دنیا کی امامت اور امت مسلمہ

جمعہ 15 جنوری 2021

Shabbir Ibne Adil

شبیر ابن عادل

تاریخ  کی ورق گردانی کرتے ہوئے یا کسی اسکالر کی تقریر سننے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں قبل مسلمانوں یا ہمارے آبا واجداد نے ایک ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی اور نہ صرف یہ کہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر ان کا سیاسی غلبہ رہا بلکہ انہوں نے علوم اور فنون میں بھی بے مثال ترقی کی۔ سائنسی تحقیق میں اپنے جھنڈے گاڑ دئیے، علمی میدان میں وہی سرخرو تھے غرض ہر شعبے میں وہ وقت کے امام تھے، بالکل اسی طرح جیسے اب دنیا کی زمام کار مغرب کے ہاتھوں میں ہے۔


 بغداد، شام، غرناطہ، وغیرہ علم و ادب کے مراکز تھے اور وہاں نہ صرف عالم اسلام بلکہ یورپ سے غیرمسلم بھی علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔  سائنسی تحقیق اور مختلف علوم پر تحقیق اور تصانیف کے بڑے بڑے مراکز قائم تھے۔

(جاری ہے)

اس زمانے میں چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا، اسلئے ہاتھ سے کتابیں تحریر کی جاتی تھیں اور ان کی نقول تیار کرنے والے کثرت سے پھیلے ہوئے تھے۔

بڑے بڑے کتب خانوں میں نہ صرف یہ کہ ہزاروں کتابیں ہوتی تھیں، ان کے مطالعہ کے لئے نہ صرف مقامی افراد بلکہ سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے طالبان علم آیا کرتے تھے۔ ان کے قیام اور طعام کے لئے کتب خانوں میں الگ سے عمارتیں ہوتی تھیں اور ان کا خرچہ حکومت کے ذمے ہوتا تھا۔
مسلمانوں نے ہی طب، فزکس، کیمسٹری، ریاضی، جغرافیہ، فلکیات، خلائی سائنس، تاریخ اور ادب عالیہ سمیت تمام علوم میں بے مثال ترقی کی تھی۔


لیکن پھرہوا کیا؟ اگر سیاسی اور فوجی اعتبار سے مسلمانوں پر زوال آیا توپھر علم و ادب کے میدان میں کیوں شکست پر شکست ہوتی چلی گئی۔ہوا یوں کہ صلیبی جنگوں میں کلیسا نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور ان میں مغرب کو شرمناک شکست ہوئی، چونکہ کلیسا نے عیسائیوں کی زندگی اجیرن کردی تھی عام شہریوں پر ناروا پابندیاں تھیں اسلئے پہلی جنگ عظیم سے قبل وہاں کلیسا کے خلاف بغاوت ہوئی اور مذہب کو چرچ تک محدود کردیا گیا۔


اس کے بعد مغرب نے عالم اسلام کے خلاف سازشیں کی اور یلغار کی اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مسلمان پسپا ہونا شروع ہوئے تو مغرب (یعنی برطانیہ اور پھر امریکہ) نے انہیں علمی میدان میں بھی پسپا کرنا شروع کیا۔ اس کی تیاری انہوں نے اپنے سیاسی عروج کے ساتھ ہی شروع کردی تھی۔یعنی عربی کتب کے وسیع پیمانے پر انگریزی میں تراجم ہوئے اور مغرب میں علم اور تحقیق پر بھرپور توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں مغرب یا اہل کفر کو عروج حاصل ہوتا چلاگیا اور مسلمانوں کو زوال۔

اور زوال پر زوال۔ بربادی کے بھنور میں ایسے پھنسے کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔
اب اگر مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا اور دنیا کی امامت کے منصب پر دوبارہ براجمان ہونا ہے تو پہلے پوری دردمندی کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور توبہ اور استغفار کرنا ہوگی۔ اس کے بعد قرآن وسنت کو تھامنا ہوگا پوری طرح ان پر عمل کرنا ہوگا۔ اور مسلم ملکوں کے تعلیمی اداروں میں بھرپور انداز میں تعلیم اور خاص طورپر تحقیق کو فروغ دینا ہوگا۔

کیمبرج یعنی او لیول کے بجائے اپنا نظام تعلیم وضع کرنا ہوگا۔ یکساں نصاب اپنانا ہوگا اور امت کے ہر فرد کو اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پھر علمی تحقیق کو پورے خلوص سے فرو غ دینا ہوگا۔
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، دوسری عالمی جنگ میں اسے ایٹم بموں کا نشانہ بنایا گیا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک طرح سے جاپان کو غلام بنا لیا یعنی انہیں فوج رکھنے کی اجازت نہیں۔

لیکن دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے ٹیکنالوجی میں ترقی کرکے اپنی تجارت کے بل بوتے پر عالمی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ دوسری مثال چین کی ہے، جہاں قیام پاکستان کے پورے دو سال بعد سوشلسٹ انقلاب آیا۔ وہ قوم بہت پسماندہ اور افیونچی کے نام سے بدنام تھی اور اب ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
ہماری نجات اللہ اور رسول ﷺ کی تعلیمات کو اپنانے اور اس کے علوم کو اپنانے میں ہے۔ علوم پروسیع پیمانے پر  تحقیق کرکے ہی ہم دنیا کی امامت کے منصب پر بیٹھ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :