سستے زمانے۔۔۔ خواب وخیال کی باتیں

منگل 9 مارچ 2021

Shabbir Ibne Adil

شبیر ابن عادل

چند روز قبل میں نے ایک گداگر کو دس روپے دئیے تو اس نے بہت بے دلی کے ساتھ مجھے واپس کردئیے اور کہا کہ بھلا اس میں کیا ہوگا؟ اتنے پیسے تو دے دیں کہ ایک وقت کا کھانا کھاسکوں۔ یہ سن کر مجھے بڑا دکھ ہوا، اس  لئے نہیں کہ اس نے میرا دل دُکھا یا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ دس روپے کی کوئی وقعت نہیں رہی اور سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بھی دس روپے لینے کو تیار نہیں۔

مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے، جب دس روپے میں چالیس افراد پیٹ بھر کر کھانا کھالیتے تھے۔ ممکن ہے کہ موجودہ نسل کے بہت سے لوگوں کو میری اس بات پر یقین ہی نہ آئے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ دس روپے میں چالیس افراد کیسے کھانا کھاسکتے ہیں؟
جی ہاں۔ یہ پچپن یا ساٹھ سال پرانی بات ہے، جب میں چھوٹا تھا، عمر کوئی آٹھ دس سال ہوگی۔

(جاری ہے)

اس وقت ایک روپے میں سولہ آنے ہوا کرتا تھے اور ایک روپے میں سولہ روٹیاں ملاکرتی تھیں۔

دو آنے کا سالن مل جاتا تھا۔ دو آنے کا سالن اور دو آنے کی دو روٹیاں۔ اس طرح چار آنے میں ایک فرد پیٹ بھر کر کھانا کھالیتا تھا۔ یعنی ایک روپے میں چار افراد ایک وقت کا کھانا کھالیتے تھے۔
کیا زمانے تھے، جب پورے شہر کراچی میں ٹیکسی کرائے پر لے کر دو تین گھنٹے گھومو پھرو۔ کلفٹن کی سیر کرو اور واپس آ کر اسے پچیس روپے دے دو تو ٹیکسی ڈرائیور خوشی خوشی دعائیں دیتا ہوا چلا جاتا تھا۔


یہ بات تو ریکارڈ پر ہے اور گوگل پر دیکھی جاسکتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت یعنی14 اگست 1947ء میں ایک امریکی ڈالر تین روپے تیس پیسے پاکستان روپے کا تھا۔اور۔۔۔ اور۔۔۔ قیام پاکستان کے وقت سونے کے نرخ ستاون (57) روپے فی تولہ تھے۔ اس اعتبار سے ہر شے کی قیمت کم تھی۔ یعنی اسے سستا زمانہ کہا جاتا ہے۔
اسی گز کا ایک چھوٹا سا مکا ن چار پانچ ہزار روپے میں اور دوسو گز کا مکان دس بارہ ہزار روپے میں مل جاتا تھا۔

جبکہ عام دنوں میں استعمال کیلئے ایک جوڑاپچاس ساٹھ روپے اور تقریبات میں پہننے کے لئے سو ڈیڑھ سو روپے میں دستیاب تھا۔ جبکہ جوتے کی قیمت پانچ چھ روپے تھی، دو تین سو روپے میں اسکوٹر اور چودہ پندرہ ہزار روپے میں نئی کار مل جاتی تھی۔ غرض کس کس چیز کے نرخ بتائے جائیں، بلکہ اب تو بتاتے ہوئے خود پر بھی یقین نہیں آتا لیکن میرے ہم عمر افراد (جن کی عمریں ساٹھ اور اسی سال کے درمیان ہیں) اس کی تصدیق کریں گے۔


 مزید پیچھے یعنی ایک صدی قبل پاکستان کے قیام سے بھی پہلے کی باتیں اپنے بزرگوں سے سنی اور کتابوں میں پڑھی ہیں تو حیرت سے انگشت بدندان رہ جاتے ہیں کہ اتنا سستا زمانہ۔ ایک روپے میں دو بکرے اور دو روپے میں ایک گائے۔ وغیر ہ وغیرہ۔
بہت دور کیوں جائیں، نوے (90ء) کے عشرے کی بات ہے، میں نے خود ایک تقریب میں دوسو افراد کا کھانا صرف چھ ہزار روپے میں کیا تھا۔

اس سے اور آگے آئیں، سن دوہزار (2000ء) کے آ س پاس کی بات ہے، کراچی میں دوہزار مربع فٹ کا اپارٹمنٹ ایک متوسط علاقے میں پچیس تیس لاکھ کا مل جاتا تھا اور اب؟ ایک ڈیڑھ کروڑ روپے میں۔  
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ُاس زمانے میں تنخواہیں اور آمدنی بھی کم تھی، بالکل درست ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں میں قوت خرید تھی اور وہ سکون سے زندگی بسر کرتے تھے۔

ان کی زندگی کے سارے کام چلتے تھے۔
آمدنی کے حوالے سے میرا یہ دعویٰ ہے اور برحق دعویٰ ہے کہ نصف صدی یا اس سے بھی قبل موجودہ دور یعنی سن ۱۲۰۲ء کے مقابلے میں تنخواہیں اور آمدنی زیادہ تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ قیام پاکستان کے وقت سونا ستاون (57) روپے فی تولہ تھا اور اب سوا لاکھ روپے فی تولہ ہے۔ اس اعتبار سے سن 1947ء میں غریب مزدور کی تنخواہ اوسطاً پچیس روپے ہوا کرتی تھی، وہ موجودہ دور کے اعتبار سے پچاس ساٹھ ہزار روپے ہوئے۔

اب یہ تنخواہ ایک تعلیمیافتہ نوجوان کی بھی نہیں۔ جبکہ غریب مزدور کو پندرہ سولہ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ملتے۔
اس صورتحال کی وجہ کیا ہے؟ یہ سوال برسہا برس سے مجھے تنگ کرتا رہا، اس سوال پربہت غور کیا، مطالعہ کیا اور ساتھیوں سے تبادلہ خیال کیا۔ میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک امر تو واضح ہے کہ پاکستان میں معاشی بربادی کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس بربادی میں غیرملکی خاص طور پر امریکہ کی سازش ہے تاکہ عالم اسلام کے مضبوط قلعہ پاکستان کو برباد کیا جاسکے اس سازش کے پہلے مرحلے میں ۱۷۹۱ ء میں مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلہ دیش بنایا گیا اور یوں قائد اعظم ؒ کے پاکستان کو ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد ایک منظم منصوبے کے تحت اس کی معیشت کو برباد کرنے کا کام شروع کیا گیا۔


ممکن ہے کہ یہ تجزیہ درست ہو، لیکن اس میں ہمارا رول کیا ہے؟ کیا ہم دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے۔ ہم انسان نہیں، روبوٹ ہیں؟ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں اور ہمارا حکمراں طبقہ۔ اس کی کرپشن نے ملک کے تاروپود بکھیر کر رکھ دئیے۔ حرص وہو س اور لالچ اور اپنے بینک بیلنس بھرنے کی آرزو حکمراں طبقے سے شروع ہوکر عوام تک پھیلتی چلی گئی۔


عمدہ اور پر آسائش گھر، کار اور بینک بیلنس کی آرزو نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑلیا اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش دیوانگی کا روپ اختیار کرگئی۔ اس جذبے نے مجموعی طورپر سب ہی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ کیونکہ جب ہر کوئی اپنا گھر بھرنے کی فکر کرے گا، ہر شخص امیر بننے کے لئے دوسروں کو روند کر آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا تو سب ہی روندے جائیں گے اور یہی ہورہا ہے۔


قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جائے گی، اپنی زندگی سے دین کو نکال دیا جائے گا اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لئے ہر کام کیا جائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ اجتماعی بربادی ہی ہوگا۔
ایک نظر ماضی کی طرف دوبارہ ڈالیں، ماضی میں یعنی ہندوستان میں مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے عروج کے بعد معاشرہ میں کبھی بھی اس طرح کا دینی ماحول نہیں رہا جیسا کہ صحابہ کرام ؓ یا تابعین کے دور میں تھا۔

لیکن سادگی، ہمدردی، غریبوں سے محبت بلکہ آپس میں محبت، دوسروں کے کام آنا اور ایک ایسا ماحول ضرور تھا جس میں سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے۔
کرپشن، ناجائز آمدنی اور حرام مال کمانے والوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ ایسے افراد سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا۔


اس بات کو مزید واضح طور پر بیان کروں کہ قیام پاکستان کے بعد سے میرے بچپن تک لوگ سادگی سے رہتے تھے۔ نہ تو پرتعیش گھر، نہ بہت اعلیٰ ڈرائنگ روم، نہ گاڑی خریدنے کی فکر اور نہ کوئی اور جھنجھٹ۔ اس دور میں گھر سادہ ہوتے تھے، آبادیا ں مخلوط ہوتی تھیں، یعنی اس وقت تک امیروں اور غریبوں کی بستیاں الگ الگ نہیں ہوئی تھیں۔ ایک ہی محلے میں سبزی فروش، قصائی اور مزدور رہتے تھے اور اسی میں بینکار، لیکچرر اور سرکاری افسران بھی۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پوری گلی میں ایک یا دو کاریں ہوا کرتی تھیں اور یہی حال موٹر سائیکل یا اسکوٹر کا تھا۔ لوگ بسوں میں سفر کیا کرتے تھے اور بس اسٹاپ تک جانے کے لئے میل دو میل چلنا عام بات تھی۔  شادی کی ہر تقریب میں شرکت کے لئے بہت سے کپڑے نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ اس زمانے میں عام کپڑے پہن کر شادیوں اور دیگر تقریبات میں شرکت کی جاتی تھی۔

شادی کا ذکر آیا تو عرض کردوں کہ اس زمانے میں نہ بیوٹی پارلر تھے اور نہ ہی شادی میں فوٹو گرافی ہوتی تھی اور ویڈیو اس وقت تک ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ زیادہ تر عید بقرعید پرہی کپڑے بنائے جاتے تھے۔
گھر پرانی طرز کے ہوتے تھے، عام طور پر گھروں میں بکریاں اور مرغیاں پالنے پر توجہ دی جاتی تھی تاکہ انڈوں اور دودھ کی طرف سے بے فکری رہے اور کبھی کبھار مرغی کو ذبح کرکے اس کا گوشت بھی گھر ہی میں دستیاب ہوجائے۔

اس کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے بکریوں کی خوراک بن جاتے یوں آلودگی کا مسئلہ بھی نہیں تھا اور پلاسٹک کی تھیلیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔
ہاں ایک اور بات یاد آئی کہ اس زمانے میں نہ تو ٹیلی ویژن تھا، نہ کمپیوٹر، نہ موبائیل، نہ سوئی گیس، اور نہ ایسی کوئی اور چیز جس میں پیسہ، وقت اور اخلاق برباد ہوں۔ ٹیلی فون اور بجلی تھی، لیکن سن 1990ء تک ٹیلی فون کنکشن لگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، خود میں نے آٹھ دس سال کی جدوجہد کے بعد اپنے گھر میں فون لگوایا تھا۔

جبکہ بجلی کا استعمال اور نرخ دونوں کم تھے۔
مختصر یہ کہ پچاس ساٹھ سال قبل پاکستان میں فی کس آمدنی زیادہ تھی، مہنگائی کے بجائے سستا زمانہ تھا، سادہ طرز زندگی تھا اور آبادی کی اکثریت حرص اور لالچ سے پاک تھی اور کرپشن ایک حد تک محدود تھا۔ جس کی وجہ سے ہر ایک کی زندگی پرسکون تھی۔ کاش وہ دور پھر سے آجائے، ایسا ممکن ہے اور ہمیشہ پرامید رہنا چاہیے۔ تاہم اس کے لئے بہت بڑے انقلاب کی ضرورت ہے۔ جس کے آثار فی الحال دور دور تک نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :