آخرت سمجھتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں نے حرمت رسول کی خاطر کٹ مرنے  کو ایمان کی کاملیت کہا اورحکیم الامت حضرت اقبالؒ نے غازی علم الدین کا جسد خاکی لحد میں  اتارتے ہوئے کہا تھا کہ ہم صرف باتیں ہی  کرتے رہ گئے اور " ترکھانا ں دا منڈا بازی لے گیا"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :